گستاخانہ اور دِل آزار مواد کا معاملہ
وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی زیر صدارت اسلامی ممالک کے سفیروں کی کانفرنس میں اِس امر پر اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا کہ دینِ اسلام اور حضور نبی کریمؐ کی ناموس کی حرمت کے لئے پوری مسلم اُمہ متحد ہے۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزارتِ خارجہ تمام قانونی و تکنیکی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا جامع حکمتِ عملی پیپر مسلم ممالک کے سفیروں کو ارسال کرے گی، جس پر وہ اپنے ملکوں کی حکومت کو اعتماد میں لیں گے تاکہ آئندہ کا لائحہ عمل وضع کیا جا سکے۔ وزیر داخلہ نے یہ اجلاس یک نکاتی ایجنڈا پر تبادلۂ خیال کے لئے بلایا تھا تاکہ سوشل میڈیا پر اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کے خلاف گستانہ مواد پر پوری مسلم دُنیا کی طرف سے موثر آواز بلند کی جا سکے۔اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ عرب لیگ اور او آئی سی کے سیکرٹری جنرلز کو ایک رسمی ریفرنس بھیجا جائے گا، جس میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد اور اس سے دُنیا بھر کے مسلمانوں کی دِل آزاری کے معاملے کو اٹھایا جائے گا۔ فیصلہ کیا گیا کہ اسلامی ممالک کی حکومتوں کی طرف سے جواب آنے کے بعد یہ معاملہ اقوامِ متحدہ کی سطح پر بھی اٹھایا جائے گا اس کے علاوہ ایسے ممالک جہاں سے اس طرح کا گستاخانہ مواد سوشل میڈیا پر بھی ڈالا جا رہا ہے، کی عدالتوں میں اٹھانے کے حوالے سے قانونی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیاجائے گا۔وزیر داخلہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی اور مذہبی عقائد کو مسخ کرنا ناقابلِ برداشت ہے۔
گستاخانہ مواد کے معاملے کو اقوامِ متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں میں اٹھانے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے وہ خوش آئند ہے اور توقع ہے کہ دُنیا بھر کی مسلمان حکومتیں اِس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے کما حقہ عہدہ برا ہوں گی، مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کا معاملہ اگرچہ کوئی نیا نہیں ہے اور بدبخت لوگ اس کے مرتکب ہو کر اپنی دُنیا برباد اور آخرت خراب کرتے رہتے ہیں،لیکن سوشل میڈیا کی آمد سے یہ معاملہ ایک طرح کے کھیل تماشے کی شکل اختیار کر گیا ہے، جس لعو و لہب میں آوارہ منش لوگ مصروف رہتے ہیں اور غیر مسلم تو غیر مسلم نام نہاد مسلمان بھی اپنی جہالت کی بنا پر گستاخیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔پاکستان کے اندر بھی ایسے گستاخ موجود ہیں اِس سلسلے میں دُنیا کے اداروں اور ملکوں سے رجوح کرنے سے پہلے بہتر یہی ہے کہ پاکستان کی حکومت اور ادارے اِن مقامی گستاخوں سے خود نمٹ لیں۔
وزیر داخلہ نے چند روز قبل کہا تھا کہ مقدس ہستیوں کی توہین برداشت نہیں کی جائے گی اور اِس کے لئے اگر انتہائی اقدام کے طور پر سوشل میڈیا بند بھی کرنا پڑا تو کر دیں گے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج شوکت صدیقی کی عدالت میں بھی اِس سلسلے میں مقدمہ زیر سماعت ہے اور انہوں نے دورانِ سماعت جو ریمارکس دیئے وہ مسلمانوں کے عمومی جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے کمائی بھی مسلمانوں سے کی جا رہی ہے اور اُن کے جذبات سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔
اسلامی ممالک کے سفیروں کی کانفرنس میں جو فیصلہ کیاگیا اس میں مزید پیش رفت کے طور پر اوآئی سی اور عرب لیگ کے سیکرٹری جنرلوں کو بھی خط لکھے جا رہے ہیں، جس کے بعد معاملہ اقوام متحدہ میں بھی اٹھایا جائے گا،لیکن بہتر یہ ہے کہ پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمان ممالک ’’پہلا کام پہلے‘‘ کے مصداق مقامی بدبختوں سے تو خود نپٹ لیں،اس کے لئے کسی کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں، بس اپنے قانون اور قانون نافذ کرنے والوں کو متحرک کرنا ہو گا۔ اقوام متحدہ میں معاملہ جب اٹھایا جائے گا تو اس وقت دُنیا کے ملکوں کو یہ بھی بتاتا ہو گا کہ مسلمان اپنی مقدس ہستیوں کی شان میں کسی قسم کی کوئی گستاخی برداشت نہیں کر سکتے، اِس لئے سب حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح نہ کریں۔ پاکستان میں بعض شرارتی عناصر سوشل میڈیا پر مسلسل مسلمانوں کی دِل آزاری کر رہے ہیں ان کے خلاف قانونی کارروائی تو کوئی زیادہ مشکل کام نہیں، تھوڑی سی کوشش کے بعد ان کا سراغ لگایا جاسکتا ہے اور انہیں قانون کے حوالے بھی کیا جا سکتاہے۔ یہ تو پاکستان کی حکومت کا اپنا معاملہ ہے اس کے لئے نہ کسی حکومت کو خط لکھنے کی ضرورت ہے اور نہ معاملے کو کسی عالمی فورم پر اٹھانے کی حاجت ہے، بس قانون کو اِن لوگوں پر نافذ کر دیا جائے جو گستاخیاں کر رہے ہیں۔
مغربی ممالک میں دہشت گردی کے جو واقعات ہوتے ہیں اگر اُن میں کوئی مسلمان ملوث ہو تو سوشل میڈیا میں واردات کا غصہ اسلام کو بُرا بھلا کہہ کر نکالا جاتا ہے، حالانکہ مسلمان ممالک میں دہشت گردی کی جو وارداتیں ہو رہی ہیں وہ بھی ایسے لوگ کر رہے ہیں جو مسلمان کہلاتے ہیں۔ اسلام کے مقدس ترین مقامات پر دھماکے بھی ایسے ہی لوگوں نے کئے جو اسلام کا نام لیتے اور مسلمانوں جیسے نام رکھتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں تو فتنے کا بیج خارجیوں نے اسلام کا نام لے کر بویا،اِس لئے مغرب کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی نام نہاد مسلمان دہشت گردی کی کسی واردات میں ملوث ہوتا ہے تو اُس کی جتنی چاہے مذمت کریں،لیکن ردعمل میں اسلام کو بُرا نہ کہیں اور نہ ہی جوابی طور پر اسلام کی مقدس ترین ہستیوں کے خلاف گستاخی کے مرتکب ہوں۔
اسلامو فوبیا کی اِس فضا میں کینیڈا کی پارلیمینٹ نے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے، جس نے ایک قرارداد منظور کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسلامو فوبیا، مذہبی امتیاز اور نسلی تفریق جیسے معاملات کی مذمت کی جائے۔ یہ قرارداد201ووٹوں کی اکثریت سے منظور کی گئی، جبکہ اس کی مخالفت میں91ووٹ آئے۔ کینیڈین پارلیمینٹ کی یہ قرارداد خوش آئند ہے، خود کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو روا داری اور تحمل و برد باری کی ذاتی مثالیں بھی پیش کرتے رہتے ہیں وہ مساجد میں بھی چلے جاتے ہیں اور رمضان المبارک کے مہینے میں مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے روزہ بھی رکھتے ہیں اور افطار کی محفلوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ دُنیا کے دوسرے سیاسی رہنماؤں اور حکومتوں کے سربراہوں کو جسٹن ٹروڈو کی مثال سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ چودھری نثار علی خان نے بھی کہا ہے کہ مغربی دُنیا مسلمانوں کے جذبات کو سمجھے اور اسلامو فوبیا کا شکار نہ ہو۔