این آر او عملدرآمد کیس کی سماعت دوران اٹارنی جنرل بوکھلائے رہے، کپکپی طاری رہی
اسلام آباد(اخترصدیقی سے )سپریم کورٹ میں این آراوعمل درآمدکیس میں اٹارنی جنرل اس قدر بوکھلاہٹ کا شکار تھے کہ جیسے حکومت کی بجائے سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی سزاعدالت انھیں دے گی انھوں نے عدالت سے کہاکہ وہ بیرون ملک جارہے ہیں سماعت گرمیوں کی تعطیلات کے بعدتک ملتوی کی جائے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ کہیں وہ سوئٹزر لینڈ تونہیں جارہے تواٹارنی جنر ل عرفان قادر کے منہ سے خودبخودنکل گیاہاں جی پھر ایک دم ہوش میں آئے اور کہنے لگے نہیں نہیں وہ ۔۔وہ نہیں تو وہ توصرف بیرون ملک جارہے ہیں سو ئٹزر لینڈ نہیں جارہے ،عدالت جب فیصلہ سنارہی تھی تواٹارنی جنرل کاجسم ہولے ہولے کانپ رہاتھا،ججز پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے لگ یہی رہاتھا کہ ابھی عدالت وزیر اعظم کوطلب کرے گی اوران سے جواب مانگے گی نہ ملنے کی صورت میں انھیں فوری طورپر فارغ کرکے گھر بھجوادے گی ،لیکن جب فیصلہ دیاگیا تووزیر اعظم کوانتظار کی سولی پر لٹکادیا گیا کہ وہ سوئس حکام کوخط تحریر نہ کیے جانے کا جواب ہر حالت میں 25جولائی کو دے دیں شاید عدالت چاہتی تھی کہ نیاتوہین عدالت کاقانون جوکہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیاجاچکاہے پہلے اس کے بھی تمام کانٹے نکال پھینکے جائیں تاکہ نئے وزیر اعظم کو اس نازک سہارے کی پہنچ سے بھی بہت دورکردیاجائے لگ رہاتھاکہ حکومت کا جواب ان کی توقع کے عین مطابق تھا اس لیے بہت ہی خندہ پیشانی کے ساتھ اے جی کی تمام رام کہانی سنی گئی اوربغیر کوئی ردعمل دئیے بنچ فیصلہ کرنے کے لیے اٹھ گیاتین گھنٹے کے بعدپانچ رکنی بنچ نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جب فیصلہ سنایاتوعدالت کاعزم کھل کر سامنے آگیاکہ چاہے کچھ ہوجائے حکومت کو سوئس حکام کو خط تحریر کرنا ہی ہوگا۔اب دوبارہ سے دنگل پچیس جولائی کولگے گااورحکومت کے مہروں اورچالوں کابھی پتہ چل جائیگااورعدالت کاجوارادہ ہے وہ توسب پرعیاں ہو ہی چکاہے بس خالی حکم جاری کرنے کی دیر ہے۔