گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 11

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ ...
گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 11

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جیو ہتیا اور تشدد سے نفرت کا جذبہ بعض حالات میں عجیب صورتیں اختیار کرلیتا ہے۔ ایک فرقہ جین لوگوں کا ہے، جو ہندومت کی ہی ایک شاخ ہے۔ یہ لوگ بات چیت کرتے ہیں تو اپنے منہ اور ناک کو کپڑے سے ڈھانپ لیتے ہیں تاکہ جراثیم سانس کے ساتھ ان کے جسم کے اندر نہ جائیں اور وہ جیو ہتیا کے مرتکب نہ ہوں۔ پاکستان میں جین لوگ نہیں رہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1920-1921ء میں جب میں وزیر صحت تھا تو مجھے ملتان جانا پڑا۔ ان دنوں وہاں طاعون پھیلا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ میونسپلٹی نے جو چوہے دان چوہے پکڑنے کی خاطر فراہم کئے تھے۔ جین مت کے لوگ ان میں چوہے پکڑ پکڑ کر ملحقہ علاقوں میں چھوڑ دیتے ہیں، نتیجہ یہ کہ ان علاقوں میں بھی طاعون پھیل رہا ہے۔

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔ دسویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

اس پر میں نے ایک جلسہ عام منعقد کیا اور عوام کے سامنے صورتحال کی وضاحت کی لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بالآخر جو کام عوام کے تعاون سے نہایت آسانی کے ساتھ پورا ہوسکتا تھا اسے میونسپلٹی کے عملہ کے سپرد کرنا پڑا۔ یہ کتنی بڑی بدنصیبی ہے کہ تعلیم اور تربیت کے نہ ہونے کے باعث ملک میں کوئی کام اس وقت تک انجام نہیں پاتا ۔تاوقتیکہ خود حکومت اس بارے میں فوری حکم نافذ نہ کرے۔ اگر طوطوں اور کتوں کو مارنے اور پوہلی تلف کرنے کا حکم سرکاری کی طرف سے نافذ ہوتا اور جو لوگ اس بارے میں نافرمانی کے مرتکب ہوتے انہیں سزا دی جاتی تو مجھے یقین ہے کہ ہمیں کچھ نہ کچھ ضرور کامیابی ہوتی۔ لوگ ہر معاملہ میں حکومت پر انحصار کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ اب یونین کونسلیں عوام میں ذمہ داری کا احساس بیدار کررہی ہیں اور میرا خیال ہے کہ حالات روبہ اصلاح ہوں گے۔
شادی اسلام میں ایک سادہ سی رسم ہے۔ اس لئے صرف دو گواہ چاہئیں جو اس امر کی تصدیق کردیں کہ جب مرد اور عورت سے ایک مسلمان نے یہ پوچھا کہ آیا وہ ایک دوسرے کو شوہر اور بیوی کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں، تو انہوں نے ان کے سامنے ’’ہاں‘‘ کہا تھا۔ اس بات کو رجسٹر کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ( نئے قانون کے تحت دیہات میں اور یونین میں تمام شادیوں کا اندراج لازمی ہے) دیہات میں اس رسم کی ادائیگی پر لمبے چوڑے مصارف نہیں ہوتے اور نکاح پڑھانے والے ملا کو ایک روپیہ سے زیادہ نہیں ملتا۔ ( ۔ شادی کی رسومات میں اور شادی کی دعوت میں امتیاز کرنا ضروری ہے۔) لیکن بدقسمتی سے اس آسانی نے ایسی صورتحال پیدا کردی کہ بعض اوقات ایک ہی عورت کے کئی کئی دعویدار شوہر پیدا ہونے لگے۔ حالات اس وقت زیادہ سنگین صورت اختیار کرلیتے ہیں جب کوئی عورت کسی آدمی کے ساتھ بھاگ جاتی ہے اور اس کے والدین اس کے مخالف ہوتے ہیں۔ اس وقت ایک شخص کو جھوٹ موٹ شوہر بنا کر بطور دعویدار کھڑا کردیا جاتا ہے اور دونوں فریقوں میں ٹھن جاتی ہے کہ دیکھیں عورت کس کے حصہ میں آتی ہے۔ ایسے واقعات آج کل شاذونادر ہی سننے میں آتے ہیں۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ لوگ ان سے واقف ہی نہ ہوں۔ ہمارے قانون کے تحت 16سال کی لڑکی بالغ ہے اور اپنی مرضی کے مطابق شادی کرنے کا حق رکھتی ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ تمام شادیاں سرپرستوں کے ایما اور انتخاب کے مطابق طے پاتی ہیں۔
شادی میں شرکت کے لئے تمام رشتہ داروں اور دوستوں کو دعوت نامہ، جسے گنڈھ کہتے ہیں، بھیجا جاتا ہے۔ شادیاں عام طور پر مارچ یا نومبر میں ہوتی ہیں کیونکہ ان دنوں موسم معتدل ہوتا ہے اور لوگ بستر کے بغیر کھلے آسمان تلے سو سکتے ہیں۔ زمین میں کھدے ہوئے چولہوں پر ایک قطار میں دیگر چڑھائے جاتے ہیں، جن میں گوشت کا قلیہ پکتا ہے۔ ایندھن دوستوں سے مانگا جاتا ہے اور اسی طرح گوشت بھی، گائے بھینس کی صورت میں، دوستوں اور رشتہ داروں ہی کی دین ہوتا ہے۔ا گر کنبے کے لوگوں کے پاس مویشی نہیں ہوتے تو میزبان کسی مویشی چور دوست سے رجوع کرتا ہے اور وہ یہ خدمت بجالاتا ہے کیونکہ اسے امید ہوتی ہے کہ جب اس کے بیٹے کی شادی ہوگی تو اس کے احسان کا بدلہ فوراً چکادیا جائے گا۔ ایسے موقعوں پر ناخواندہ مہمانوں کی تعداد مدعوئین سے کہیں زیادہ ہوتی ہے اور یہ لوگ آس پاس کے دیہات میں شیطانوں کی طرح مشہور ہوتے ہیں۔ میزبان کے لئے یہ بڑا مشکل ہوتا ہے کہ وہ زمین پر بچھے ہوئے دسترخوان پر سے ناخواندہ مہمانوں کو ہاتھ پکڑ کر اٹھادے اور یوں ان کی توہین کرے۔
ہندوستان کی تقسیم سے پہلے یہ دستور عام تھا کہ اگر کسی کے پاس شادی کے موقع پر ذبح کرنے کے لئے جانور نہ ہوتا، اور اس کی گاؤں کے بنیے سے دشمنی ہوتی تو وہ بنیے کی گائے کھول لاتا تھا۔ ایک ایسا ہی واقعہ مجھے ایک شخص نے سنایا تھا۔ ایک دن گاؤں کا ایک بنیا اپنی گائے دھو کر گھر میں برتن رکھنے کے لئے گیا لیکن جب باہر آیا تو گائے ندارد تھی۔ وہ فوراً بھانپ گیا کہ قصہ کیا ہے۔ چوروں کو معلوم تھا کہ ہندو ہونے کے ناطے بنیا گائے کو ذبح ہوتے نہیں دیکھ سکے گا۔ اس لئے انہوں نے کچھ دیر تک اسے باتوں میں لگائے رکھا اور جب گائے ذبح ہوگئی تو اسے بلا یا کہ آکر نظارہ کرلے۔ بنیا زمین پر نفرت سے تھوکنے لگا، جیسے مسلمان سور کے گوشت کا نام سن کر تھوکتے ہیں اور الٹے پاؤں ایک ایک کو ماں بہن کی گالیاں دیتا ہوا چلا گیا۔ بنیے کی گائے کے ذبیحہ کو میزبانوں اور ان کے حالیوں موالیوں نے ایک شاندار لطیفہ سے تعبیر کیا اور دیر تک ان کے قہقہوں سے درودیوار گونجتے رہے۔ انہیں اپنے طرز عمل کی سنگینی کا قطعی احساس نہ تھا۔
بنیے نے سوچا 10 میل پیدل چل کر تھانے جانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جب تک پولیس پہنچے گی اس واردات کے آخری آثار بھی ختم ہوچکے ہوں گے۔ اس لئے اس نے اپنے غیظ و غضب اور جذبہ انتقام کو دل ہی دل میں دبائے رکھا اور سود کی پہلے سے بھی زیادہ شرح وصول کرنے کا تہیہ کرلیا۔ ادھر شادی میں آئے ہوئے مہمان، جن میں بیشتر کسان اور مزارع تھے، چارپائیوں پر آرام سے بیٹھے حقے کے کش لگاتے رہے کہ چلو اچھی تفریح رہی۔
قیاس کہتا ہے کہ گڈھ (گرہ) کی رسم بہت پرانی ہے اور اس کی جڑیں تاریخ میں پیوست ہوں گی۔ دراصل یہ محبت کی گرہ ہوتی ہے جو دلہن اور دولہا کو ایک بندھن میں باندھتی ہے۔ یہ اس گرہ سے ملتی جلتی ہے جو تقریباً ایک سو سال قبل مسیح میں چین کے بادشاہ ہین نے زیورات کے اس ڈبے پر لگائی تھی جو اس نے اپنی عزیز ازجان ملکہ ینگ کو شادی کی پہلی رات تحفتاً دیا تھا۔ایک بیش قیمت بالوں کے پن کا تحفہ اس کے علاوہ تھا جسے بادشاہ نے اپنی آستین سے نکال کر نذرکیا اور جس کے بارے میں گویا یہ طے تھا کہ ملکہ جب تک بادشاہ سے محبت کرے گی اس پن کو اپنی محبت کی نشانی سمجھ کر ہمیشہ بالوں میں لگائے رکھے گی۔ محبت کی اس علامتی گرہ کا احترام دوسرے بادشاہوں نے بھی کیا۔
پنجاب کے علاقہ میں گڈھ کی حیثیت محض دعوت نامہ تک محدود رہی ہے۔ گاؤں کا نائی یا میراثی ایک رومال لے کر آتا ہے۔ رومال کے ایک کونہ میں وہ رقعہ بندھا ہوتا ہے جس میں شادی کی قمری تاریخ درج ہوتی ہے۔ میراثی یہ رقعہ متعلقہ شخص کو دے دیتا ہے۔ جواب میں وہ شخص ایک یا دو روپے اپنی مالی حیثیت یا میزبان کے ساتھ اپنے خونی ر شتہ کی قربت یا دوری کی بناء پر میراثی کو دیتا ہے۔ ہر مہمان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ میزبان کو تمبول ضرور دے گا۔ یہ بیس یا 20 روپے سے زیادہ کی رقم ہوتی ہے جو مہمان اپنی حیثیت کے مطابق میزبان کو تحفہ میں دیتا ہے۔ اس طرح جو رقم اکٹھی ہوتی ہے، اس سے شادی کے مصارف پورے ہوجاتے ہیں۔ تمبول کی رسم کے و قت بن بلائے مہمان چپکے سے کھسک جاتے ہیں۔ ( پچا س سال کے اندر یہ رسم بہت کچھ بدل چکی ہے، اور اب تعلیم یافتہ حلقوں میں نقد رقم کے بجائے تحائف دئیے جاتے ہیں۔ صرف پسماندہ دیہی علاقوں میں جہاں برادری اور قبیلہ کے رشتے بہت مضبوط ہوتے ہیں، تمبول کی رسم زندہ ہے۔)
شادی سے کئی دن پہلے گاؤن کی عورتیں اور دلہن کی سہیلیاں روزانہ رات کے کھانے دانے کے بعد دلہن کے گھر کی چھت پر چڑھ جاتی ہیں اور صبح تک خوب گاتی بجاتی ہیں۔ وہ خالی گھڑا اس مزے سے بجاتی ہیں کہ کیا کوئی طبلہ بجائے گا۔ کچھ دوسری عورتیں تانبے کے تھال سنبھال لیتی ہیں اور اسے اپنی چاندی کی موٹی موٹی انگوٹھیوں سے بجاتی ہیں۔ ان محفلوں کے گیت زیادہ تر دلہن کے کنبہ کی تعریف پر مشتمل ہوتے ہیں۔ یا پھر ہمارے علاقہ کے رومانوی کرداروں ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال یا سسی پنوں کی داستان۔ محبت ان میں سموئی ہوتی ہے۔ سب سے دل آویز منظر وہ ہوتا ہے جب ایک صبح دلہن کی کنواری سہیلیاں زرق برق کپڑوں میں ملبوس، دلہن کے گرد حلقہ باندھے، خالی گڑھے اپنے سوں پر رکھے، گاؤں سے باہر کنویں سے پانی لانے کے لئے نکلتی ہیں۔ رومان بھرے گیت ان کے ہونٹوں پر مچلتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو چھیڑتی ہیں، ٹھٹھے لگاتی ہیں اور آگے بڑھتی جاتی ہیں۔ا س رسم سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ ہونے والی بہو اپنے گھر کے لئے پانی کا مٹکا بھرکرلانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ واپسی پر گھڑے خاصے بھاری ہوتے ہیں۔ اب لڑکیاں بھی چہلیں نہیں کرتیں۔ سوائے ان چالاک لڑکیوں کے جو اپنے گھڑے خالی رکھتی ہیں۔ دلہن کا چھوٹا سا گھڑا لبا لب بھردیا جاتا ہے اور اس میں سے جب پانی چھلکتا ہے تو اس کا دوپٹہ، نیلا ریشمی کرتا اور سرخ لاچا بھیگ کر بدن پر چپک جاتا ہے، اور اس طرح اس کے قدرتی حسن کے تمام دل آویز خطوط اجاگر ہوجاتے ہیں۔ واپسی کا یہ منظر انتہائی جاذب نظر ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے کسی شخص حتیٰ کہ بوڑھے کو بھی اس جلوس کے قریب جانے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ سوائے ان عورتوں کے جو قریبی رشتے کی ہوں، دوسری عورتوں کو آنکھ اٹھا کر دیکھنا اپنا سر پھڑوانے کے مترادف ہے۔ اس جلوس میں سب کنواریاں ہوتی ہیں اور گاؤں کا ضابطہ اس معاملہ میں اتنا سخت ہے کہ ہر شخص ملزم کے قتل کو اپنی عزت کی خاطر واجب سمجھتا ہے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک نوجوان ملزم کی بہن کے ساتھ انتقاماً سرعام زنابالجبر کیا گیا ۔ شمال مغرب کے پٹھان علاقوں میں بعض قبائل کے درمیان ایک اور رسم ہے۔ اس رسم کے مطابق دلہن کا باپ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں کہ اس کی بیٹی شب عروسی سے ایک رات پہلے تک بالکل کنواری تھی، خون آلود چادر دکھاتا ہے۔
شادیاں اب بھی خاندانوں کے صلاح مشورے سے طے پاتی ہیں، دیہات میں بعض لڑکیاں بلا کی حسین ہوتی ہیں اور یہاں گورا رنگ زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ لوگ مثال کے طور پر کہتے ہیں کہ فلاح لڑکی اس قیامت کی حسین ہے کہ اسے شاید سورج کی تپش سے دور چودھویں کے چاند کی ٹھنڈی چاندنی میں شہد اور دودھ پلا کر پالاگیا ہے۔(جاری ہے)

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی آپ بیتی۔ ۔۔قسط نمبر 12 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں