مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کی ضرورت

مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کی ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

صدرِ مملکت ممنون حسین نے کہا ہے ہم بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں اور چاہتے ہیں تقسیمِ برصغیر کے نامکمل ایجنڈے، یعنی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے،اِس مقصد کے لئے پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت ہمیشہ جاری رکھے گا۔ ہم چاہتے ہیں، عالمی برادری بھی اِس سلسلے میں اپنی ذمے داری پوری کرے تاکہ علاقائی سلامتی اور پائیدار امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے، ہماری روایتی اور ایٹمی طاقت کا مقصد عالمی اور علاقائی امن کو یقینی بنانا ہے اِسی لئے ہم پوری دُنیا خاص طور پر اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن اور دوستی چاہتے ہیں،لیکن بھارت کا غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اور اس کی طرف سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کی مسلسل خلاف ورزیوں کے واقعات نے خطے کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یومِ پاکستان کے موقعہ پر اِن خیالات کا اظہار کیا۔ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن میں منعقدہ تقریب میں ہائی کمشنر عبدالباسط نے کہا ،آزادی کی تحریک کو وقتی طور پر روکا جا سکتا ہے،لیکن ختم نہیں کیا جا سکتا، حقِ خود ارادیت کے حصول کے لئے کشمیریوں کی جدوجہد ضرور کامیاب ہو گی۔ عبدالباسط نے امید ظاہر کی کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہوں گے، تنازعات کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کی راہ تلاش کر لی جائے گی۔ مسئلہ کشمیر مقامی باشندوں کی امنگوں کے مطابق ہی حل کیا جائے گا۔ امن پاکستان اور بھارت دونوں کے مفاد میں ہے اور معنی خیز مذاکرات سے ہی دیرپا امن یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازعہ ہے اور خطے میں امن کا انحصار اِس مسئلے کے حل کے ساتھ مشروط ہے، دونوں مُلک ایٹمی طاقت ہیں اِس لئے مذاکرات ہی آخری چارۂ کار ہے اور جب بھی یہ مسئلہ حل ہو گا مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہی ہوگا،لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بھارت کی کئی حکومتوں نے مذاکرات سے گریز پائی کی پالیسی اختیار کئے رکھی، اوّل تو مذاکرات ہی کسی نہ کسی بہانے تاخیر کا شکار کئے جاتے رہے اور اگر کبھی ان کا آغاز ہو ہی گیا تو بھارت کی کوشش یہ رہی کہ کم اہمیت کے حامل چھوٹے موٹے تنازعات پر بات چیت میں وقت ضائع کر دیا جائے اور کشمیر کو ایجنڈے پر ہی نہ آنے دیا جائے، ماضی کی تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی مجبوراً کشمیر پربات چیت شروع کر بھی دی گئی تو دو چار نشستوں کے بعد ختم ہو کر رہ گئی۔ نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کشمیر کے مسئلے کی گتھی وقت کے ساتھ ساتھ اتنی اُلجھ گئی ہے کہ اب سرا ہاتھ نہیں آتا۔
