گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 46

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ ...
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 46

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزراء کی زندگی روز بروز دشوار تر ہوتی جارہی تھی کیونکہ ان کے حمایتی زیادہ سے زیادہ مراعات کا مطالبہ کررہے تھے۔ جس قدر مراعات دی جاتی تھیں وہ تمام تر فراموش کردی جاتیں اور تازہ مطالبات کی کوئی حدوانتہا نہ رہی تھی۔ ممبروں کی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جو پرانی وضع اور روایات کے تھے اور دیہات کے ان معزز خاندانوں کے سپوت تھے جو فاقہ کی موت قبول کرلیتے ہیں لیکن کسی کے آگے جھکنا گوارانہیں کرتے، لیکن کچھ نیم خواندہ اور جاہ پسند ایسے لوگ بھی تھے جو مفادات کے حصول کی خاطر اپنی ممبری کو استعمال کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ اپنے بیٹوں کے لئے ملازمتیں مانگتے تھے اور بعض اراضی کے قطعات کا مطالبہ کرتے تھے۔ ارکان کی ایک اچھی خاصی تعداد وزراء سے یہ توقع کرتی تھی کہ سرکاری ملازموں کے نام ان کے لئے سفارشیں لکھا کریں۔ نام کیے لئے وہ کسی ایک یا دوسری پارٹی سے منسلک ہوتے تھے لیکن اپنی جماعتی تنظیم کے لئے نہ روپیہ پیسہ دیتے، نہ اپنا اثر و رسوخ استعمال میں لاتے۔ ہر شخص اپنے رشتہ داروں، برادری والوں اور دوستوں کی امداد سے کامیاب ہوتا تھا۔

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 45 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شہروں کے برعکس دیہی علاقوں میں ووٹ بالعموم فروخت نہیں ہوتے تھے۔ ملک میں ووٹروں کی تعداد بنیادی طورپر نیک دل اور خدا ترس لوگوں کی تھی۔ دیہات کے ووٹر اپنے ممبر کو کسی کام کے لئے کم سے کم تکلیف دیتے تھے لیکن 1937ء کے بعد حالات ابتر ہوگئے کیونکہ ممبر اب اپنی اہمیت و اختیار کا اندازہ کرنے لگے تھے۔ انہوں نے وزراء کو مرعوب کرنے کے لئے پارٹیوں کے اندر اپنے علیحدہ گروپ بنانے شروع کردئیے۔ ایک مضبوط گروپ کسی وزیر کو بلیک میل کرسکتا تھا۔ اس طرح مختلف گروپوں کی بلیک میلنگ بد سے بدتر صورت اختیار کرنے لگی (اس کا نقطہ عروج آزادی کے بعد نظر آیا جبکہ آئین ساز اسمبلی کو قانون ساز اسمبلی کا درجہ بھی حاصل ہوگیا اور وہ پہلے عام انتخابات تک کے لئے ناقابل تنسیخ تسلیم کی گئی۔’’تب بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے‘‘ کی پالیسی گویا روزمرہ کا معمول بن گئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ 1958ء کی جمہوری حکومت کی تنسیخ اورمارشل لا کے قیام کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا۔)
میں فروری 1936ء میں گھوڑ پالنے والوں کے ایک کل ہند اجلاس میں شرکت کے لئے دہلی گیا۔ وہاں پر میری ملاقات اپنے ایک دوست اور رفیق سرہنری کریک سے ہوئی جو مرکزی حکومت میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے لے لئے گئے تھے۔ میں نے برسبیل تذکرہ ان سے کہا کہ سولہ سال سے صوبائی اسمبلی کا رکن ہوں اور دس سال سے وزیر چلا آرہا ہوں، اگر کوئی اور صورت دلچسپی کی ہو تو میں اس تبدیلی کو پسند کروں گا۔
سرفضل کی صاحبزادی کی شادی میرے سب سے چھوٹے بھائی اکبر کے ساتھ ہوئی اور میں سمجھتا تھا کہ ہم دونوں یعنی سرفضل اور میں کابینہ میں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ گورنر نے اس موضوع پر مجھ سے گفتگو کی اور میں نے انہیں جواب دیا کہ اگر سرفضل دہلی کی انتظامیہ کونسل سے واپس آنا چاہیں تو میں اپنی نشست ان کے لئے بڑے شوق سے خالی کردوں گا۔ میں چاہتا تھا کہ گاؤں واپس جاکر کھیتی باڑی کا کام سنبھالوں، اپنا ایک مکان ہو اور زمین سے تھوڑی سی آمدنی ہوتی رہے تو یہ بات خود اعتمادی اور عزت نفس کا بہت بڑا وسیلہ ہے۔
انہی حالات کے تحت میں نے دہلی میں اپنے دوست سرہندی کریک سے اپنی موجودہ حیثیت میں تبدیلی کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ان دنوں وائسرائے کی کابینہ کو ہندوستان کے ایک غیر سرکاری ہائی کمشنر کی تلاش تھی۔ گزشتہ تمام ہائی کمشنر وائسرائے کی کونسل کے ریٹائرڈ ممبر تھے۔ وائسرائے (لارڈولنگڈن) نے سرعبدالقادر کے نام کی سفارش کی تھی، جو پہلے ہی وزیر مملکت کی کونسل کے رکن کے طور پر لندن میں مقیم تھے لیکن وزیر مملکت نے یہ مشورہ قبول نہیں کیا۔تب سرسکندر کے بڑے بھائی سرلیاقت حیات کا نام تجویز کیا گیا۔ وہ پولیس کے سپرنٹنڈنٹ رہ چکے تھے اور اس وقت ریاست پٹیالہ کے وزیراعلیٰ تھے۔ ان کا نام بھی قبول نہیں کیا گیا۔ کابینہ دو ناموں پر غور کررہی تھی۔ ایک نام سرفرینک نوائس کا تھا، جو وائسرائے کی کابینہ کی رکنیت سے ریٹائر ہونیو الے تھے اور دوسرا نام میرا تھا۔ پھر یہ خبر گرم ہوئی کہ کابینہ کے ارکان کی تعداد دونوں ناموں کے حق میں مساوی طور پر تقسیم ہوچکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ولنگڈن نے مڑ کر سرایرک مارویل کی طرف دیکھا اور بولے ’’ایرک! تم کو تو معلوم ہی ہوگا کہ اس بارے میں کیا لکھنا چاہیے۔‘‘ اس کے چند ہی ہفتہ بعد میں اپنا نیا عہدہ سنبھالنے کے لئے برطانیہ کی طرف پرواز کررہا تھا۔
یہ ایک حیران کن اتفاق ہے کہ برہمن کی پیشگوئی میرے متعلق تینوں معاملوں میں صحیح ثابت ہوئی میں ہائی کمشنر کے طور پر پانچ سال اور چھ مہینے انگلینڈ میں رہا۔ وہاں سے وائسرائے کی انتظامی کونسل کے رکن کی حیثیت سے پانچ سال کے لئے واپس آیا اور اس کے بعد میں بے یقینی کے ایک صحرا میں جاپہنچا۔ یہی وجہ تھی کہ برہمن نے دس سال کے بعد کے واقعات بیان کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کی پیشنگوئی شاہ ایڈورڈ ہشتم کے سلسلہ میں بھی درست ثابت ہوئی۔ وہ تخت سے دستبردار ہوگئے تھے۔ اس کے بعد اس برہمن سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ البتہ چند سال گزرے دہلی سے اس کا ایک خط ملا تھا۔ وہ ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد مالویہ کالونی میں رہتا ہے۔ ہر صبح انسانوں کا ایک ہجوم اس کے دروازہ پر منتظر رہتا ہے اور وہ ان سے کوئی فیس نہیں لیتا۔ مجھے یہ اعتراف ہے کہ اس کے بعد سے میرے دل میں اس دست شناس کے لئے یک گو نہ احترام پیدا ہوگیا۔
مجھے سرایلبین بینرجی کی بات اب تک یاد ہے۔ وہ ایک زمانہ میں میسور اور پھر کشمیر کے وزیراعلیٰ رہ چکے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’میں جوتش کے حساب سے فلاں تاریخ کو مرجاؤں گا۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے اپنا سارا فرنیچر بیچ دیا۔ اثاثہ سمیٹا اور مرنے کے لئے ممبئی چلے گئے اور مجھے یہ دیکھ کر واقعی خوشی ہوئی کہ ان کے جوتش کا علم غلط ثابت ہوا۔ وہ اس کے بعد کئی برس تک خوش و خرم زندہ رہے۔ جوتش کی بنیاد پر نتائج کا اخذ کرنا میرے خیال میں نہایت حوصلہ شکن بات ہے اور اس سے احتراز کرنا چاہیے۔ آدمی کی موت کا دن کسی کو معلوم نہیں اور یہی بات سب سے اچھی ہے۔(جاری ہے)

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 47 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں