گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 27

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ ...
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 27

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نواب سعد اللہ خاں سرگودھا میں سینئر جج تھے۔ ہم دونوں رزانہ علی الصبح عدالت سے پہلے گھوڑوں پر سوار ہوکر سیر کے لئے نکلتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا ’’آؤ ذرا ریلوے سٹیشن چلتے ہیں۔ سی پی کے شہر ناگپور سے سنگتروں کا پارسل آنے والا ہے‘‘ ہم نے اپنے گھوڑوں کو قلیوں کے حوالے کیا اور پلیٹ فارم پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک جگہ بہت سی ٹوکریاں دھری ہوئی ہیں ا ور ایک قلی ان پر جھکا ہوا ایک ٹوکری میں سے کچھ نکال رہا ہے۔ نواب سعد اللہ خان نے اسے پکڑلیا اور کہا ’’کچھ سنگترے میرے لئے بھی چھوڑ دو۔‘‘ اب اسے اتفاق سمجھئے کہ وہ ٹوکری انہی کی تھی۔ ہماری ریلوں میں چوری کی وبا شرمناک حد تک پھیلی ہوئی ہے اور قانون ایسا ہے کہ انصاف کے حصول میں خاصی تاخیر ہوتی ہے۔

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 26 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

مقدمے ملتوی ہوتے رہتے ہیں۔ تلے اوپر ان کے انبار لگ جاتے ہیں اور برسوں تصفیہ کی نوبت نہیں آتی۔ ایک دن کا ذکر ہے۔ نواب سعد اللہ بیمار تھے اور میں ان کے پاس بیٹھا تھا۔ شام کے جھٹپٹے میں کوئی وکیل عقبی دروازہ سے اندر داخل ہوا حالانکہ اسے سامنے کے دروازہ سے آنا چاہیے تھا۔ وہ تھوڑی دیر بیٹھا۔ حقہ کا ایک کش لیا اور کچھ کہے بغیر اٹھ کر چلا گیا۔ نواب سعد اللہ نے کہا ’’مجھے شک ہے کہ ضرور کوئی شرارت کی بات ہوئی ہے۔‘‘
دوسرے دن چند ملزم جن کی پیروی وہی وکیل کررہا تھا۔ فیصلہ سننے کے لئے عدالت میں پیش ہوئے۔ نواب سعد اللہ عام حالات میں انہیں جتنی سزا دیتے انہوں نے اس سے دگنی سزا دی۔ ملزموں کے منہ لٹک گئے۔ جیسے کہہ رہے ہوں ’’تم نے پیسے بھی کھالئے اور اب جیل بھی بھیج رہے ہو!‘‘
نواب سعداللہ کو یقین تھا کہ وکیل نے ملزموں سے جج کے نام پر رشوت لی ہے۔ ملزم ا پنے وکیل کے ساتھ جواب سعد اللہ کے مکان تک یہ اطمینان کرنے کے لئے آیا ہوگا کہ وکیل انہیں دھوکہ نہیں دے ر ہا ہے۔ وکیل زائد رقم بٹورنے کے لئے عام طور پر اس طرح کی حرکتیں نہیں کرتے، لیکن اس واقعہ سے بڑی بدنامی ہوئی۔
1918ء کے اواخر تک جنگ بند ہوگئی۔ اس کے بعد امرتسر کے مشہور فسادات ہوئے۔ جنرل ڈائر نے اندھا دھند گولی چلا کر بے شمار لوگ ماردئیے۔ اس پر انگلیڈ سے ہنٹر کمیشن فائرنگ کی تحقیقات کے لئے بھیجا گیا۔ اس طرح کے کمیشن عوام کی توجہ تشویش و اضطراب سے ہٹانے میں بہت مفید ثابت ہوتے تھے اور فسادات اور فائرنگ کے بعد پورے ملک میں یہی فضا موجود تھی۔ لاہور ہائیکورٹ کی عمارت میں مدتوں تحقیقات ہوتی رہی۔ دو انگریز نرسیں جنہوں نے امرتسر کے شہریوں کی ایک عرصہ تک خدمت کی تھی۔ ہجوم کے ہاتھوں جس پر انتقام کا خون سوار تھا، ہلاک ہوگئی تھیں۔ انگریز سول افسر نے وقوعہ کے بعد سزا کے طور پر مشہور ’’کرالنگ آرڈر‘‘ جاری کیا تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ ہر ہندوستانی اس گلی سے، جہاں نرسیں قتل ہوئیں، گزرتے وقت چاروں ہاتھ پیروں کے بل چل کر جائے گا۔ یہ حکم کئی دن تک نافذ رہا۔ جنگ میں پنجاب کا تعاون، ہندوستان کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں غیر معمولی تھا۔ لوگ رضاکارانہ طور پر فوج میں بھرتی ہورہے تھے کیونکہ شمال مغربی ہند کے بعض علاقوں میں لوگوں نے سپاہ گری کو آبائی پیشے کے طور پر اختیار کررکھا تھا۔ ( اس کے علاوہ وہ اور کربھی کیا سکتے تھے۔ ضلع جہلم کے باشندوں کو فوجی پنشن کی صورت میں لاکھوں روپے سالانہ ملتے ہیں۔ فوجی بھرتی زیادہ تر انہی علاقوں سے ہوتی تھی۔ یہاں کھیتی باڑی کے لئے نہ تو نہریں ہیں اور نہ کنوئیں۔ زراعت کا انحصار لے دے کر بارش پر ہے جو چند انچ سالار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اس لئے یہاں کے لوگ بہت غریب ہیں۔)
یہ ہندوستانی فوج ہی تھی۔ جس نے 1914ء میں فرانس میں جرمنوں کی پہلی پشی قدمی کا مقابلہ کیا اور اس مہم میں اپنے چالیس ہزار آدمی گنوادئیے، ان میں کچھ زخمی اور باقی ہلاک ہوئے۔ پنجاب میں فسادات اور سنگین صورتحال کے بعد 1919ء کے مانٹیگو چمسیفورڈ اصلاحات کا دور آیا۔ جس کے تحت صوبوں میں اور مرکز میں منتخبہ قانون ساز اسمبلیاں قائم ہوئیں۔ ان کے ارکان کی 25 فیصد تعداد حکومت کی نامزد کردہ تھی۔ اگرچہ بالغ رائے دہی کا اصول نافذ نہ تھا، تاہم ووٹروں کے لئے بعض شرائط کی پابندی لازمی تھی۔ نومبر 1920ء میں مَیں نے بھی اس انتخاب میں حصہ لیا اور کامیاب ہوا۔ میرے حلقہ انتخاب میں 50 ہزار ووٹر تھے۔ منتخب ہونے کے بعد میں نے لاہور جاکر ہائیکورٹ میں پریکٹس شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
سرگودھا میں اپنی پریکٹس کے پہلے سال میں مَیں نے ساڑھے سات سو روپیہ آمدنی پر انکم ٹیکس ادا کیا تھا اور اس میں تعطیلات کا عرصہ بھی شامل ہے۔ ایک نوجوان وکیل کے لئے یہ آمدنی خاصی اطمینان بخش تھی۔ مزید برآں والد بھی مجھے کچھ رقم دیتے تھے۔ مکان کے علاوہ گھوڑا اور گائے بھی مفت تھی۔ اسی طرح گھوڑے کا دانہ اور میرے ملازموں کے لئے گندم بھی مفت مل جاتی تھی۔ سرگودھا میں مَیں نے تین سال بڑے مزے میں گزارے۔ اپنا گھر تھا، سواری کے اپنے گھوڑے تھے اور صبح کی سیر کا کسی دن ناغہ نہ ہوتا تھا۔ بڑے ملک صاحبان مجھے حقارت سے دیکھتے تھے، کیونکہ مجھ سے پہلے کسی ملک نے قانون کا پیشہ اختیار نہیں کیا تھا۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ اس طرح آدمی کو تھوڑے سے پیسوں کے لئے چھوٹے چھوٹے افسروں کے سامنے پیش ہونا اور تمام وقت عدالت میں ’’جی جناب!‘‘ کہنا پڑتا ہے۔ وہ لوگ ناواقف تھے۔ قانون کے وقار اور اقتدار کا انہیں اندازہ نہ تھا۔ بعد میں جب انہوں نے مجھے کامیاب زندگی بسر کرتے دیکھا تو پھر انہوں نے بھی میری پیروی کی اور میرے لئے ہمہ تن تعریف و توصیف بن گئے۔ کامیابی سے زیادہ کوئی چیز کامیاب نہیں۔ وہی لوگ جو شروع میں مجھے ناپسند کرتے تھے، اب میرے ساتھ رشتہ داری یا گہری دوستی جتانے میں فخر محسوس کرنے لگے۔ ایک بار ایک ملک صاحب نے جو ہمارے ضلع میں آنریری مجسٹریٹ تھے، محسوس کیا کہ وکیل ایک ایسے ملزم کا دفاع کررہا ہے جس کے بدمعاش ہونے میں شبہ نہیں، اس پر وہ کہنے لگے ’’تم وکیلوں کی مثال رنڈیوں کی سی ہے تم اسی کے ہو جو تمہیں پیسہ دے۔‘‘ اس بات کی شکایت ڈپٹی کمشنر سے کی گئی اور ملک صاحب کو معافی مانگنی پڑی ورنہ وہ مجسٹریٹ کے سارے اختیار کھو بیٹھتے۔
سرگودھا میں 1918ء میں بار ایسوسی ایشن کے ارکان کی تعداد صرف 35 تھی۔ اب تو 150 یا اس سے کچھ زیادہ ہوگی۔ بار روم کی لائبریری معمولی سی تھی لیکن گھر پر نجی لائبریری کے لئے مجھے جس قدر کتابیں خریدنے کی ضرورت ہوئی ان کے لئے والد صاحب نے بے تکلف رقم دے دی۔ ساڑھے سات ہزار روپے اس مقصد کے لئے کافی تھے۔ چنانچہ مجھے دوسرے وکلاء کے مقابلہ میں ایک طرح کی برتری حاصل تھی۔ میرے ا یک ساتھی وکیل کے پاس میز پر صرف ایک ویسٹبرڈ کشنری اور ایک ڈائری پڑی ہوتی تھی اور ان کا کلرک مؤکلوں سے کہتا تھا کہ اگر اس سے بھی بڑی کتاب سے قانون چاہتے ہو تو زائد پیسہ خرچ کرنا پڑے گا۔
رلیا ارام ایڈووکیٹ نے ایک دن ہمیں بتایا کہ انڈین سول سروس کا ایک انگریز افسر مجسٹریٹ مقرر ہوا اور پہلا مقدمہ اس کی عدالت میں ایک اونٹ کی چوری کا پیش کیا گیا۔ رلیارام ملزم کی طرف سے پیروی کررہے تھے۔ انہوں نے نوجوان انگریز سے کہا کہ ذرا عدالت سے باہر تشریف لے چلیں اور خود ہی دیکھ لیں کہ بیچارہ معمولی سا آدمی، اونٹ جیسے ڈیل ڈول کے جانور کو کس طرح چوری کرسکتا ہے۔ا گر گھڑی یا زیور کی بات ہوتی تو معاملہ کی نوعیت مختلف تھی۔ انگریز افسر نے اونٹ کو دیکھا فوراً عدالت میں آیا اور مزید جرح بحث کے بغیر ملزم کی بریت کا فیصلہ لکھ دیا۔ ایک دن مجھے ایک سول مقدمہ میں بار ایسوسی ا یشن کے صدر رائے بہادر برج لال کے خلاف پیش ہونا پڑا۔ میں نے اپنے د وست شانتی نارائن سے مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ انہوں نے پوچھا ’’آپ نے مقدمہ کی تیاری اچھی طرح کرلی ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’ہاں، خوب اچھی طرح‘‘ انہوں نے کہا ’’پھر آپ عدالت میں اس احساس کے ساتھ پیش ہوں کہ مخالف وکیل بھی اتنا ہی بڑا احمق ہے، جتنے بڑے احمق خود آپ ہیں‘‘ اس بات سے میرے ا ندر خود اعتمادی پیدا ہوئی اور میں نے مقدمہ جیت لیا۔
برج لال کی آواز گرج دار تھی۔ وہ دوسرے وکیلوں کی جرح میں مداخلت کرنے کے عادی تھے اور اپنی بھاری بھرکم آواز سے ان پر حاوی ہوجاتے تھے۔ ان کے موکل سوچتے تھے کہ وکیل بڑا شاندار ہے۔ انہوں نے وکالت کا آغاز 1880ء میں کیا تھا اور 1920ء میں بھی وہ اتنے ہی توانا و تندرست تھے۔ میرا خیال ہے کہ قیام پاکستان کے بعد وہ دہلی میں سو سال کی عمر تک زندہ رہے۔ ایک دن وکیل قریشی علی مردان نے اپنے احباب سے بہت سی لشتم پشتم کتابیں عاریتاً مانگیں اور دو آدمیوں کے سروں پر لدوا کر عدالت میں پیش ہوئے۔
مجسٹریٹ نے سوال کیا کہ یہ ا تنی ڈھیر ساری کتابیں کس لئے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا ’’جس لئے رائے بہادر برج لال اپنی کتابیں عدالت میں لاتے ہیں، یعنی مؤکلوں کو مرعوب کرنے کے لئے‘‘ سول مقدموں کے ایک بہت اھم وکیل بھاگو رام تھے، ایک اور وکیل ملک وزیر چند تھے جو بالکل غائب دماغ تھے۔ ایک دن ہم لوگ بار روم کے برآمدے میں بیٹھے دھوپ سینک رہے تھے اور سامنے عدالت کے کمرے سے وزیر چند کے نام کی پکار سنائی دے رہی تھی۔ یہ آواز انہوں نے بھی سنی اور زیر لب کئی بار ’’وزیر چند، وزیر چند‘‘ کہا لیکن کرسی پر بیٹھے رہے اور اپنی دائیں ٹانگ بائیں ٹانگ پر رکھے لاتے رہے۔ پھر اچانک کرسی سے اچھل پڑے اور بولے ’’ہائے! میرا مقدمہ‘‘ لیکن وہ جب تک عدالت پہنچتے، مقدمہ خارج کیا جاچکا تھا۔ (جاری ہے)

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 28 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں