’سال کے اس ماہ میں پیدا ہونے والے بچوں اور حاملہ خواتین کا ذیا بیطس میں مبتلا ہونے کا 50 فیصد زیادہ خطرہ ہوتا ہے کیونکہ۔۔۔‘ جدید تحقیق میں سائنسدانوں نے اہم ترین راز بے نقاب کردیا، اولاد کے خواہشمندوں کو خبردار کردیا
سٹاک ہوم (نیوز ڈیسک) سویڈن کے سائنسدانوں نے ایک حالیہ تحقیق میں اہم انکشاف کیا ہے کہ حاملہ خواتین میں عارضی طور پر پائی جانے والی ذیا بیطس کا تعلق بڑی حد تک بچے کی پیدائش کے مہینے کے ساتھ ہوتا ہے۔ گیسٹیشنل زیابیطس کہلانے والی یہ عارضی ذیا بیطس عموماً حمل کے دوسرے نصف حصے میں لاحق ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ دوران حمل جسم میں انسولین کی اضافی ضرورت پوری نہ ہوپانا ہے، جس کا نتیجہ عارضی ذیا بیطس کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
ماہرین نے تحقیق میں دریافت کیا ہے کہ جن خواتین کے ہاں بچے کی پیدائش موسم گرما میں ہوتی ہے ان میں گیسٹیشنل ذیابیطس کا امکان بڑھ جاتا ہے کیونکہ درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ جسم میں انسولین کی اضافی مقدار پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔ اگرچہ عمومی طور پر یہ ذیا بیطس عارضی ہوتی ہے اور بچے کی پیدائش کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے لیکن بعض صورتوں میں اس کی وجہ سے متعدد دیگر مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ گیسٹیشنل ذیا بیطس کی وجہ سے بچے کی بذریعہ آپریشن پیدائش کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے جبکہ پیدائشی طور پر بچے میں نقائص پیدا ہونے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اس بیماری کی نوعیت شدید ہونے کی صورت میں اسقاط حمل کا خطرہ بھی ہوتا ہے، جبکہ اس کی وجہ سے بعدازاں ماں اور بچے میں مستقل طور پر ذیا بیطس کی بیماری بھی پیدا ہوسکتی ہے۔
وہ دودھ جو انسان نے پیا ہو تو وہ کبھی ان خطرناک بیماریوں کا شکار نہ ہوگا
سویڈن کی لنڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موسم گرما عموماً جبکہ خصوصاً جون، جولائی اور اگست کے مہینوں میں بچوں کو جنم دینے والی خواتین میں گیسٹیشنل ذیا بیطس کا امکان 51 فیصد بڑھ جاتا ہے۔ جون کے مہینے میں پیدا ہونے والے بچوں کی ماﺅں میں گیسٹیشنل ذیا بیطس کی ماہانہ فریکونسی 5.8 فیصد پائی گئی جبکہ مارچ میں یہ شرح 2.9 فیصد تھی۔ موسم گرما میں گیسٹیشنل ذیابیطس کی اوسط شرح 5.5 فیصد جبکہ موسم بہار میں یہ شرح 3.3 فیصد تھی، جبکہ موسم سرما میں اس کی شرح مزید کم دیکھی گئی۔