زخمی نظام کی مرہم پٹی کیجئے
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے جماعت اسلامی کے سہ روزہ اجتماع کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے شرعی حکومت کے قیام پر زور دیا۔ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی اپنی نہیں شریعت کی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے، عوام اسلامی نظام اور اسلامی پاکستان کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔انہوں نے 25دسمبر کو مزار قائداعظمؒ پر اسلامی پاکستان کا روڈ میپ دینے کا بھی اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ناراض بلوچوں سے بات چیت کر کے انہیں واپس پاکستان لائیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان میں مداخلت بند کرے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ آپریشن کا ڈرامہ ختم کر کے آئی ڈی پیز کو فوراً واپس گھروں کو بھیجاجائے۔ امریکہ اور ورلڈ بینک کی مداخلت کو مسترد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور مدینہ میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا ہو گا۔بھارتی وزیر اعظم کو للکارتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگران میں عقل ہے تو وہ ہم سے لڑنے کی بجائے اپنے ملک میں غربت سے لڑیں ،اگر لڑنا ہے تو پھر جنگ حنین اوربدرکی طرح جنگ ہو، بھارت نے اگر جارحیت کی تو بڑا ملک ہونے کے ناطے اسے بڑا نقصان ہوگا۔ سراج الحق نے کہا کہ پاکستان آزاد ملک ہے، وہ آزاد خارجہ پالیسی بنائیں گے، چین اور اسلامی ممالک سے دوستی کریں گے اور جس طرح یورپی یونین نے بلاک بنایا ہے ،اسی طرح وہ بھی اپنے دوست ملکو ں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں گے۔ان کے نزدیک پاکستان میں دو طبقے ہیں: ایک ظالم اور دوسرا مظلوم۔ظالم ایک دوسرے کا احتساب نہیں کرتے، بلکہ احتساب کے نام پر مذاق کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت حقیقی احتساب کرے گی، قوم کی لوٹی گئی دولت واپس لائے گی، ظالم طبقے کو نیست و نابود کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج تک آئین پر عمل در آمد نہیں ہوا لیکن وہ اسے یقینی بنائیں گے، ملک سے وی آئی پی کلچرکا خاتمہ کریں گے اور ایسی پالیسی بنائیں گے کہ جس سے پاکستان امامت اور خلافت کا مرکز بن جائے۔
جماعت اسلامی کا اجتماع لاہور میں مینار پاکستان کے سائے تلے 21 نومبر کو شروع ہو کر 23 نومبر کو اختتام پذیر ہوا جس میں ’اسلامی پاکستان ہی خوشحال پاکستان‘ کا پیغام لوگوں تک پہنچایا گیا۔ اجتماع میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ مصر ،انڈونیشیا، بھارت اور دوسرے کئی ممالک سے بھی اسلامی تحریکوں کے کارکن اور رہنما شریک ہوئے ۔جماعت اسلامی نے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہر ہ کیا اورعام خیال یہ ہے کہ توقع سے بڑھ کر لوگوں نے اس اجتماع میں شرکت کی۔سراج الحق نے اپنے دورمیں ہونے والے پہلے اجلاس عام سے پر جوش خطاب کر کے شرکاء کے خون کو خوب گرمایا اور ان کی صلح جوئی اور معاملہ فہمی کا مظاہر ہ موجودہ سیاسی بحران کے آغاز میں سب نے دیکھا، حکومت اور عمران خان کے درمیان مفاہمت کی راہ ہموار کرنے کے لئے انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ان کی گفتگو میں جذباتیت کی بجائے ایک ٹھہراؤ نظر آتا تھا، اب جوباتیں انہوں نے کیں وہ اپنی جگہ بالکل درست ہو سکتی ہیں ۔جماعت اسلامی کوئی ’نوجوان‘ سیاسی جماعت تو ہے نہیں جس کے جذبات قابو سے باہر ہو رہے ہیں، اب اس کی عمر 73 برس ہو چکی ہے اوراس کی جدوجہد طویل ہے۔ جماعت اسلامی نظریاتی جماعت ہے جس کی بنیاد مولانا مودودیؒ جیسے عظیم سکالر نے رکھی اوراس کے رہنماؤں کی پہچان ہی علم و فراست رہی ہے۔جماعت اسلامی اگرچہ کبھی وفاق میں بر سر اقتدار نہیں رہی (البتہ اب کے پی کے میں مخلوط حکومت کا حصہ ہے )۔ پھر بھی لوگوں کی فلاح و بہبود اور بہتری کے لئے ہمیشہ کوشاں رہی ہے، سماجی کاموں میں ہمیشہ حصہ دار رہی ہے لیکن اب حکومت کرنے کے شوق میں مبتلا نظر آتی ہے،یا شائد بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا چاہتی ہے۔ہمیں اس خواہش پر قطعاً اعتراض نہیں ہے کیونکہ حکومت حاصل کرنے کی خواہش رکھنے کا حق ہر سیاسی جماعت کو حاصل ہے بشرطیکہ عوام اس کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ جماعت اسلامی جس وقت قائم کی گئی تھی اس وقت مولانا کے ساتھ 75 افراد اور ہاتھ میں 75 روپے تھے لیکن آج جماعت اسلامی کے کارکنان کی تعداد لاکھوں میں ہے، ا س کا حلقہ خواتین پاکستان کی کسی بھی دوسری جماعت سے زیادہ منظم اور بڑا ہے۔اس سہ روزہ اجتماع میں بھی اس کی تنظیمی صلاحیت پوری طرح کھل کر سامنے آئی ، اتنے لوگوں کے قیام و طعام کے بندوبست کی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائی گئی۔
سراج الحق کی کہی گئی ساری باتیں دل کو چھونے والی ہیں، وہ امریکہ سے مدد نہیں لینا چاہتے اوربھارت کو اوقات میں رہنے کا درس دیتے ہیں جبکہ عوام کو سبسڈی کے ساتھ ساتھ الاؤنس بھی دینا چاہتے ہیں لیکن سوال پھر وہی ہے کہ یہ سب آ خرہو گا کیسے؟ کون کرے گا؟ذرا اس کی وضاحت بھی فرما دیں۔ابھی تو ان کے پاس حکومت نہیں ہے، اور کیا یہ ضروری ہے کہ ملک کی فلاح کے لئے کام حکومت میں رہ کر ہی کئے جاسکیں، بہت سی دوسری تنظیمیں سماجی و ترقیاتی کاموں میں حتی الوسع مدد کر رہی ہیں، این جی اوز ہیں، سوشل سروس آرگنائزیشن ہیں، پھر سارے وعدے اور کام بر سر اقتدار آنے ہی سے کیوں مشروط ہو گئے ہیں؟
ہمارے تمام اہل سیاست اس وقت ایک ہی فکر میں ہیں کہ کسی طرح وہ حکمرانی کا شرف حاصل کر لیں۔ ہر کوئی دوسرے پر سبقت لے جانے کی خواہش میں مبتلا نظر آتا ہے۔ہر کسی کو ایک دم سے یہ نظام اتنا ظالمانہ نظر آنے لگا ہے کہ وہ اس کو ایک لمحہ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ہر سیاستدان کے پاس پاکستان کو اپنی مرضی کے مطابق خوشحال بنانے کا فارمولا موجودہے،جسے وہ راز میں رکھنا چاہتا ہے اور کسی کو بتانا مناسب نہیں سمجھتا لیکن لاگو کرنے میں ذرہ برابر تاخیر نہیں کرنا چاہتا۔ہر سیاستدان پاکستان کو بس ایک تجربہ گاہ بنانا چاہتا ہے، اس یقین کے ساتھ کہ صرف اسی کا تجربہ کامیاب ہو سکتا ہے۔ہر کوئی یہ بات جانتا ہے لیکن ماننے کو تیار نہیں کہ اقتدار زبردستی یا اپنی مرضی و منشاکے مطابق حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ہر کوئی دعویٰ کر رہا ہے کہ و ہ پاکستان کا مستقبل بدل دے گا ، آخر اس کے ہاتھ ایسا کون سا الہ دین کا چراغ لگ گیا ہے۔ ہر کوئی عوام کو اٹھ کھڑے ہونے کی ترغیب دے رہا ہے،اس سب سے کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا،اس وقت ضرورت’ آج‘ پر توجہ دینے کی ہے،سب کو مل بیٹھ کر سوچنا ہے کہ آج کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے،ہر کوئی کل کے پیچھے دوڑ رہا ہے، کل کی فکر میں مبتلا ہو کر آج کوکسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔موجودہ نظام خامیوں سے پاک نہیں ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کو تلپٹ کر دیا جائے، ہمیں اسی زخمی نظام کی مرہم پٹی کر کے اس کو صحت مند بنانا ہے، اپنے پیروں پر مضبوطی سے کھڑا کرنا ہے۔