’’میں ہوں دلیپ کمار ‘‘... تیسری قسط

’’میں ہوں دلیپ کمار ‘‘... تیسری قسط
’’میں ہوں دلیپ کمار ‘‘... تیسری قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شہنشاہ بالی ووڈ کی زبانی انکی اپنی کہانی،دلچسپ ،حیرت انگیز۔۔۔ روزنامہ پاکستان میں قسط وار۔ترجمہ : راحیلہ خالد

اس فقیر نے اپنی نظریں مجھ پر مرکوز کیں اور دادی سے کہنے لگا ، ’’ یہ بچہ عظیم شہرت اور بے پناہ کامیابیوں کیلئے بنا ہے۔ اس بچے کا اچھے سے خیال رکھو اور دنیا کی بری نظر سے اسکی حفاظت کرنا۔ اگر تم نے اس کا خیال رکھا اور اسے بری نظر سے بچائے رکھا تو یہ بڑھاپے میں بھی حسین ہو گا۔ تمہیں اسے کاجل سے بدصورت بنانا پڑے گا کیونکہ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم اسے وقت سے پہلے کھو دو گے۔ اس کا چہرہ ہمیشہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نور سے روشن رہے گا۔‘‘
اس بات کا یقین کر لینے کے بعد کہ اب وہ فقیر آگے اور کچھ نہیں کہے گا،میں نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ میں اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا اور وہ ایک مہربان مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجائے ہوئے تھا۔ دادی نے غیر شعوری طور پر مجھے اپنی بانہوں میں بھر لیا،جیسے اگر وہ مجھے اپنے قریب نہ کرتیں تو کھو دیتیں۔ اس آدمی نے اماں کا لایا ہوا کھانا اور پیسے لئے اور چلا گیا۔
کسی خاص واقعے کے وقوع پذیر ہونے سے بے خبر،میں اس آدمی کے جانے کے بعد اپنے کزنز کے ساتھ کھیلنے کیلئے گھر سے باہر بھاگ گیا۔ تب مجھے اس بات کا ذرہ برابر اندازہ نہیں تھا کہ اگلے دن سے کس چیز کا آغاز ہونے والا ہے۔ دادی نے مجھے دنیا کی بری نظروں سے بچانے کا ذمہ اپنے سر لے لیا۔ انہوں نے میرا سر منڈوا دیا اور ہر روز اسکول جانے سے پہلے وہ مجھے بد صورت دکھانے کیلئے میرے ماتھے پر کاجل سے ایک لکیر کھینچ دیتیں۔
اماں نے انہیں یہ بات سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ وہ انکے بچے کو اس قدر بد صورت مت بنائیں کہ دوسرے بچے اس کا مذاق اڑائیں اور اسے احساس کمتری میں مبتلا کر دیں۔
آغا جی نے بھی اپنی ضدی ماں کو ان تمام چیزوں کے نتائج سے خبردار کرنے کی پوری کوشش کی جو وہ میرے ساتھ کر رہی تھیں۔ لیکن دادی ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ ان پر میرے پیار اور حفاظت کا احساس اس قدر غالب تھا کہ انہوں نے میرے والدین کی منتوں سماجتوں اور التجاؤں کو رد کر دیا۔
یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہر صبح جب میں اسکول پہنچتا تو میں ایک تماشا بنا ہوا ہوتا۔ جس طرح کی سرگوشیوں اور دبی دبی ہنسی نے پہلے دن اسکول میں میرا استقبال کیا تھا وہ میرے لا شعور میں بلند ہوتی تھیں اور انہوں نے ہی مجھے اکسایا کہ میں اگلے دن اسکول نہ جانے کے بہانے ڈھونڈوں۔ میں نے اپنے دکھ اور نا خوشی کا اظہار اماں سے کیا اور انہیں وہ تمام باتیں بتائیں کہ کس طرح میرے ہم جماعت اور بڑی جماعتوں کے لڑکے میرا مذاق اڑاتے تھے۔

