گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔ آٹھویں قسط
انگریزوں نے 1875ء میں لوکل باڈی کے انتخابات کے بعد ہندوستان باشندوں کو وائسرائے کی کونسل اور گورنروں کی کونسل کے لئے نامزد کرنا شروع کیا۔ اس طرح انہوں نے ملک کو جمہوریت کے راستے میں کچھ دور اور آگے بڑھنے کا موقع دیا۔ اس مقصد کے لئے 1910ء میں مارلے منٹو اصلاحات نافذ ہوئیں لیکن تیز رفتار ترقی کا دور اس وقت آیا جب 1920ء میں قانون ساز اسمبلیاں قائم ہوئیں جن میں 75 فیصد منتخب ارکان اور وزیر شامل ہوتے تھے۔ اس کو میں تیسرا قدم قراردوں گا۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ہندوستانی مہاراجے اس طرح حکومت کررہے تھے گویا یہ ملک ابھی زمنہ وسطیٰ ہی میں ہے۔ جب پنجاب میں 1920ء میں منتخب نمائندوں کی ایک مجلس قانون ساز قائم ہوئی، تو سرفضل حسین کو حکمران پارٹی کا لیڈر چناگیا۔ انہوں نے ہر 10 مربع میل پر ایک دیہی شفاخانہ کھولا، یہ شفاخانے عوام کے لئے بہت بڑی نعمت ثابت ہوئے کیونکہ مریضوں کو مفت دوا مہیا کی جاتی تھی۔ ان شفاخانوں کے نگران ڈاکٹر گریجویٹ تو نہیں البتہ لائنس یافتہ ضرور ہوتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد حکومت نے فیصلہ کیا کہ صرف گریجویٹ ڈاکٹر ہونے چاہئیں چنانچہ ابتدائی طبی تربیت کے سکول بند کردئیے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیہی شفاخانوں کے لئے ڈاکٹروں کی مطلوبہ تعداد مہیا نہ ہوسکی اور بالآخر ان کی دیکھ بھال کمپونڈر کرنے لگے لیکن 1953ء میں جب مَیں نے چیف منسٹر کا عہدہ سنبھالا تو ان تمام سکولوں کو بحال کردیا۔
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔ ساتویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
گریجویٹ ڈاکٹر دیہاتی زندگی کو ناپسند کرتے ہیں اور شہروں میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہاں بہت سی سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر شہروں میں ان کے بچوں کے لئے سکول ہوتے ہیں، بجلی اور پختہ سڑکیں ہوتی ہیں۔ 1927-1936ء کے دوران میں جب مَیں میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کا وزیر تھا تو مجھ پر حکیموں کے حامیوں کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا کہ میں انہیں تسلیم کرلوں اور امداد بھی دوں لیکن اس کے ساتھ ہی ایک دوسرا گروہ موجود تھا جو ان ’’غیر مستند عطائیوں‘‘ کا دھندا بند کرانا چاہتا تھا۔ بعض حکیم اعلیٰ درجہ کے معالج ہوتے ہیں اور وہ ان دنوں بھی جدید طریقوں کی پیروی کرتے تھے۔ْ میرے زمانہ میں محکمہ صحت کے سیکرٹری انڈین سول سروس کے ایک رکن مسٹر بینر لے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے حکیموں کو علاج معالجہ کرنے اور لوگوں کو دوا دینے سے روکا تو لامحالہ ایک ماں کا اپنے بیمار بچے کو دوا کی ایک گولی دینا بھی غیر قانونی فعل قرار پائے گا۔ حکیموں نے اپنی ایک انجمن بنالی اور اخبارات میں احتجاجی مہم کا آغاز کردیا۔ اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ ان کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ لہٰذا حکیموں کے حامیوں کو خوش کرنے کی خاطر میں نے لاہور کے یونانی سکول اور دلی کے یونانی سکول کے لئے قانون ساز اسمبلی سے چار چار ہزار روپے سالانہ کی منظوری حاصل کی۔ دلی کا سکول حکیم اجمل خان کی سرپرستی میں چل رہا تھا۔ اجمل خان کا خاندان شاہان مغلیہ کے ز مانے سے معروف چلا آتا ہے۔ اس خاندان کے ا طبا کی شہرت سارے ہندوستان میں تھی اور والیان ریاست چند مخصوص امراض کے علاج کے لئے انہیں منہ مانگے معاوضوں پر بلاتے تھے۔ دلی کے یونانی سکول کا میں نے خود بھی معائنہ کیا تھا۔ کمرہ جماعت میں داخل ہوتے ہی میں نے مدرس سے کہا کہ آپ کتاب کے جس صفحے سے سبق پڑھارہے ہیں وہاں کیا لکھا ہے؟ انہوں نے کہا یہاں لکھا ہے کہ انسانی جسم میں نظام خون کا آغاز فم معدہ سے ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اگر ایسا ہے تو پھر دل کا کام کیا ہوا؟ انہوں نے کہا ’’جی، دوران خون کا آغاز فم معدہ ہی ہوتا ہے۔‘‘
اجمل خاں کا خاندان کشتوں کے لئے بہت مشہور تھا۔ یہ اس نوع کی دوسری ادویہ کے نسخے ان کے خاندان سے مخصوص تھے اور سینہ بہ سینہ باپ سے بیٹے کو منتقل ہوتے آئے تھے۔ اگر کسی مشہور حکیم کے یہاں کوئی فرزند نہ ہوتا تو کسی نسخہ کا اہم راز حکیم کی موت کے ساتھ ہی ہمیشہ کیلئے دفن ہوجاتا تھا۔ کشتے تو اب بھی دیہات میں بہت سے حکیم تیار کرلیتے ہیں اور یہ جلے ہوئے سونے، چاندی، فولاد اور دوسری دھاتوں سے بنائے جاتے ہیں۔ ان دھاتوں کی ایک نہایت معمولی مقدار کو مٹی کی ہانڈی میں، جس کا دہانہ تقریباً 5 انچ ہوتا ہے رکھ کر اوپر سے ڈھکن گیلی مٹی سے بند کردیا جاتا ہے۔ پھر یہ ہانڈی اوپلوں کی آگ کے اندر دبادی جاتی ہے اور ہلکی ہلکی آنچ میں کم و بیش ہفتہ بھر تک رکھی رہتی ہے۔ جب اسے باہر نکالتے ہیں تو وہ ٹوٹ چکی ہوتی ہے اور دھات جل کر بالکل راکھ بن جاتی ہے۔ یہی راکھ لوگوں کو ہر صبح سوئی کے ناکے کے برابر مکھن کے اندر ڈال کر کھانے کو دی جاتی ہے۔
پنجاب کی قانون ساز اسمبلی میں میرا ایک دوست تھا۔ نہایت قوی الجثہ، لیکن چلنے پھرنے سے تقریباً معذور۔ ایک دن ہم دونوں بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ میں نے اس کی جسمانی کوتاہی کے بارے میں پوچھ لیا۔ اس نے کہا کہ میرے گھر میں اولاد نہیں ہوتی تھی۔ چند سال قبل کی بات ہے کہ میں نے ایک سنیاسی سے مشورہ کیا۔ اس نے مجھے ایک کشتہ کھانے کے لئے دیا۔ بس کھانے کی دیر تھی کہ گھٹنے اکڑ گئے اور ان میں درد شروع ہوگیا۔ اس درد کا کوئی درماں نہ تھا۔ آخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ حکیم نے دھات کو پوری طرح نہیں مارا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گھٹنوں کے جوڑوں میں جم گئی ہے۔
ابھی پچھلے دنوں میں اپنے گاؤں نور پور نون گیا تھا۔ وہاں ایک حکیم حیات علی ہیں۔ وہ میرے بیٹے کے اردلی کے بڑے بھائی ہیں اور خود بھی چند برس پہلے گھروں میں نوکری کرتے تھے۔ گاؤں کے بیشتر لوگ بخار میں مبتلا رہتے ہیں اور یہ عموماً ملیریا کا بخار ہوتا ہے۔ ایک دن ان حکیم صاحب کے دماغ میں ایک نادر خیال آیا۔ انہوں نے ہوورڈ کی کونین کی گولیاں خریدیں۔ انہیں خوب باریک پیسا اور شیشوں میں بھر کے رکھ لیا۔ بہت سے لوگ اس سفوف سے شفایاب ہوئے اور حکیم صاحب کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی۔ آج کل ان کی پریکٹس خوب چل رہی ہے۔ وہ پیٹنٹ ادویہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ جیسے ایسپرو کی گولیاں جو ہمارے دیہات میں جادو اثر سمجھی جاتی ہیں اور ہر جگہ آسانی سے مل جاتی ہیں۔ ایک لحاظ سے یہ حکیم عوام کی خدمت کرتے ہیں اور مستقبل قریب میں ان کا ختم کرنا ممکن نہ ہوگا۔ پہلی بات تو یہ کہ اس قسم کے حکیم اپنے مریضوں کو اور کچھ نہیں تو اعتماد ضرور عطا کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ان سے معاملہ بہت سستا پڑتا ہے اور جہاں سرے سے کوئی ڈاکٹر نہیں ملتا، وہاں یہ حکیم مل جاتے ہیں۔ 1958ء میں جب مارشل لاء نافذ ہوا تو حکیموں کو ٹیکے لگانے سے روک دیا گیا۔ یہ ایک درست اقدام ہے کیونکہ بعض حالات میں جب کہ مناسب دوا دستیاب نہیں ہوتی۔ غلط ٹیکہ لگانے یا موزوں احتیاط کے غیر ناصاف پانی سے ٹیکہ لگانے کے باعث اموات بھی ہوچکی ہیں۔
1907ء کا ذکر ہے کہ میں اپنے چچا زاد بھائی کے گاؤں کوٹ حاکم خاں جارہا تھا۔ ان دنوں ملک میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ راستے میں مَیں نے گاؤں کے عطار کو دیکھا کہ وہ مٹی کے تیل کے ٹین میں سرس کی پتیاں ابال رہا ہے۔ میں نے پوچھا ’’رام چند! یہ کیا کررہے ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’ لوگ مجھ سے طاعون کا علاج پوچھتے ہیں اور چونکہ میرے پاس ایسی کوئی دوا نہیں جو طاعون کے مریضوں کو دوں۔ اس لئے اور کچھ نہیں تو اسی پتی کاجوشاندہ بیچوں گا، جو کارگر نہ سہی، لیکن ذائقہ میں تو کڑوا ہے۔ میں اس سے خوب پیسے بناؤں گا۔‘‘
فی الحال علاج معالجہ کے یونانی طریقہ علاج کا کوئی بدل نہیں، کیونکہ ملک میں ڈاکٹروں کی تعداد بہت کم ہے اور جو ہیں تو وہ دیہات میں رہنا پسند نہیں کرتے۔ جدید ادویہ نایاب ہیں اور ملتی بھی ہیں تو نہایت گراں۔ ڈاکٹروں کی فیسیں بھی بھاری ہوتی ہیں۔ حکیم کوئی فیس نہیں لیتے، صرف اپنی ادویہ کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ عام طور پر مریض گاؤں کے عطار سے دوا لیتا ہے اور اس عطار کی آمدنی میں حکیم بھی شریک ہوتا ہے۔ یہ رقم فی مریض چند پیسوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یہ ادویہ تمام کی تمام ملکی ہوتی ہیں۔ا نہیں باہر سے درآمد نہیں کرنا پڑتا۔ ادویہ سازی کے اس نظام کو سرے سے جعلی قرار دینا درست نہیں۔ اکثر امراض میں ان سے شفا ہوتی ہے لیکن اس کی تنظیم اور حکومت کی جانب سے نگرانی کی بہت ضرورت ہے۔(جاری ہے )