کشمیر کے عوام نے مذاکرات سے امیدیں لگائے رکھیں اور بھارت کی مسلسل ٹال مٹول کی پالیسی سے تنگ آ کر کشمیری نوجوانوں نے جب جدوجہد آزادی کا پرچم تھام لیا تو بھارت نے ریاستی قوت کے ذریعے اِس جدوجہد کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی،لیکن اب یہ تحریک اتنی آگے بڑھ چکی ہے کہ طاقت کے ذریعے دبانا ممکن نہیں، نہ ہی وقت گزاری سے کام لیا جا سکتا ہے۔ تحریک آزادی کا جو مرحلہ مقبوضہ کشمیر میں اِس وقت جاری ہے یہ اب کئی مہینوں پر پھیل گیا ہے۔ نریندر مودی کا خیال تھا اِس تحریک کو باہر کی حمایت حاصل ہے اور پیسہ بھی باہر سے آ رہا ہے، چنانچہ پانچ سو اور ایک ہزار روپے کے نوٹ بند کرنے کا ایک مقصد یہ بھی بتایا گیا کہ جونہی یہ نوٹ بند ہوں گے، آزادئ کشمیر کی تحریک بھی دم توڑ دے گی،لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا،کیونکہ یہ تحریک کشمیری نوجوانوں کی تحریک ہے، جنہیں پورا کشمیر جانتا ہے۔کیا برہان وانی کشمیریوں کے لئے کوئی اجنبی تھا؟ اس شہید کے والد آج بھی حیات ہیں اور کشمیر کا بچہ بچہ اُنہیں جانتا ہے وہ کئی نسلوں سے کشمیر میں رہ رہے ہیں۔
اگر مودی کا یہ خیال درست ہوتا کہ کشمیر میں آزادی کی تحریک باہر کے پیسے سے چل رہی ہے تو اب تک اِس کا شعلہ سرد پڑ جانا چاہئے تھا،لیکن یہ تحریک ہنوز روزِ اول کی طرح پوری تاب و تواں سے جاری ہے اور کشمیری نوجوان گولیوں کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ اُن کی آنکھوں میں پیلٹ گنوں کے چھرے مار کر اُن کی بینائی تو چھین لی گئی،لیکن اُن سے آزادی کا نعرہ چھیننا ممکن نہ ہو سکا، اِس صورتِ حال سے پریشان ہو کر مودی نے اپنی جماعت بی جے پی کے ایک رہنما کی سرکردگی میں ایک وفد مقبوضہ کشمیر بھیجا، جس نے حالات کا جائزہ لینے اور کشمیریوں سے ملاقاتوں کے بعد جو رپورٹ پیش کی اس میں بھارتی حکومت کو مشورہ دیا گیا کہ کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کی بساط بچھائی جائے، طاقت کا استعمال نامناسب ہے، کشمیر کے وہ رہنما بھی جو بھارت کی مرکزی سرکار کی ہاں میں ہاں ملایا کرتے تھے وہ بھی اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور بھارتی حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو بِلا تاخیر مذاکرات کے ذریعے حل کرے۔
اِن حالات میں بھارت کو پاکستان کی قیادت کی اس پیشکش کا خیر مقدم کرنا چاہئے کہ مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔اب وقت ہے، بھارت وقت ضائع کئے بغیر تمام مسائل پر مذاکرات شروع کرے، جن میں کشمیر کا مسئلہ بھی شامل ہو۔ اس بار ترتیب البتہ بدلنی پڑے گی اور کشمیر کو پہلے نمبر پر رکھنا ہو گا۔ اس سے پہلے پاکستان وضاحت کر چکا ہے کہ کشمیر کے بغیر کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور جب بھی ان کا آغاز ہو گا مسئلہ کشمیر ایجنڈے پر ہو گا۔ بہتر یہ ہو گا کہ بھارت ہٹ دھرمی چھوڑ کر زمینی حقائق تسلیم کرے اور مذاکرات کا آغاز کرے۔ دلیل کی بات سُن کر کسی منطقی نتیجے پر پہنچنا ہی مسائل کے حل میں ممد و معاون ہو سکتا ہے۔
صدرِ مملکت نے عالمی برادری کو بھی اُن کی ذمے داری یاد دلائی ہے،امنِ عالم پوری دُنیا کے مفاد میں ہے اور جہاں کہیں یہ خطرے میں ہو وہاں اقوام متحدہ امن و امان کی سلامتی کے لئے مداخلت کرتی ہے،کشمیر پر بھی عالمی ادارے کی قراردادیں موجود ہیں اور اگر انصاف کے تقاضوں کے مطابق ان قراردادوں پر عمل ہو جائے اور کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی جمہوری خواہشات کے مطابق حل ہو جائے تو نہ صرف، خطے کا امن محفوظ ہو گابلکہ عالمی امن کی ضمانت بھی دی جا سکے گی،کیونکہ یہ خطہ ایٹمی فلیش پوائنٹ پر ہے اور ذرا سی چنگاری دُنیا کے خرمنِ امن کو برباد کر سکتی ہے، اِس لئے عالمی طاقتوں کو اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہئے اور اقوام متحدہ کو بھی اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرانا چاہئے۔

مزید :

اداریہ -