گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 22

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ ...
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 22

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میں انگلینڈ میں بھی مغرب کی طرف ہی رخ کرکے نماز پڑھتا رہا۔ کچھ عرصے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ برطانیہ میں تو مکہ معظمہ مشرق کی طرف ہوگا۔ اس کے بعد میں مشرق کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے لگا۔ ایشیا میں عیسائی بھی اسی طرح کی غلطی کرتے ہیں۔ یہاں بھی ان کے گرجوں کا رخ مشرق کی طرف ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ کہ عبادت کے وقت ان کی پشت ارض مقدس کی طرف ہوتی ہے لیکن دنیا گول ہے اور خدا ہر جگہ ہے۔ میرے اتالیق نے لکڑی کا ایک تختہ بنوادیا تھا۔ جس پر میں اپنا مصلیٰ بچھایا کرتا تھا۔ میں قرآن پاک بھی پابندی سے پڑھتا تھا مباد الاعلمی میں عیسائی نہ بن جاؤں۔ میں نے بائبل کا بھی مطالعہ کیا اور تب اندازہ ہوا کہ ان مقدس کتابوں میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ قرآن پاک نے مسلمانوں کو اس عقیدہ کی تلقید کی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ معصوم اور پاک و صاف دنیا میں آئے تھے اور یہ کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت موسیٰؑ پر اسی طرح عقیدہ رکھو جیسے حضرت محمد ﷺ کے باب میں رکھتے ہو۔ چنانچہ ہر مسلمان بیک وقت مسیحی بھی ہے، یہودی بھی اور مسلمان بھی۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائی مشنری مسلمان ملکوں میں کامیاب نہ ہوسکے۔
ایک دن ڈاکٹر الائیڈ نے مجھ سے پوچھا کہ آپ لوگ سؤر کا گوشت کیوں نہیں کھاتے؟ میں نے جواب دیا کہ قرآن کریم نے اس سے منع کیا ہے اور بائبل میں بھی اس کی ممانعت ہے۔ انہوں نے پوچھا ’’کہاں؟‘‘

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 21  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں جھٹ اپنی بائبل اٹھالایا۔ انہوں نے کہا ’’اوہ! یہ تو عہد نامۂ قدیم ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا ’’آپ لوگ اگر اس پر ایمان نہیں رکھتے تو اسے ایک ہی جلد میں کیوں مرتب کرتے ہیں، اور اس کا سبق اپنے بچوں کو کیوں پڑھاتے ہیں؟‘‘ وہ چپ چاپ مسکراتے رہے۔
ویکاریج میں ہمارا ایک ملازم تھا جس کا نام گارنہم تھا۔ اسے دیکھ کر مجھے احساس ہواکہ ہمارے ملازم کتنا کم کام کرتے ہیں۔ صبح کے وقت چھت پر پانی کا ذخیرہ کرنے کے لئے پمپ چلاتا تھا۔ اس کے بعد تمام جوتے، لیمپ، کتوں کے بیٹھنے کی جگہ اور اصطبل صاف کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی کتوں اور گھوڑوں کی دیکھ بھال بھی اس کے ذمہ تھی۔ وہ کوئلے توڑ کر انہیں تمام کمروں میں تقسیم کرتا چونکہ صفائی کے لئے فلش کا طریقہ موجود نہ تھا، اس لئے یہ بھی اس کی ڈیوٹی تھی کہ پاخانے کی ساری غلاظت ہفتہ میں ایک بار سمیٹ کر باغ کے گڑھے میں دبادے۔
