تعلیمی اداروں میں منشیات!
خبر ہے کہ حکومت نے تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا اور فیصلہ کیا ہے کہ اس بد عادت کے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ مہم چلائی جائے۔ اس میں بعض نیک نام این جی اوز، اساتذہ اور والدین کا تعاون بھی حاصل کیا جائے گا۔ اطلاع یہ ہے کہ منشیات مافیا عرصہ سے تعلیمی اداروں کے طلباء کو ایسی اشیا فروخت کررہے ہیں جن میں نشہ آور ادویات یا منشیات کا کچھ حصہ ملایا جاتا ہے تاکہ بچوں کو اس کی عادت ہو اور یہ شے زیادہ بکے، اسی طرح اس امر پر بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر طلبا گروپوں کی شکل میں مختلف قسم کی منشیات استعمال کرتے ہیں اس سے منشیات فروخت کرنے والے مافیا کی تجوریاں تو بھرتی ہیں لیکن قوم کے نونہال اور نئی نسل اس لعنت میں گرفتار ہوتی چلی جا رہی ہے۔
حکومت نے طے کیا ہے کہ ہر سطح پر ایسے مافیاز کا خاتمہ کیا جائے گا جو اس لعنت کے فروغ کا ذریعہ ہیں، اس سلسلے میں ایک مربوط اور جامع پالیسی ترتیب دی جا رہی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ ملک میں منشیات کی لعنت میں اضافہ ہو رہا ہے اور منشیات مافیا والے بڑے منظم طریقے سے اس کاروبار کو چلا رہے ہیں ایک دور تھا جب بتایا گیا کہ ملک بھر میں دس لاکھ افراد اس بری لت میں مبتلا ہیں لیکن اب تو یہ تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے۔یہ اطلاع پہلے بھی تھی کہ تعلیمی اداروں تک یہ لعنت پہنچ چکی لیکن اتنی تشویش اب پیدا ہوئی جب طلبا میں یہ رجحان زیادہ پایا گیا۔اب اساتذہ اور این جی او کے تعاون سے ایسے طلبا کی نشاندہی کرا ئی جائے گی جو منشیات کی کوئی بھی قسم استعمال کر رہے ہیں ان کا باقاعدہ علاج کرایاجائے گا اور انہی کے تعاون سے منشیات مافیا گرفت میں آئے گا۔یہ اطلاع تو تشویشناک ہے کہ طلبا گھر سے کالج جاتے ہیں اور وقت ختم ہونے پر یا پھر تعلیمی اوقات کے دوران منشیات سے آلودہ اشیاء خرید کر کھاتے ہیں۔یہ وبا پہلے ہی معاشرے میں چل رہی ہے کہ تعلیمی اداروں کے بارے میں ایسی خبریں ملنا شروع ہو گئی ہیں، اس سلسلے میں حکومت نے پروگرام بنایا تو اس کی تعریف کرنا چاہیے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو، یقیناً والدین، اساتذہ اور این جی او بہتر کام کر سکتے ہیں، بشرطیکہ ان سب کے درمیان بہتر ہم آہنگی بھی ہو۔یہ نیک کام ہے یہ مہم پہلے ہی سے شروع کی جانا چاہیے تھی۔ تاہم دیر آئد درست آئد۔