’’میں ہوں دلیپ کمار‘‘ ...نویں قسط

’’میں ہوں دلیپ کمار‘‘ ...نویں قسط
 ’’میں ہوں دلیپ کمار‘‘ ...نویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شہنشاہ بالی ووڈ دلیپ کمار کی زبانی انکی اپنی کہانی،دلچسپ ،حیرت انگیز۔۔۔ روزنامہ پاکستان میں قسط وار۔ترجمہ : راحیلہ خالد

توپ گاڑی کے اندر انگریز فوجی تھے اور وہ چلاّ رہے تھے اور ان قبائلیوں کو جو گودام کے پیچھے چھپے ہوئے تھے،للکار للکار کر باہر نکلنے کا کہہ رہے تھے۔ ان کی بندوقوں کا رخ گودام کی سمت تھا۔ میں ایک بار پھر ایک خطرناک اور مایوس کن صورتحال میں پھنس گیا تھا۔ کچھ دیر بعد،جب وہ لوگ پہاڑی قبائلیوں کے باہر نکلنے کا انتظار کر کے تھک گئے تو انہوں نے توپ گاڑی واپسی کیلئے موڑ لی۔
اب مجھے یہ خوف تھا کہ میں ان قبائلیوں کا سامنا کیسے کروں گا۔ اگر وہ واقعی وہاں چھپے ہوئے اور انہوں نے مجھے دیکھ لیا تو کیا ہو گا۔ مجھے اتنی تو سمجھ تھی کہ میں جانتا تھا کہ پہاڑی قبائلی خطرناک لوگ تھے اور وہ مجرم تھے جو لوٹ مار کرتے تھے۔
باہر دن کی روشنی ماند پڑتی جا رہی تھی اور مجھے جلدی گھر پہنچنا تھا۔ اتنی چھوٹی عمر میں بھی میرے اندر کا انسان مجھے خطرہ مول لینے پر اکسانے لگا۔ میں نے تیزی سے شٹر اوپر اٹھایا اور باہر بھاگ گیا۔ میرے بھاگنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ جب میں اپنے گھر کے دروازے پر پہنچا تو میں خود بھی حیران رہ گیا۔ تھکن سے چور اور پھولی ہوئی سانس کے ساتھ میں اماں کے بازوؤں میں سما گیا۔ وہ اور دادی میرے لئے دعائیں مانگ رہی تھیں اور میری تلاش میں ایک گروہ بھی بھیجا جا چکا تھا۔
اماں نے مجھے اپنے ساتھ لگا لیا اور میں ان کی وہ بڑبڑاہٹ سن سکتا تھا کہ جس میں وہ اللہ جل شانہ‘ کا شکر ادا کر رہی تھیں کہ ان کا بیٹا انہیں صحیح سلامت واپس مل گیا تھا۔ گودام کے قریب گولیاں چلنے کی خبر میرے گھر اور اس کے آس پڑوس میں پہنچ چکی تھی اور تبھی اماں کو گھر میں میری غیر موجودگی کا احساس ہوا تھا۔
میں نے ان سب کو وہ بتایا جو میں نے شٹر کے سوراخ سے دیکھا تھا۔ میری بتائی گئی باتیں سن کر پہلے پہل تو دادا اور آغا جی کو غصہ آیا لیکن اس حقیقت کے پیش نظر کہ میں صحیح سلامت گھر پہنچ چکا تھا،ان کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔
آغا جی لمبے قد اور چوڑے کندھوں کے ساتھ ایک خوبرو شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی مونچھیں بڑی جاذب نظر تھیں۔ ان کے اور دادا کے بال بہت گھنے تھے اور اسی وجہ سے میرے بال بھی گھنے ہیں۔ آغا جی بالکل سیدھا چلتے تھے اور اسی وجہ سے پٹھانوں والے پائجامے اور کُرتے ان پر بہت جچتے تھے۔ وہ کاٹن کے بنے ہوئے اور ماہر درزی کے سلے ہوئے ہوتے تھے۔ وہ ہلکے رنگوں کو ترجیح دیتے تھے اور سفید رنگ انہیں بہت پسند تھا۔
آغا جی،اماں سے بہت پیار کرتے تھے لیکن اپنی اس محبت کا اظہار وہ گھر والوں کے سامنے کم ہی کیا کرتے تھے۔ جب وہ اماں کیلئے کچھ خرید کر لاتے تو اوپری منزل پر موجود اپنے کمرے میں ہی انہیں دیتے تھے۔ چونکہ میں ہر وقت اماں کے گرد منڈلاتا رہتا تھا اس لئے میں دیکھا کرتا تھا کہ وہ اماں کیلئے دوپٹہ یا انگریزی ٹیلکم پاؤڈر لاتے اور چپکے سے انہیں دے دیتے۔ اماں،آغا جی سے ان کی لائی ہوئی چیزیں لیتیں اور انہیں الماری میں آگے کر کے رکھ دیتیں۔ اور اس ڈر سے کہ کہیں دادی انہیں ان کے میاں کے ساتھ اکیلا نہ دیکھ لیں،جلدی سے کمرے سے نکل جاتیں۔

آٹھویں قسط پڑھنے کیلئے کلک کریں۔
اماں گوری رنگت کی دبلی پتلی خاتون تھیں۔ جب میں دو سال کا تھا تو میرا چھوٹا بھائی ناصر پیدا ہوا۔ اور جب میری عمر چار سال تھی تب میری بہن تاج پیدا ہونے والی تھی۔ جب بھی میرا کوئی بھائی یا بہن پیدا ہوتی،میں تعجب کا شکار ہو جاتا تھا۔ اور اماں کا نئے پیدا ہونے والے بچے میں مکمل مصروف ہو جانا اور اپنے بڑے بچوں کو یکسر نظر انداز کرنا مجھے اشتعال دلاتا تھا۔ کسی بھی حال میں،میں ان کے پیچھے پیچھے چلنا نہیں چھوڑتا تھا اور رات کو سوتے وقت بھی میں ان کے پہلو میں اپنی جگہ تلاش کر ہی لیتا تھا۔
گرمیوں کے مہینوں میں کبھی کبھار ہم چاندنی راتوں میں چھت پر سوتے تھے اور جب چاند کی روشنی میری اماں پر پڑتی تو میں ان کے پر سکون چہرے کی خوبصورتی دیکھ کر دنگ رہ جاتا۔ وہ دن بھر کی محنت مشقت کے بعد گہری نیند سو رہی ہوتی تھیں۔ میری پھوپھیاں بھی وہیں سو رہی ہوتی تھیں اور ان کے ساتھ ساتھ وہ صحتمند فارسی بلیاں بھی خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہوتی تھیں جو سردیوں میں بستر گرم کرنے کے مقصد سے پالی گئی تھیں۔
سردیوں کی راتیں گھر کے بچوں کیلئے بہت پر لطف اور مزے سے بھرپور ہوا کرتی تھیں۔ اکثر ہی سب گھر والے گھر کی بڑی سی چھت پر جمع ہوتے تھے اور ساتھ ہی انگیٹھی بھی دہک رہی ہوتی تھی۔ ہم سب انگیٹھی کے اردگرد بیٹھتے تھے تا کہ اپنے آپ کو گرم اور پرجوش رکھ کر سردیوں کی رات کا لطف اٹھا سکیں۔ ہر فرد اپنے ساتھ لحاف بھی لیکر آتا تاکہ ٹانگوں سے پیٹھ تک کے حصے کو اس سے ڈھانپا جا سکے۔ ہر فرد پہ کہانی سنانا یا پھر گانا گانا لازم ہوتا تھا۔ اور کہانی بھی ایسی ہوتی تھی جس میں کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق موجود ہوتا تھا اور کسی بھی قسم کے بالغانہ مواد سے اجتناب کیا جاتا تھا کیونکہ بچے بھی اس کہانی کو سن رہے ہوتے تھے۔

میری زندگی میں آنے والا سب سے پہلا محتسب یقیناًدادی ہی تھیں۔ کہانی سناتے وقت اگر انہیں محسوس ہوتا کہ کہانی کا کوئی بھی حصہ عورتوں یا بچوں کی موجودگی میں سنانا مناسب نہیں تو اس صورت میں وہ اس کہانی میں فوری تخفیف کر لیا کرتی تھیں۔ میرے ایک خالو ایسی کہانیاں سنانے کے شوقین تھے کہ جنہیں اگر دادا خوندکے بھی سنتے تو وہ بھی شرمندہ ہو جاتے۔ ایک دفعہ جب انہوں نے اپنی ایک کہانی سنانے کی کوشش کی تھی تو دادی نے فوراً ہی انہیں اپنے کمرے میں جا کر سونے اور دوبارہ چھت پر نہ آنے کا کہہ دیا تھا۔ اور یہ پابندی زندگی بھر کیلئے تھی۔

جاری ہے۔ دسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

مزید :

تفریح -