مارکیٹیں جلد بند کرنے کی تجویز ایک بار پھر سامنے

مارکیٹیں جلد بند کرنے کی تجویز ایک بار پھر سامنے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کم کرنے کے لئے پنجاب اور کراچی میں کاروبار شام کو جلد بند کر دیا جائے، مارکیٹیں جلد بند کرنے سے1500میگاواٹ بجلی بچائی جا سکتی ہے، دُنیا بھر میں مارکیٹیں رات گئے تک کھلی نہیں رہتیں، ایک میگاواٹ بجلی بچانا، ایک میگاواٹ بجلی پیدا کرنے سے بہتر اور آسان ہے، صوبوں اور تاجروں کو بجلی کی بچت کے لئے وفاقی حکومت سے تعاون کرنا چاہئے۔ تاجر مارکیٹیں 7بجے بند کرنے کے لئے حکومت سے تعاون کریں۔خواجہ محمد آصف کی یہ تجویز کوئی پہلی مرتبہ سامنے نہیں آئی ہے جب سے بجلی کا بحران پیدا ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں لوڈشیڈنگ کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اسی وقت سے بجلی بچانے کی یہ تجویز کسی نہ کسی انداز سے حکومتوں کی جانب سے پیش کی جاتی رہی ہے، مگر آج تک تاجروں نے اس تجویز کو ہمیشہ رد کیا ہے اور اسے کاروبار کو تباہ کرنے کے مترادف قرار دیا ہے، تاجروں کا موقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ گاہک صبح کے اوقات میں اپنی ملازمتوں یا کاروبار میں مصروف ہوتے ہیں اِس لئے وہ خریداری کے لئے وقت نہیں نکال سکتے، عام طور پر وہ شام کے اوقات میں شاپنگ کے لئے گھروں سے نکلتے ہیں، اِس لئے اگر اُس وقت جب گاہک گھروں سے نکلتے ہیں، دکانیں بند ہوں گی تو کاروبار نہیں ہو سکتا۔حکومت اگر دکانیں جلدی بند کرنے کے حق میں ہے اور دکانداروں کی خواہش ہے کہ یہ آدھی رات تک کھلی رہیں تو ان دو نقطہ ہائے نظر میں مقامِ اتصال کہیں نہ کہیں تلاش کر کے کوئی راستہ نکالا جا سکتا ہے، مثلاً ایک زمانے میں جب بجلی کا کوئی بحران سرے سے موجود ہی نہیں تھا، بجلی وافر اور سستی تھی تو دکانوں کے اندر سینکڑوں کے حساب سے برقی قمقمے نہیں جلتے تھے، نہ دکانوں کی ڈیکوریشن اِس انداز سے ہوتی تھی جیسے آج ہوتی ہے۔ اب دکانوں کی سجاوٹ اور خریداری کی اشیا پر اس انداز سے روشنیاں منعکس کی جاتی ہیں کہ اُن کی جگ مگ میں چیزیں چمکتی دمکتی نظر آئیں یہ مارکیٹنگ کا جدید انداز ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا جاتا ہے اور اب کاروبار کا حصہ بن کر رہ گیا ہے تاہم مارکیٹنگ کے انداز بدلنے کے باوجود دکانوں کے اوقات کار کی ہمیشہ پابندی کی جاتی رہی ہے،وقتِ مقررہ پر دکانیں کھلتی تھیں اور وقت پر بند ہو جاتی تھیں۔رہن سہن اور اطوارِ زندگی بدلنے کے ساتھ پھر یہ ہوا کہ صبح دکانیں تاخیر سے کھلنے لگیں اور رات کو تاخیر سے بند ہونے لگیں، جب بجلی کے بحران کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کی ضرورت محسوس ہوئی اور بجلی کی بچت کے مختلف پہلوؤں پر غور ہوا تو ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی کہ رات کو دکانیں دیر تک کھلی رکھنے کی وجہ سے بجلی بے تحاشا خرچ ہوتی ہے اگر بازار جلدی بند کر دیئے جائیں تو اس سے بجلی کی بچت ہو سکتی ہے تاہم تاجروں کے عدم تعاون کی وجہ سے اب تک اس پر عمل نہیں ہو سکا، اِس دوران کئی حکومتیں آئیں اور رخصت ہو گئیں، بہت سے وزیر آئے اور چلے گئے، لیکن اِس تجویز پر عملدرآمد نہیں کرایا جا سکا، حالانکہ یہ کوئی انوکھی بات نہیں، دُنیا بھر میں مارکیٹیں غروب آفتاب کے ساتھ بند ہو جاتی ہیں۔ صبح بھی دکانوں کے کھلنے کے اوقات مقرر ہیں۔اگرچہ وہاں نہ بجلی کی کوئی قلت ہے نہ اس کی بچت کی کوئی ضرورت ہے۔البتہ کاروبار کا ایک متعین طریق کار ہے جس کے تحت دکانیں کھلتی اور بند ہوتی ہیں۔
پاکستان میں بجلی بچانے کے لئے دکانیں جلد بند کرنے کی ضرورت اپنی جگہ، لیکن کیا یہ ضروری نہیں کہ یہاں بھی کاروباری اوقاتِ کار مقرر کر دیئے جائیں اور پھر ان پر موثر عملدرآمد بھی کرایا جائے۔ دُنیا میں شاید ہی کوئی ایسا مُلک ہو جہاں تاجروں کا اصرار ہو کہ وہ دکانیں جب تک چاہیں کھلی رکھیں کسی کو اُن سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے، نہ وہ دکانیں خود بند کریں گے نہ کسی اور کو کرانے دیں گے اور اگر ایسا کرنے کی کوشش کی جائے گی تو وہ اس کی مزاحمت کریں گے۔ عام طور پر اِس مزاحمتی احتجاج کے دوران تشدد کے واقعات بھی ہو جاتے ہیں،پولیس زبردستی مارکیٹیں بند کرانے کی کوشش کرے تو لڑائی مار کٹائی کے مناظر بھی دیکھے جاتے ہیں تاہم خواجہ آصف اگر اپنی تجویز میں سنجیدہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ دکانیں رات کو جلدی بند ہوں تو اُنہیں تاجروں کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالنا چاہئے، ویسے عام طور پر تو تاجر اِس سلسلے میں متشدد ہی پائے جاتے ہیں اور ماضی میں ایسی ہر تجویز کو سختی سے مسترد کرتے رہے ہیں تاہم ایک بار پھر کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔حکومت اگر واقعتا دکانیں رات کو جلد بند کرانے کی تجویز پر عمل درآمد چاہتی ہے تو بہتر ہے کہ اس سے پہلے تاجروں کے ساتھ سلسلہ جنبانی کرے اور ان کے نمائندوں کی بات سُن کر خوش اسلوبی کے ساتھ کوئی فیصلہ کرے۔ یہ اِس لئے ضروری ہے کہ تاجروں نے آج تک ود ہولڈنگ ٹیکس کے فیصلے کو قبول نہیں کیا اور حکومت کی کوششیں اس سلسلے میں کامیاب نہیں ہو سکیں، تاجروں نے ہڑتالیں بھی کیں اور اِس سکیم کو ناکام بنانے کے لئے دوسرے اقدامات بھی کئے، لیکن آج تک یہ مسئلہ خوش اسلوبی سے حل نہیں ہو سکا۔ اگر حکومت نے مارکیٹیں بند کرنے کا فیصلہ یکطرفہ طور پر کر لیا تو تاجر لازماً احتجاج کی راہ اپنائیں گے۔ اس احتجاج کا جو بھی نتیجہ نکلے، بدمزگی بھی پیدا ہو گی اور تلخی بھی بڑھے گی اس کشا کش میں بجلی کی بچت تو کہیں درمیان میں رہ جائے گی اور نئے مسائل پیدا ہو جائیں گے، ان سب پر پہلے سے اچھی طرح سوچ بچار کر لینی چاہئے۔ویسے کاروباری اوقات کا تعین اگر ہو جائے اور اس پر سختی سے عملدرآمد بھی ہو، تو بجلی کی بچت کے ساتھ اور بہت سے معاشرتی اور نفسیاتی مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں جو رات کو دیر تک جاگنے اور صبح دیر تک سوئے رہنے سے پیدا ہوتے ہیں اور ایک مستقل روگ کی شکل اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں، صحت مند مشاغل اگر معاشرے میں فروغ پائیں گے تو معاشرتی بے چینی بھی کم ہو سکتی ہے، جس نے لوگوں میں تشدد کے رجحان کو فروغ دیا ہے اور ہر کوئی اپنی بات پُرتشدد احتجاج کے ذریعے منوانے کے لئے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ حکومتوں کے اچھے کام بھی نہیں ہو پاتے، ہم شب و روز جنگ و جدل کے ایسے مناظر سڑکوں پر دیکھتے رہتے ہیں۔ اساتذہ اپنے مطالبات تشدد کے ذریعے منوانا چاہتے ہی، نابیناؤں کو بھی سڑکوں پر احتجاج کا سلیقہ آ گیا ہے، کسان اپنے آلو اور پیاز سڑکوں پر بکھیر کر احتجاج پر اُترے ہوتے ہیں، حکومت کو مسائل سے فرصت ملے تو ان عوامل کے پس پردہ نفسیاتی محرکات تلاش کرنے کی کوئی راہ نکالے۔

مزید :

اداریہ -