سبزیوں کے باغیچہ کے علاوہ بیرونی لان کی دیکھ بھال بھی اس کی ذمہ داری تھی۔ لان میں ایک طرف سرکنڈوں کی ایک چھوٹی سی جھاڑی لگی ہوئی۔ جب اس کی شاخیں پھیلتیں تو ہمیں بے حد خوشی ہوتی۔ ہمارے ملک میں سرکنڈے دریاؤں کے کنارے بکثرت اگتے ہیں اور بہت کام آتے ہیں۔ ان سے سائبان، چھتیں بنائی جاتی ہیں، باڑ بناتے ہیں اور بٹ کر رسی بھی تیار کرتے ہیں۔ میں نے ہندوستان آکر جب اپنے لوگوں کو یہ بتایا کہ وہاں ایک گھر میں ایک ہی آدمی یہ سارے کام کرتا ہے۔ تو انہیں میری بات کا یقین نہ آیا۔ ہمارے گھروں میں ایک آدمی کے کام کی خاطر 10 آدمی ملازم رکھنے پڑتے ہیں۔ اس تمام کام کی تنخواہ اسے جو ملتی تھی، وہ خوراک و رہائش کے علاوہ ہفتہ کے دس شلنگ تھے۔ اس حالت میں بھی وہ بہت خوش و خرم تھا۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ گرم ملکوں کے رہنے والے جب سرد علاقہ میں جاتے ہیں تو ان کے خون میں ملیریا کے جراثم ہوتے ہیں تو ان پر مرض کا حملہ ہوجاتا ہے۔ مجھ پر یہ حملہ پوری انتقامی شدت کے ساتھ ہوا اور میرا بخار 106 درجہ تک جاپہنچا۔ اس وقت ریورنڈ لائیڈ کے سب سے بڑے بیٹے کیپٹن آر لائیڈ جو کلکتہ میں سیرولوجسٹ تھے۔ چھٹی پر گھر واپس آئے ہوئے تھے۔ بخار اترنے کے بعد پہلی بار اُٹھ کر کھانے کی میز پر آیا، تو میں نے اپنی خبر گیری کے لئے فرداً فرداًسب کا شکریہ ادا کیا۔ خاص طور پر مسز لائیڈ کا کہ وہ مجھ پر بہت مہربان تھیں اور مجھے تسلی (Comfort) دینے کے لئے میرے کمرے میں آجاتی تھیں۔ مسز الائیڈ کھانے کی میز پر پہلے سرے پر بیٹھی تھیں۔ میرا آخری فقرہ سن کر انہوں نے غصے سے اپنے شانوں کو جنبش دی اور بولیں ’’ہرگز نہیں۔ میں نے ایسا نہیں کیا۔‘‘ میرا چہرہ شرم کے مارے تمتما اٹھا اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے دل دھڑکتے دھڑکتے ایک دم رُک گیا ہو۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ مجھ سے آخر کون سی غلطی سرزد ہوئی۔ کیپٹن لائیڈ نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ اپنی زبان میں وضاحت کیجئے، میں نے کہا میرا مطلب تسلی سے تھا۔ جس کا لفظی ترجمہ کیا جائے تو انگریزی میں (Comforting) کہا جائے گا۔ اس وضاحت کے بعد طوفان فروہوگیا۔ کئی سال گزرنے کے بعد مجھے Comforting کے ذو معنی ہونے کا علم ہوگیا۔
ایک دن مسز لائیڈ کے بھائی ملاقات کے لئے آئے۔ وہ بہت دولت مند تھے اور جنوبی امریکہ میں ان کی تانبے کی کان تھی۔ جب وہ کسی ہوٹل کے ڈائننگ روم میں جاتے تو پہلا کام یہ کرتے کہ ہیڈ ویٹر کو 10 شلنگ بخشیش دیتے۔ 10 شلنگ اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی لیکن ا ن کی اس عادت سے مجھے یہ علم ہوا کہ بخشیش خمت کے بعد نہیں بلکہ پہلے دینی چاہیے۔
میں اکثر سائیکل پر ایشبے چلا جاتا تھا۔ ایک دن گھر واپس آتے ہوئے، ابھی راستے ہی میں تھا کہ برف باری ہونے لگی۔ اس سے پہلے میں نے برف گرتے نہیں دیکھی تھی۔ میں ڈرا کہ کہیں برف میں دب کر نہ رہ جاؤں۔ا س لئے میں نے پوری طاقت سے پیڈل مارنے شروع کئے۔ برف تو مشکل سے ایک انچ پڑی، لیکن میں اتنا برف سے نہیں بھیگا جتنا پسینہ میں شرابور ہوگیا۔
