خوشحال بلوچستان، خوشحال پاکستان

خوشحال بلوچستان، خوشحال پاکستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بلوچستان کے لئے خوشحال پروگرام کا آغاز کر دیا گیا ہے،پروگرام سے صوبے کی معاشی و سلامتی صورتِ حال میں بہتری آئے گی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوئٹہ میں سدرن کمانڈ ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا،جہاں اُنہیں خوشحال بلوچستان پروگرام کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔اِس موقعہ پر وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری، صوبائی انتظامیہ اور عسکری حکام شریک تھے۔ خوشحال بلوچستان پروگرام کی تمام تفصیلات جلد منظر عام پر لائی جائیں گی۔ آرمی چیف نے سیکیورٹی کے متعلق معاملات کی منظوری دی،آرمی چیف کا کہنا تھا کہ خوشحال بلوچستان پروگرام دراصل خوشحال پاکستان پروگرام ہے، جس کے لئے پاک فوج، وفاقی اور صوبائی حکومت سے ہر ممکن تعاون کرے گی۔وزیراعلیٰ بلوچستان نے خوشحال بلوچستان پروگرام اور صوبے میں استحکام کے لئے سیکیورٹی کے اقدامات کے حوالے سے سیکیورٹی اداروں کے کردار کو سراہا۔
بلوچستان کو اِس وقت دشمن قوتوں نے ٹارگٹ کر رکھا ہے، یہاں بلوچستان کی آزادی کے لئے مسلح تنظیمیں بھی سرگرم عمل ہیں اور دہشت گردی کی وارداتیں کر رہی ہیں،تو دوسری جانب کالعدم تنظیموں نے بھی دہشت گردی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جن کا خصوصی ٹارگٹ بلوچستان کی پولیس ہے، سالِ رواں میں اعلیٰ پولیس افسروں سمیت27 پولیس والوں کو دہشت گردی کی وارداتوں میں شہید کیا گیا،فوج کے افسروں اور جوانوں کو آزاد بلوچستان کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں ٹارگٹ کر رہی ہیں یہ صوبہ اس لئے بھی دہشت گردی کا خصوصی ٹارگٹ ہے،کیونکہ سی پیک کے تحت بننے والی زیادہ تر شاہراہیں اِسی صوبے سے گزرتی ہیں، شاہراؤں پر کام کرنے والے انجینئروں، فنی ماہرین اور مزدوروں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے جو مزدور شاہراؤں پر کام کر رہے تھے، اُنہیں بھی دہشت گردوں نے قتل کر دیا، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا، جس میں وہ زخمی ہوئے البتہ اُن کے ساتھ سفر کرنے والے اُن کے سٹاف کے ارکان شہید ہوئے۔ اِسی طرح مدارس اور درگاہوں میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں اِن سب کا مقصد ایک ہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سی پیک پر کام رُک جائے،لیکن ابھی تک اُنہیں اِس میں کامیابی نہیں ہوئی، اور بہت سے منصوبے مکمل بھی ہو گئے ہیں،باقی تکمیل کے مراحل میں ہیں،بھارت نے اپنے جاسوس کلبھوشن یادیو کے ذریعے جو نیٹ ورک بنایا تھا دہشت گردی کی وارداتیں اِسی ذریعے سے کرائی جا رہی ہیں۔
بھارت نے عالمی سطح پر بھی آزاد بلوچستان کی پروپیگنڈہ مہم شروع کر رکھی ہے، حال ہی میں سوئٹزر لینڈ میں ٹیکسیوں پر آزاد بلوچستان کے حق میں نعرے لکھے گئے،اس پر جب پاکستان نے احتجاج کیا تو یہ نعرے ختم کر دیئے گئے، بعد میں ایسے ہی نعرے لندن میں بسوں اور ٹیکسیوں پر لکھوا دیئے گئے یہ بھی بعد میں ختم ہو گئے اور اسلام آباد میں برطانیہ کے سفیر نے اس سلسلے میں افسوس کا بھی اظہار کیا اور کہا بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے اور ہمیشہ رہے گا،دُنیا اِس سلسلے میں حقائق سے بھی باخبر ہو رہی ہے،آزاد بلوچستان تحریک کے سلسلے میں سرگرم براہمداغ بگتی نے سات سال قبل سوئٹزر لینڈ میں سیاسی پناہ کی جو درخواست دی تھی وہ سوئس حکام نے مسترد کر دی ہے اور حکام کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ اُنہیں علم ہوا ہے کہ براہمداغ بگتی پاکستان میں دہشت گردی کو منظم کرنے میں کردارادا کرتے ہیں،اِس لئے اُنہیں سیاسی پناہ نہیں دی جا سکتی،یہ پاکستان کے درست موقف کی پذیرائی ہے۔
اِس امر میں تو اب کوئی شبہ باقی نہیں رہ گیا کہ بلوچستان کی دہشت گردی کے مقاصد کیا ہیں۔ یہ صوبہ اگر آج تک پسماندہ رہا ہے تو اِس کی بڑی وجہ سرداری نظام ہے، سرداروں نے ہر حکومت سے اپنے لئے تو بھرپور مالی فوائد اٹھائے،لیکن عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے دیا،تاہم گزشتہ کچھ برسوں سے بلوچستان میں ترقی کے حوالے سے اگر بہتری آئی ہے،تعلیمی ادارے بنائے گئے ہیں اور بلوچ عوام کے لئے ملازمتوں کے دروازے کھولے گئے ہیں تو اسے بھی سبوتاژ کرنے کی کوششیں جاری ہیں،بلوچستان میں عشروں سے آباد غیر بلوچوں کو جو ہر لحاظ سے بلوچ کلچر میں رنگے جا چکے ہیں اور بلوچی زبان روانی اور صحت کے ساتھ بولتے ہیں اُنہیں بھی نام نہاد آزادی پسند تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ڈاکٹر اور پروفیسر ان کا خصوصی ہدف رہے اور اب تک ہیں،چند برسوں میں تین سو ڈاکٹروں کو قتل کر دیا گیا، ہزارہ قبائل کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد جو لوگ وسائل رکھتے تھے وہ بیرون مُلک نقل مکانی کر گئے ایسے گھمبیر مسائل کی وجہ سے صوبہ طرح طرح کے مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا ہے، امن و امان کی خراب صورتِ حال نے اِن مسائل کی اذیت میں اور اضافہ کر دیا ہے۔
اِن حالات میں اگر بلوچستان کی خوشحالی کا خواب دیکھا گیا ہے اور پروگرام بنایا گیا ہے تو اس کی تحسین ہی کی جائے گی،یہاں فوج کے زیر اہتمام پہلے ہی بہت سے ادارے چل رہے ہیں، جن میں بلوچوں کی فلاح و بہبود کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے، اُنہیں فوج میں نوکریاں دی جاتی ہیں، حکومت اُن لوگوں کو وظائف دے رہی ہے، جو تشدد ترک کر کے ہتھیار رکھنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں، ایسے لوگوں کے بچوں کو سالہا سال تعلیمی اداروں سے باہر رہنا پڑا، اب اُنہیں تعلیم جاری رکھنے کے لئے وظائف دیئے جا رہے ہیں۔اس کی وجہ سے یہ لوگ معاشرے میں جذب ہو رہے ہیں، جن لوگوں نے تشدد کا راستہ اختیار کر رکھا ہے، اُنہیں یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ پُرتشدد ذرائع اختیار کر کے کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا، بہترین راستہ یہ ہے کہ ان کے جو بھی مطالبات ہیں وہ حکام کے سامنے رکھے جائیں اور جو جائز ہوں اُنہیں تسلیم بھی کیا جا سکتا ہے، تشدد کے راستے پر چلنے والوں کو ہر قیمت پر اسے خیر باد کہنا ہو گا۔ اور آئینِ پاکستان کی حدود میں رہ کر بات کرنی ہوگی۔
بلوچستان کا صوبہ معدنیات سے مالا مال ہے،لیکن دشوارگزار علاقوں اور مخصوص سیاسی مائنڈ سیٹ کی وجہ سے زمین میں چھپے اِن خزانوں کو برسر زمین نہیں لایا جاسکا، اور جہاں سے تانبا اور سونا نکالنے کی کوشش کی گئی اُن کے متعلق بھی کئی سکینڈل سامنے آ گئے، نتیجہ یہ ہوا کہ معدنیات کی تلاش کا کام ہی آگے نہیں بڑھ سکا، ضرورت اِس بات کی ہے کہ خوشحال بلوچستان کے نام سے جو پروگرام شروع کیا جا رہا ہے، اِس سے بلوچ اور پشتون آبادی کو یکساں فائدہ پہنچایا جائے،کیونکہ یہ دو لسانی صوبہ ہے اور بلوچوں اور پشتونوں کی آبادی تقریباً برابر ہے، یہ بات باعثِ مسرت ہے کہ یہ پروگرام فوج کی نگرانی میں شروع کیا جا رہا ہے،اِس لئے توقع ہے کہ سیکیورٹی کے معقول انتظامات کے تحت ایسے پروگرام جاری رکھے جائیں گے تاکہ شر پسندوں کو کسی شرارت کا موقع نہ ملے،کیونکہ ایک محدود تعداد اب بھی دہشت گردی ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔

مزید :

اداریہ -