خبردار!بچوں پو امتحانات کا دباو نہ ڈالیں ورنہ وہ اس خطرناک ترین بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں،ماہرین نے خبردار کر دیا
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) ایک وقت تھا کہ بڑے ہی ذہنی دباﺅ اور ڈپریشن جیسی بیماریوں کا شکار ہوتے تھے مگر اب بات بچوں تک آ پہنچی ہے۔ برطانیہ میں یہ صورتحال اس قدر ناگفتہ بہ ہو چکی ہے کہ 2سال کے بچوں کو بھی ہپنوتھراپی(Hypnotherapy)کے لیے ماہرین کے پاس لیجایا جا رہا ہے۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق ملک میں بچوں کے ڈپریشن میں مبتلا ہونے اور ہپنوتھراپسٹس کے پاس لیجائے جانے کی شرح بھی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ امتحانات کے دباﺅکو قرار دیا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے بچوں کو ذہنی دباﺅ سے نجات دلانے کے لیے ہپنو تھراپی کا استعمال ایک ویب سائٹ نیٹ ممز(Netmums) اور نیشنل کونسل فار ہپنو تھراپی نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ اس کے پاس 1600ایسے مریض رجسٹرڈ ہوئے ہیں جن کی عمریں بہت کم ہیں اور گزشتہ تین سالوں میں ان کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ نیشنل کونسل فار تھراپی کے ترجمان رچرڈ لیپر کا کہنا تھا کہ ”ہمارے پاس اپنے بچوں کا علاج کروانے والے والدین جب اپنے اردگرد موجوددیگر والدین کو اس حوالے سے بتاتے ہیں تو وہ بھی اپنے بچوں کو لے کر ہمارے پاس آ جاتے ہیں۔ اس لیے اس شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے پاس لائے جانے والے بچوں کے والدین کو ان کے چڑچڑے پن، ضد ی ہونے اور خوراک کی بے قاعدگی جیسی شکایات ہوتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ماہرین نے ایسے والدین کو متنبہ کیا ہے کہ ”کوئی بھی شخص معمولی تربیت لے کر ہپنوتھراپسٹ بن سکتا ہے، ایسے تھراپسٹ کے طریقہ ہائے علاج بالکل بے اثر ہوتے ہیں لہٰذا وہ اپنے بچوں کے علاج کے لیے کسی ماہر تھراپسٹ کے پاس ہی جائیں۔ لنڈا ہڈسن گزشتہ 20سال سے ہپنوتھراپسٹ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ”میں نے جب یہ کام شروع کیا تھا تو مشکل ہی سے کبھی کوئی بچہ میرے پاس لایا جاتا تھا۔ لیکن اب انتہائی کم عمر بچوں پر بھی ذہنی دباﺅ بہت زیادہ ہو چکا ہے۔ سکول میں بچوں کے مستقل طور پر ہونے والے ٹیسٹ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب میرے پاس بہت زیادہ تعداد میں والدین اپنے بچوں کو بھی لاتے ہیں۔“ رپورٹ کے مطابق کسی ہپنوتھراپسٹ سے نجی طور پر علاج کروانے کے لیے ایک سیشن پر 50پاﺅنڈ(تقریباً ساڑھے 7ہزار روپے) سے 90پاﺅنڈ(تقریباً تقریباً ساڑھے 13ہزار روپے)خرچ آتا ہے۔ لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی اپنے آپ کو ہپنوتھراپسٹ کہلوا سکتا ہے اور اپنا کلینک کھول کر بیٹھ سکتا ہے۔ نیشنل کونسل فار تھراپی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ”ہم نے کئی ایسے تھراپسٹ دیکھے ہیں جو بچوں کا علاج کر رہے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں اس سے قبل انہوں نے کبھی یہ کام نہیں کیا ہوتا۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ ہمیشہ مستند تھراپسٹ کے پاس ہی اپنے بچوں کو لے کر جائیں۔“