گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔ چھٹی قسط
جب انگریزوں کا زمانہ تھا تو اکثر گھرانوں میں رواجی قانون کا سکّہ چلتا تھا۔ جو لوگ ہندو سے مسلمان ہوئے تھے وہ ہندوؤں کے رواجی قانون پر کاربند تھے جس کے تحت زمین کی وراثت صرف بیٹیوں میں تقسیم ہوتی ہے لیکن ہدوستان کی تقسیم کے بعد وراثت کا اسلامی قانون نافذ کردیا گیا اور اب بیٹیاں بھی اپنا حصہ حاصل کرتی ہیں، جو بیٹے کے مقابلہ میں نصف کے برابر ہوتا ہے۔ یہ اصول قرآن پاک میں درج ہے اور گزشتہ 13 سو برس سے اس کا وجود برقرار ہے۔ سچ پوچھیے تو پہلے بھی اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ بیٹی اگر کسی قطعہ زمین کا ملکیتی حق لے کر اپنے شوہر کے گھر نہیں جاتی تھی تو اس کے بھائیوں کی بیویاں بھی کوئی زمین لے کر نہیں آتی تھیں۔ اس طرح زمین چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہونے سے بچ جاتی تھیں۔
نور پور نون میں ایک مسجد تھی۔ قاضی محمد صدیق اس مسجد کے امام تھے۔ عربی زبان میں قاضی کے معنی ہیں ،منصف یا جج۔ قاضی محدم صدیق کے خاندان میں یہ خطاب کئی نسلوں سے چلا آرہا تھا۔ غالباً ان کے اجداد میں کوئی بہت بڑے عالم فاضل بزرگ گزرے ہوں گے جن کے پاس لوگ اپنے مسائل لے کر آتے ہوں گے اور وہ ان مسائل پر فتویٰ صادر کرتے ہوں گے۔ قاضی محمد صدیق نوعمری میں ہی نر پور نون آگئے تھے۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔ پانچویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
رواج کے مطابق میرے والد کی تعلیم کا آغاز مسجد میں ہی ہوا تھا، جہاں انہوں نے قاضی صاحب سے قرآن مجید کا پہلا سبق پڑھا۔ جب میری عمر اتنی ہوئی کہ میں زانوے تلمذتہ کروں تو قاضی صاحب اس وقت تک بوڑھے ہوچکے تھے اور ان کی سرخ داڑھی تھی۔ قاضی صاحب اپنی داڑھی کو خاصے رنگتے تھے۔ حنا یا مہندی کا پودا جھاڑی کی طرح ہوتا ہے اور بڑی تیزی سے اُگتا ہے۔ یہ پودا ہمارے گاؤں میں بھی ہوتا ہے لیکن چونکہ اس کی قیمت بدلتی رہتی ہے اور یہ چالیس روپیہ من سے 10 روپیہ من تک فروخت ہونے لگتا ہے۔ا س لئے ہم لوگ اسے اگانے میں اب تامل کرتے ہیں۔ حنا کے پودے کی شاخیں کاٹ کو دھوپ میں ڈال دی جاتی ہیں اور سوکھی ہوئی پتیوں کو بعد میں پیس کر ان کا سفوف بنالیا جاتا ہے۔ اسی سفوف کو بعد میں گوندھ کی داڑھی پر تھوپ لیتے ہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر یہی حنا دلہن کی ہتھیلیوں، انگلیوں اور پاؤں پر خاص طور پر پاؤں کے تلوؤں میں رچائی جاتی ہے جو انہیں حسین اور گلنار بنادیتی ہے۔