دوسری قسط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔
اماں جو اپنی ساس سے بہت کم بحث کیا کرتی تھیں۔ میری باتیں سن کر بہت دکھی دکھائی دیں اور انہوں نے مجھے اپنے ساتھ لگا کر دادی سے کہا۔
’’ آپ میرے بچے کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتیں۔ دیکھیں یہ کتنا دکھی ہے۔‘‘
دادی ششدر رہ گئیں۔ وہ تقریباً چلاتے ہوئے بولیں۔
’’ میں نے ایسا کیا کیا عائشہ ؟ آپ نے بھی سنا وہ فقیر کیا کہہ رہا تھا۔ اس نے صرف یوسف کو چن کے بات کی تھی۔ ہمارے گھر کے بچے،سب تھے اس کے سامنے۔‘‘
یہ بات واضح تھی کہ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ وہ صحیح تھیں۔ انہوں نے مجھے اپنے قریب کر کے اطمینان دلانے کی کوشش کی اور اس بات کی وضاحت کی کہ وہ کیوں مجھے بد صورت بناتی رہی ہیں۔
میں اتنا دکھی اور غصے میں تھا کہ میں نے انہیں جھٹک دیا اور اپنا سر اماں کی گود میں رکھ کر اپنی سسکیاں دبانے کی کوشش کرنے لگا تاکہ میری سسکیوں کی آواز سن کر میرے کزنز میرا مذاق نہ اڑانے لگیں۔
پٹھان لڑکوں کو بچپن سے ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ رونا مردوں کو زیب نہیں دیتا۔حتیٰ کہ جب کھیلتے ہوئے ہماری کہنیاں اور گھٹنے زخمی ہو جاتے اور زخموں پر چبھنے والا مرکب لگایا جاتا تب بھی ہمیں کہا جاتا کہ ہم مردوں کی طرح درد برداشت کریں اور عورتوں کی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں پر واویلا نہ مچائیں۔ ہم آنسوؤں سے تو رو سکتے تھے لیکن چیخ و پکار ممنوع تھی۔
اگرچہ،اگلے دن اسکول میں،میرے ماتھے پہ کاجل کی لکیر پہ کسی نے خاص توجہ نہ دی لیکن دادی نے کاجل کی وہ لکیر بنانا بند نہ کی۔ میں اسکول میں تنہا ہو گیا اور بہت کم کھیلتا تھا۔ میں خاموش رہنا پسند کرتا اور اپنے اسکول کی چھوٹی سی لائبریری میں موجود رنگوں والی کتابوں سے کھیلتا۔ چند مہربان اساتذہ نے مجھے باہر جا کر کھیلنے بارے تاکید بھی کی لیکن میں ان کی بات ماننا نہیں چاہتا تھا۔ اس کی بجائے تصویری کتابوں کی فرضی دنیا میں میری دلچسپی بڑھتی گئی۔ اس وقت میری عمر پانچ سال سے زیادہ نہ تھی۔
میری پھوپھیاں،چچیاں اور چاچا دو باتوں کی وجہ سے مجھ پر فدا تھے۔ ایک تو یہ کہ میں ایک صحتمند اور طاقتور بچہ تھا اور دوسری یہ کہ میں اپنی اماں کو بہت تنگ کرتا تھا اور اپنی دوستانہ طبیعت کے پیش نظر یہ چاہتا تھا کہ جس دوران میری اماں کام کاج میں مصروف رہیں میں دوسری خالاؤں کی گود میں منتقل ہوتا رہوں۔
جیسے ہی میں بڑا ہوا اور مجھے باتوں کی سمجھ آنے لگی تو اکثر ہی میرا ننھا دماغ اپنی ماں بارے تشویش کا بوجھ اٹھائے رہتا۔ میری آمرانہ طبیعت کی مالک دادی ہر وقت میری اماں کو آوازیں دیتی رہتیں اور انہیں کاموں میں لگائے رکھتیں جبکہ ان کی اپنی بیٹیاں آرام کرتیں اور کسی کام کو ہاتھ تک نہ لگاتیں۔
مجھے یاد ہے جب ایک صبح آغا جی اماں سے پوچھ رہے تھے کہ وہ کچن میں اکیلے ہی محنت مشقت کیوں کر رہی ہیں جبکہ گھر میں اور خواتین بھی موجود تھیں جو گھر کے کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹا سکتی تھیں۔
میں اپنی اماں کی نرم اور دھیمی آواز کی بازگشت ا ب ابھی سن سکتا ہوں کہ جیسے انہوں نے اپنے شوہر کو خاموش کروایا تھا اور انہیں وضاحت دی تھی کہ انہیں ان کی قابلیت کی وجہ سے کچن کے کام سونپے جاتے تھے اور انہیں لاتعداد چائے دانیاں بھر کے خوشی ہوتی تھی۔
انہیں چائے بنانے کا اس لئے کہا جاتا تھا کیونکہ اس گھر کی دوسری کوئی عورت ان جیسی ذائقہ دار چائے نہیں بناتی تھی۔ یہ وضاحت سن کر پھوپھی بابجان،جو آغا جانی کی بہن تھیں،ان کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا اور انہوں نے میری ماں کو ایک سائیڈ پر لے جا کر بھیس بدلنے پر ان کی سرزنش کی تھی۔
میری دادی ایک مضبوط ہمت و حوصلے والی خاتون تھیں۔ وہ حاکمانہ طبیعت کی مالک تھیں اور ان کی یہ خوبی وراثتی طور پر میری بڑی بہن سکینہ آپا میں بھی منتقل ہوئی تھیں۔ دادی اپنی تمام باتیں آغا جی سے کیا کرتی تھیں اور اکثر آغا جی بھی انہیں ملکی حالات بارے آگاہ کرتے تھے،جنہیں وہ اپنے حسین بیٹے کے چہرے پر نظریں گاڑھے،بڑے انہماک سے سنتی تھیں۔ یہ روزانہ کا معمول تھا کہ جب وہ مغرب کے بعد مارکیٹ سے گھر لوٹتے،تو ہمیشہ سیدھا دادی کے پاس جاتے،جو اپنے کمرے میں اپنی آرام دہ کرسی پر بیٹھی ان کا انتظار کر رہی ہوتی تھیں۔ ان کے ہونٹ ہلتے رہتے تھے اور ہمیں پتہ ہوتا تھا کہ وہ چپکے سے اپنی تسبیح پڑھ رہی ہوتی تھیں۔

(جاری ہے۔ چوتھی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)

مزید :

تفریح -