ایک دن مسٹر لائیڈ نے مجھے لائیڈز بنک ایشبے سے ایک چیک بھنانے کے لئے دیا۔ میں نے پوچھا کہ یہ بنک آپ کا ہی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا ’’میرے بیٹے! کاش میرا ہی ہوتا۔‘‘ بہرحال انہوں نے خزانچی کے نام ایک تعارفی چٹھی لکھ دی۔ میں نے کہا کہ یہ چٹھی میں نہیں لے جاؤں گا۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ خزانچی مجھ پر اعتماد کرلے گا۔ بہرحال چٹھی انہوں نے دے دی لیکن میں کسی کو دکھائے بغیر ویسی ہی واپس لے آیا۔ ظاہر ہے کہ خزانچی نے صورت سے مجھے لائق اعتماد سمجھا۔ میرے چچا سلطان علی نون بھی مسٹرلائیڈ کے بورڈنگ میں رہتے تھے۔ گرمی کے موسم میں اتوار کی ٹینس پارٹی کے لئے وہ، ایلین اور میں تینوں مل کر ٹینس کے ہرے بھرے میدان میں گھاس کاٹنے کی مشین چلاتے اور رولر پھیرتے لیکن بدقسمتی سے اتوار کو عام طور پر بارش ہوجاتی اور ہماری محنت رائیگاں جاتی۔ بارش نہ ہوتی تو ٹینس کی گیند اچھل کر آس پاس کھڈوں میں گر پڑتی جن میں بارش کا پانی بھرا ہوتا تھا۔
میرے ٹکنال ویکاریج پہنچنے کے چند روز بعد رات کے کھانے پر چیری کے میٹھے سموسے رکھے گئے۔ یہ سموسے پیسٹری پر رکھ کر کھاتے ہیں۔ پیسٹری سخت تھی، اسے چمچے سے دبانے کی کوشش کی جاتی تو وہ پلیٹ سے پھسل کر دور جاگرتی۔ اس لئے میں نے چھری استعمال کی لیکن مجھے بتایا گیا کہ اسے کاٹنے سے کھایا جاتا ہے۔ لڑکیوں نے میری اس غلطی کو یاد رکھا اور جب 1913ء میں میرے والد مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو انہوں نے وہی جال ان کے لئے بچھایا اور وہ اس میں پھنس گئے۔ ہم نے اپنے گھروں میں چھری اور کانٹے کبھی استعمال نہیں کئے تھے چنانچہ یورپ والوں کے آداب سیکھنے میں بڑی دشواری رہی۔ میرے اتالیق نے بتایا کہ آکسفورڈ کے ایک کالج نے ایک امیدوار کو کھانے پر مدعو کیا اور وہاں یہی چیری کی پڈنگ پیش کی گئی۔ بیچارے نوجوان کی سمجھ میں نہ آیا تھا کہ چیری کی گٹھلیوں کا کیا کرے۔ وہ انہیں نگلتا گیا لیکن میں نے بہرحال عقلمندی کا ثبوت دیا تھا۔ میں انتظارکرتا رہا کہ دیکھیں گھر کے دوسرے لوگ گٹھلیوں کا کیا کرتے ہیں لیکن جہاں تک پیسٹری کا تعلق ہے انہوں نے تاخیر سے کام لیا تھا تاکہ پہل مجھ ہی کو کرنی پڑے۔
چونکہ ہم چچا بھتیجے مرغن غذاؤں کے عادی تھے جو بوجھل اور دیر ہضم ہوتی ہیں۔ اس لئے پہلے پہل ہلکا پھلکا انگریزی کھانا کھانے کے بعد ہمیں بھوک لگتی تھی۔ ہم گھر سے یہ بہانہ کرکے نکلتے تھے کہ بلیئرڈ کھیلنے پوسٹ آفس جارہے ہیں لیکن درحقیقت ہمارا مقصد چاکلیٹ اور بسکٹ کھانا ہوتا تھا۔ جو ڈاکخانہ کی پوسٹ مسٹرس بیچتی تھی۔ ان کے یہاں ایک بلیئرڈ ٹیبل بھی کرایہ پر چلتا تھا اور اسی کا عذر کرکے ہم وہاں جاتے تھے۔ بہت سے ہندوستانی طلبہ قبض میں مبتلا رہنے لگے تھے اور یہ میرے خیال میں غذا کی تبدیلی کی وجہ سے تھا۔(جاری ہے )

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 23 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں