پاکستان بھارت میں اعتماد کا فقدان ہے ،سوچنا ہو گا مذاکرات کے لیے سازگار ماحول کیسے پیدا کیا جائے ، بھارتی ہائی کمشنر
لاہور(خصوصی رپورٹر سے) پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری باہمی اعتماد کو فروغ دیئے بغیر ممکن نہیں ۔ ہم سب کو اس بات پر غور کرنا ہو گا کہ مذاکرات کے لئے سازگار ماحول کیسے پیدا کیا جائے۔ بھارت کو اس بات کا مکمل احساس ہے کہ وہ اپنی معاشی ترقی کے اہداف خطے میں امن کے قیام تک حاصل نہیں کر سکتا۔یہ گفتگو گزشتہ روز لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں انگلش سپیکنگ یونین کے زیر اہتمام منعقد کی گئی تقریب میں بھارتی ہائی کمشنر ڈاکٹر ٹی سی اے راگھوان نے کی۔ تقریب کی میزبانی کے فرائض یونین کے صدر سابق گورنر شاہد حامد اور یونین کے سیکرٹری خالد شفیق نے انجام دیئے۔ ڈاکٹر راگھوان نے پاک بھارت حالیہ کشیدگی اور کنٹرول لائن پر بھارتی افواج کی طرف سے بلااشتعال فائرنگ کے حوالے سے چند چبھتے ہوئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق پہلے پاکستان کی طرف سے ایک سرحدی گاﺅںپر فائرنگ کی گئی اور اس کے بعد بھارت کی طرف سے جوابی فائرنگ کی گئی۔ انہوں نے البتہ اس بات کو تسلیم کیا کہ ایسے معاملات پر ایک دوسرے کے موقف کو درست تسلیم کرنا تقریباً ناممکن ہے اور حالیہ کشیدگی کی بنیادی وجہ بھی بد اعتمادی کی وہ فضا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان موجود ہے۔ ان کا استدلال تھا کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرکے خلاف پوائنٹ سکورنگ کے مائنڈ سیٹ سے اوپر اٹھنا ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ الزام غلط ہے کہ انڈیا نے پاکستان کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے بلکہ بھارتی قیادت اس بات کو مکمل طور پر سمجھتی ہے کہ اس کے معاشی ترقی کے اہداف کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ خطے میں کشیدگی کا ماحول ہے۔ ”ہم اپنے کروڑوں لوگوں کو خط غربت سے اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن قائم کرنے تک نہیں نکال سکتے۔“ ڈاکٹر راگھوان نے مزید کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دونوں حکومتیں تعلقات کی بہتری کے لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے سے گریزا ں ہیں اور یہ سمجھ رہی ہیں کہ بال دوسرے کی کورٹ میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی رائے میں پاکستانی عوام کو یہ اعتماد دینے کی ضرورت ہے کہ تجارتی اور سیاسی معاملات ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔”سیاسی اختلافات باہمی تعلقات کا صرف ایک حصہ ہیں اصل امتحان تویہ ہے کہ باہمی اختلافات کے ہوتے ہوئے آگے کیسے بڑھا جائے۔“ انہوں نے اس بات پر تاسف کا اظہار کیا کہ تجارت اور باہمی روابط کو بڑھانے کا عمل مجموعی سیاسی ماحول کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ رہا ۔ انہوں نے اس حوالے سے ایشیا کے کئی ممالک بشمول چین، جاپان، شمالی اور جنوبی کوریا کے باہمی اختلافات کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر ممالک نہایت بنیادی سیاسی اختلافات کے باوجود تجارتی میدان میں ایک دوسرے سے تعاون جاری رکھتے ہوئے ہیں۔ ”چین اور جاپان کے شدید اختلافات ڈھکے چھپے نہیں لیکن اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں۔“ انہوں نے چین اور انڈیا کے بڑھتے ہوئے تجارتی روابط کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ آپس میں جنگیں لڑنے کے باوجود اور شدید سیاسی اختلافات کے ہوتے ہوئے دونوں ممالک باہمی تجارت کو 70بلین ڈالرتک لے گئے ہیں اور آئندہ چند سالوں میں اسے 100بلین ڈالر تک لے جانے کا ہدف ہے۔ بھارتی ہائی کمشنر نے پاک بھارت تعلقات کے تاریخی پس منظر پر بھی روشنی ڈالی اوراپنے نقطہ نظر سے حاضرین کو آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ 1960ءسے پہلے تک پاکستان اور انڈیا کے تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود کئی پیچیدہ مسائل کو باہمی بات چیت کے ذریعے حل کیاگیا۔ ”بیشمار لوگوں کو نہیں پتہ کہ 1955ءمیں پاکستانی گورنر جنرل نے نئی دہلی میں ریپبلکن ڈے پریڈ میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی“۔ انہوں نے مزید کہا کہ کئی بظاہر حل نہ ہوسکنے والے مالیاتی امور کو دونوں ملکوں کی قیادت نے باہمی ڈائیلاگ کے ذریعے حل کیا۔ سندھ طاس معاہدہ بھی معاملہ فہمی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس وقت کی قیادت نے ایک نتیجہ خیز اور لچکدار رویہ اپنایا تھا اور اس لئے وہ آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1965ءکی جنگ نے پاک بھارت تعلقات کو ہمیشہ کے لئے ایک دوسری ڈگر پر ڈال دیا اور باہمی اعتماد کی فضا اس کے بعد کبھی بحال نہیں ہوسکی۔بھارتی عوام یہ سوال کرتی ہے کہ کارگل کیوں ہوا اور ممبئی دھماکے کیسے ہوئے۔ ان کے بقول ان دونوں واقعات نے بھارتی عوام کے ذہنوں پر دور رس منفی اثرات چھوڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شملہ معاہدہ ،1999ءمیں لاہور اور 2004ءمیں ہونے والا اسلام آباد کا اعلامیہ مستقبل میں اعتماد سازی اور باہمی مذاکرات کی فضاءکو فروغ دینے میں بنیادی دستاویزات کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں اس وقت ایک بڑا ہی متحرک میڈیا ہے، آزاد عدلیہ ہے اور جمہوری اداروں میں بھی مسلسل استحکام پیدا ہو رہاہے ۔ انہوں نے ان چیزوں کو نہایت خوش آئند قرار دیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک مستقبل میں باہمی اختلافات کی بجائے اتفاقات کو مدنظر رکھیں تو آگے بڑھنے کی راہ نکل آئے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تجارت،ٹیکنالوجی اور دونوں ممالک کے درمیان سفری سہولوتں میں اضافہ، دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو مثبت سمت میں دھکیل سکتا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاچن کے مسئلے کے حل کے لئے دونوں ممالک میں گفت و شنید جاری ہے لیکن وہاں بھی بنیادی مسئلہ باہمی اعتماد کی کمی کا ہے۔ ہماری قیادت کو یہ خدشہ ہے کہ سیاچن سے فوجوں کی واپسی کی صورت میں اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ پاکستانی فوج کارگل کی طرح وہاں بھی چپکے سے قبضہ نہ کر لے۔