قاضی صاحب بڑے پرہیز گار بزرگ تھے۔ انہوں نے تقریباً 90 سال کی عمر پائی۔ گاؤں کے لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے اور نماز کی امامت ہمیشہ وہی کرتے۔ ان کی وفات کے بعد جیسا کہ عام دستور ہے، ان کے بیٹے قاضی محمد شفیق اللہ امام مقرر ہوئے۔ وہ فوج کے گھڑ سوار دستے میں ایک معمولی ملازم کی حیثیت سے کام کرچکے تھے۔ جس کے عوض انہیں تھوڑی سی پنشن ملتی تھی۔ دینی رہنما یا امام کی روحانی طاقت اور اس کے کمالات کے بارے میں عام لوگ طرح طرح کے توہمات میں مبتلا ہوتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن کسی شخص کو چار پائی پر ڈال کر قاضی محمد صدیق کے پاس لایا گیا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اسے پاگل کتے نے کاٹ لیا ہے۔ قاضی صاحب نے اس شخص کے رشتہ داروں کو ہدایت کی کہ تھوڑا سا آٹا لے کر گوندھو۔ اس آٹے میں سے اگر کتے کا بال نکلے اور وہ اسی رنگ کا ہو جو اس کتے کا ہے جس نے کاٹا تھا تو یقین کرلو کہ مریض اچھا ہوجائے گا، ہم یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ آٹے میں سے سچ مچ ایک سفید بال نکل آیا۔ ہمارے یہاں عام لوگ فطری طور پر پاگل کتوں سے ڈرتے ہیں اور چونکہ 90 فیصد حالات میں کاٹنے والے کتے پاگل نہیں ہوتے، اس لئے ہمارے امام صاحب نے شفایابی کے بارے میں جو پیش گوئی کی تھی، اس کے درست ثابت ہونے کا امکان زیادہ تھا۔ اگرچہ پاگل کتوں کے کاٹے کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں عام ہونے لگا ہے لیکن بہت سے لوگ ابھی بھی پیروں اور بزرگوں کے دست شفا پر بھروسہ کرتے ہیں۔ قاضی صاحب تعویذ بھی دیتے تھے۔ وہ کلام پاک کے چند الفاظ کاغذ کے ایک پروزے پر لکھد یتے اور لوگ انہیں لے جاکر مریض کے بازو پر باندھ دیتے۔ جب بھی مویشیوں میں طاعون یا کوئی اور وبا پھیلتی تو کسان قاضی صاحب کے پاس آتے اور وہ انہیں کلام کلام پاک کا ایک نسخہ دے دیتے۔ کسان یہ نسخہ گاؤں کی کسی گلی میں آویزاں کردیتے اور مویشیوں کو اس کے نیچے سے گزارا جاتا تھا۔ اب بھی اسی طرح کیا جاتا ہے اور عقیدہ یہ ہے کہ مویشی اس طرح دباؤ سے محفوظ رہتے ہیں۔
ایک سال بارش نہیں ہوئی تو مسجد کے امام نے ایک دن صبح کو سورج نکلنے کے بعد ڈھول پٹوا کر گاؤں والوں کو جمع کیا اور تمام لوگوں نے گاؤں سے باہر جاکر نماز استسقاء پڑھی اور بارش کے لئے دعا مانگی۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ضلع کانگڑا کی کلووادی میں، جو اب ہندوستان کا حصہ ہے، ہندو کاشت کار اس وہم میں مبتلا تھے کہ سارے برہمنوں کو اکٹھا کرکے تمام دن انہیں دھوپ میں کھڑا رکھو گے تو بارش ضرور ہوگی لیکن اس مرتبہ لوگوں نے یہ بھی کردیکھا اور بارش نہیں ہوئی۔ بے چارے برہمنوں کو دوسرے دن بھی سرجوڑ کر دھوپ میں کھڑا رہنا پڑا۔ بارش اس کے باوجود نہیں ہوئی۔
ہمارے گاؤں میں اب دو مسجدیں ہیں، کیونکہ عموماً نمازیوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ مسجد ان کے گھر سے زیادہ قریب ہو۔ بعض وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسانوں میں باہم اختلاف ہوجاتا ہے یا کسانوں کا ایک گروہ مسجد کے پیش امام کو پسند نہیں کرتا۔ اس لئے یہ لوگ اپنی الگ مسجد بنالیتے ہیں اور اس میں پیش امام بھی اپنی مرضی کا رکھتے ہیں۔ قاضی صاحب کی اصل مصروفیت قرآن مجید کا درس دینا اور نمازیوں کی امامت کرنا تھا۔ میں اور گاؤں کے دوسرے ہم عمر بچے مسجد کے فرش پر قطار بنا کر بیٹھ جاتے اور آگے پیچھے جھوم جھوم کر بلند آواز سے سبق یاد کرتے تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ میں اپنا سبق اونچی آواز سے نہیں دہرارہا تھا۔ اس پر قاضی صاحب نے میری پشت پر ایک قمچی رسید کی۔ یہ قمچی ویسے تو پتلی سی تھی لیکن اس سے چوٹ بڑے زور سے لگتی تھی۔ بدقسمتی سے چوٹ بھی وہیں لگی، جہاں پہلے ہی ایک پھوڑا نکلا ہوا تھا۔ قمچی کا لگنا تھا کہ پھوڑا پھوٹ نکلا اور خون تیزے سے بہنے لگا۔ قاضی صاحب کو میری حالت دیکھ کر صدمہ ہوا اور انہوں نے مجھے والدہ کے پاس پہنچادیا۔ مگر وہ مطلق خفا نہیں ہوئیں کیونکہ اسلامی روایات کے مطابق خدا، رسول ﷺ اور والدین کے بعد جن لوگون کا حترام واجب ہے ان میں استاد کا درجہ سرفہرست ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک سرکردہ کاشت کار کی وفات کے بعد اس کے اعزہ نے قاضی صاحب سے مطالبہ کیا کہ تدفین سے پہلے میت کو غسل آپ ہی دیں لیکن قاضی صاحب نے انکار کردیا کیونکہ اسلامی قانون کی رو سے ان کی رائے میں ایسا شخص مسجد میں امامت کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا۔
مختصر یہ کہ ہمارے بزرگ نہایت درجہ اصول پرست تھے اور جس بات کو غلط سمجھتے تھے اسے کرنے کے ہرگز روادار نہ ہوتے۔ ہمارے گاؤں میں جتنی شادیاں ہوئیں، ان سب کے نکاح بھی قاضی صاحب ہی نے پڑھائے۔ اس کے علاوہ آس پاس کے دیہات سے بہت لوگ، شادی، تولیت اور جائیداد کے تنازعوں کا تصفیہ کرانے کے لئے ان کے پاس آتے تھے اور وہ جو فتویٰ دیتے اسے بے چون و چرا قبول کرلیتے تھے ۔ کس کی مجال تھی کہ تصفیہ کے لئے عدالتوں کو رخ کرتا۔ ( اب شادی کے رجسٹر رکھے جاتے ہیں اور کوئی شخص پہلی بیوی یا مقامی یونین کونسل کی اجازت کے بغیر دوسری شادی نہیں کرسکتا۔ یونین کونسل کے ارکان کا انتخاب ہر 10 ہزار کی آبادی میں سے ہوتا ہے۔ عائلی اصلاحات کا قانون 1923ء)
ہماری مساجد میں جمعہ یا اتوار کو چندہ جمع کرنے کا دستور نہیں۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ مسجد کی مرمت کے لئے جب بھی رقم کی ضرورت ہوتی ہے، آسودہ حال لوگ دل کھول کردیتے ہیں۔ ( چندوں اور دولتمند مسلمانوں کے عطیات سے نئی مساجد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ شمال مغربی صوبہ میں ایک سرکاری ملازم نے سرکاری خزانہ سے ایک لاکھ 50 ہزار روپیہ کا غبن کیا اور 80 ہزار روپے سے ایک نئی مسجد تعمیر کرائی۔ وہ پکڑا گیا اور سزا ہوئی۔ اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے فوجداری مقدمہ سے بچا کر اس کے کار خیر کا اجر نہیں دیا۔)دیہات میں آج بھی ایک فرد کی ماہانہ آمدنی اوسطاً 10 روپیہ سے زیادہ نہیں ہوگی، اور اس اوسط میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ اس بارے میں سرکاری یا مصدقہ اعدادوشمار موجود نہیں تاہم ہمارے ملک میں شہروں اور صنعتی علاقوں کو شامل کرنے کے بعد بھی فی کس ماہانہ آمدنی 20روپے ماہوار ہوگی۔(جاری ہے)