پاک امریکہ تعلقات پر صدر ٹرمپ کے مثبت خیالات

پاک امریکہ تعلقات پر صدر ٹرمپ کے مثبت خیالات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان بہترین دوست ہے، ہر شعبہ میں پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے، دونوں ممالک کے تعلقات اہم نوعیت کے ہیں ہم ان میں مزید بہتری چاہتے ہیں۔ امریکی صدر نے اِن خیالات کا اظہار امریکہ میں تعینات ہونے والے نئے پاکستانی سفیر اعزاز چودھری کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کیا،جنہوں نے اُنہیں اسنادِ سفارت پیش کیں، اعزاز چودھری نے امریکی صدر کو وزیراعظم نواز شریف اور پاکستانی قیادت کا نیک خواہشات کا پیغام پہنچایا۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی قیادت اور عوام امریکہ کے ساتھ سات دہائیوں پر محیط دوستانہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے خواہش مند ہیں۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہیں، حکومتیں بدلتی رہتی ہیں تاہم تعلقات جاری رہتے ہیں اور اِس ریجن میں پاکستان کو کوئی بھی مُلک نظر انداز نہیں کر سکتا، پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے اور ہم اپنے اتحادی ممالک کے ساتھ دہشت گردی کو ختم کرنے کی مل کر کوشش کر رہے ہیں۔
قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان اور امریکہ کے قریبی تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ تاہم درمیان میں یہ آزمائش سے دوچار ہوتے رہے اور تعلقات کی سطح کم ہوتی رہی پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکہ کا سرکاری دورہ بھی کیا تھا، اس کے بعد پاکستان سیٹو اور سنیٹو جیسے معاہدوں میں امریکہ کا ساتھی رہا، دفاعی سازو سامان کے لئے بھی پاکستان کا تمام تر انحصار امریکہ پر ہی رہا تاہم بھارت نے جب65ء میں پاکستان پر حملہ کر دیا تو امریکہ نے نہ صرف اپنے دوست اور حلیف کی کوئی مدد نہ کی، بلکہ ہتھیاروں اور فاضل پُرزوں کی سپلائی تک روک دی اور موقف اختیار کیا کہ امریکہ پاکستان کی امداد کا اُس وقت پابند ہے جب کوئی کمیونسٹ مُلک اس کے خلاف جارحیت کرے، کسی غیر کمیونسٹ مُلک کے حملے کی صورت میں امریکہ مدد کا پابند نہیں ہے اور تنازعے والے علاقوں کو امریکہ ہتھیاروں کی سپلائی اپنے ملکی قانون کے تحت روک دیتا ہے، اس کے بعد بھی امریکہ کے ساتھ تعلقات میں اونچ نیچ آتی رہی۔ امریکی اصطلاح میں ان تعلقات کو ’’رولر کوسٹر‘‘ کے سفر سے تعبیر کیا جاتا رہا۔
جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاکستان نے یہ حکمت ِ عملی اپنائی کہ سوویت یونین کی افواج کو مزید آگے بڑھنے سے روکا جائے، اِس مقصد کے لئے پاکستان نے اپنے طور پر جو حکمتِ عملی تیار کی اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا اس وقت تک امریکہ اور آزاد دُنیا اِس حملے سے اتنے لرزہ براندام تھے کہ اُنہیں پاکستان کا یہ اقدام خود کشی کے مترادف نظر آیا تاہم جب اِس ضمن میں پاکستان کی استقامت دیکھی تو امریکہ امداد دینے پر تیار ہو گیا اُس وقت صدر کارٹر کی حکومت تھی، امریکہ نے جس امداد کی پیشکش کی پاکستان کے صدر ضیاء الحق نے اسے ’’مونگ پھلی‘‘ کہہ کر مسترد کر دیا تاہم بعد میں صدر نِکسن کے دور میں امریکہ نے پاکستان کی امداد میں بھی اضافہ کیا اور افغان مجاہدین کے لئے ہتھیاروں اور دوسرے سامان کی سپلائی بھی شروع ہو گئی،لیکن جونہی سوویت یونین نے افغانستان سے واپس جانے کا فیصلہ کیا اور آخری روسی سپاہی بھی دریائے آمو عبور کر گیا تو امریکہ نے بھی خطے سے ایسی آنکھیں پھیریں اور یوں رُخصت ہُوا جیسے اِس علاقے کے امور سے اُس کا کوئی لینا دینا نہ ہو، نتیجے کے طور پر افغانستان کے حالات خراب ہوئے، خانہ جنگی کے نتیجے میں ہی طالبان کا ظہور ہُوا تھا۔
امریکی حکومتوں اور سیاسی رہنماؤں کو بعد میں اپنی اِس غلطی کا اچھی طرح ادراک ہو گیا تھا اور وہ برملا کہنے لگے تھے کہ امریکہ کی علاقے کو نظر انداز کرنے کی یہ پالیسی درست نہیں تھی۔ دوسری مرتبہ امریکہ کی اس علاقے میں دلچسپی نائن الیون کے بعد پیدا ہوئی، جب اُس نے افغانستان میں برسر اقتدار طالبان حکومت سے اُسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا اور ناکام مذاکرات کے بعد افغانستان پر فضائی حملہ کر دیا۔ بعد میں امریکہ نے پاکستان کے فضائی اڈے بھی استعمال کئے اور جب امریکی اور نیٹو افواج کابل میں پہنچ گئیں تو اُنہیں اسلحہ اور دوسرا ساز و سامان بھی پاکستان کے راستے ہی بھیجا جاتا تھا۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف اِس جنگ میں پاکستان کو اپنا ’’نان نیٹو حلیف‘‘ کہا، پاکستان نے بھی امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا امریکہ کولیشن پارٹنر کی حیثیت سے پاکستان کی امداد بھی کرتا رہا تاہم یہ امداد اُس نقصان کی نسبت بہت معمولی تھی جو پاکستان کو اِس جنگ میں برداشت کرنا پڑا اس کے باوجود امریکی کبھی تو پاکستان کے کردار سے مطمئن ہو جاتے اور کبھی ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کر دیتے۔ اِس دوران افغان حالات کا ملبہ پاکستان پر گرتا رہا اور خودکش حملوں کے نتیجے میں پاکستان میں بے تحاشا جانی اور مالی نقصان ہُوا، دُنیا تو ایک یا چند حملوں کے بعد دہشت گردوں سے محفوظ ہو گئی، لیکن پاکستان اب تک اس کا نشانہ بن رہا ہے۔
پاکستان کو ایف 16طیاروں کی فروخت کا معاملہ بھی کافی طول کھینچ گیا تھا جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان طیاروں کی پہلی کھیپ پاکستان کے حوالے کی گئی، لیکن طیاروں کی پوری قیمت ادا کرنے کے باوجود بعد میں ان کی ڈلیوری روک دی گئی،حالانکہ یہ تیار شدہ طیارے کمپنی کے جن ہینگروں میں کھڑے تھے ان کا کرایہ بھی پاکستان سے وصول کیا جا رہا تھا۔ بعدازاں کئی سال بعد یہ قضیہ ادا شدہ رقم کی دوسری مدات میں ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے حل کیا گیا۔ صدر اوباما کی صدارت کے آخری دِنوں میں ایف 16 کا معاملہ پھر اُٹھا، طویل مذاکرات کے بعد امریکہ نے پاکستان کو 12ایف 16 طیارے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تھا، کیونکہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کو دشوار گزار علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لئے اِن طیاروں کی ضرورت تھی۔ یہ طے ہُوا تھا کہ طیاروں کی قیمت اُس رقم میں سے منہا کر لی جائے گی، جو امریکہ نے کولیش سپورٹ فنڈ میں سے پاکستان کو ادا کرنی تھی، یہ بالکل مناسب بات تھی اور امریکی انتظامیہ اس پر رضامند بھی تھی، لیکن واشنگٹن میں بھارتی لابی نے واویلا کیا کہ پاکستان کو اِن طیاروں کی ضرورت نہیں اور یہ بھارت کے خلاف استعمال ہوں گے، کانگرس کے بعض ارکان کو بھی بھارتی لابی نے متاثر کیا ،جس پر کانگرس نے حکومت کو اِس بات کا پابند کر دیا کہ پاکستان نقد قیمت ادا کرے تو طیارے دے دیئے جائیں بصورت دیگر روک لئے جائیں۔
یہ اور ایسے ہی امور میں اختلافات کے باعث پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کبھی ہموار نہیں رہے۔ تاہم واشنگٹن میں ایسے حلقے ضرور موجود ہیں جو پاکستان کی قربانیوں اور خدمات کابرملا اعتراف کرتے ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ دہشت گردوں کو ختم کرنے میں پاکستانی سیکیورٹی اداروں نے اہم کردار ادا کیا ہے اور اس سلسلے میں قابلِ فخر قربانیاں پیش کی ہیں،جو حلقے اس کا اعتراف و ادراک رکھتے ہیں وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی پاکستان کو بہترین دوست قرار دیا ہے اور آئندہ کے لئے مل کر کام کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ یہ مثبت پیش رفت ہے توقع ہے پاکستان کے نئے سفیر دونوں ملکوں کے تعلقات کو بہتری کی جانب گامزن کرنے میں کردار ادا کریں گے۔

مزید :

اداریہ -