بحرالکاہل ممالک سے تر جیحی تجارت کا امریکی معاہدہ ختم ، نتین یاہو کو دورہ واشنگٹن کی دعوت ، امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کی تیاریاں

بحرالکاہل ممالک سے تر جیحی تجارت کا امریکی معاہدہ ختم ، نتین یاہو کو دورہ ...
 بحرالکاہل ممالک سے تر جیحی تجارت کا امریکی معاہدہ ختم ، نتین یاہو کو دورہ واشنگٹن کی دعوت ، امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کی تیاریاں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 واشنگٹن (اظہر زمان، خصوصی رپورٹ) آثار بتا رہے ہیں کہ امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کا اسرائیل کی طرف جھکاؤ بڑھ جائے گا۔ جارحانہ انداز فکر کے حامل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے اہم پالیسی معاملات پر سابق صدر بارک اوبامہ سے ملاقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔ امریکی کانگریس نے ایک مرتبہ صدر اوبامہ کی خواہش کے برعکس اسرائیلی وزیراعظم کو خطاب کی دعوت دے کر سفارتی تنازعہ کھڑا کر دیا تھا اور صدر اوبامہ نے واشنگٹن میں موجودگی کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات نہیں کی تھی۔ صدر اوبامہ اور انکے وزیر خارجہ جان کیری کا موقف بہت واضح تھا کہ خطے کے مسائل کا واحد حل دو ریاستوں اسرائیل اور فلسطین کا قیام اور ایک دوسرے کو تسلیم کرنے میں مضمر ہے۔ اس کے علاوہ اوباما انتظامیہ نے اسرائیلی دارالحکومت کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے اور متنازعہ علاقے میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کی ہمیشہ مخالفت کی تھی۔ اسرائیلی بستیوں کی تعمیر پر اب ٹرمپ انتظامیہ بیت المقدس کو دارالحکومت بنانے کے اقدام کی تائید کریگی۔اپنا عہدہ صدارت سنبھالنے کے دو روز بعد اتوار کو صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم سے ٹیلیفون پر تفصیلی بات چیت کرکے انہیں واشنگٹن کا دورہ کرنے کی جو دعوت دی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انکی انتظامیہ اسرائیل سے خصوصی تعلق قائم کرنے کی خواہاں ہیں۔ اسرائیل اگرچہ جارج بش اور باراک اوباماکے ادوار میں دباؤ کے نتیجے میں دو ریاستی نظرئیے کو چار و ناچار مشروط طور پر تسلیم کرتا رہا ہے لیکن اصل میں وہ ایک عظیم تر اسرائیل کے اندر فلسطینی خطے کو خود مختاری دینے کے حق میں رہا ہے۔ اب لگتا ہے کے ٹرمپ انتظامیہ دو ریاستی نظرئیے پر اصرار نہیں کریگی اور مشرق وسطیٰ کے معاملات پر عمومی طور پر اسرائیلی موقف کی حمایت کرے گی۔ اسرائیل ہمیشہ سے امریکہ اور ایران کے درمیان ایٹمی معاہدے کا مخالف رہا ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس معاہدے کے پردے میں ایران کو اپنی ایٹمی صلاحیت بڑھانے کی مہلت مل جائے گی۔ بارک اوبامہ کے دور کے خاتمے کے بعد ایران کے معاہدے کے حوالے سے خدشات میں پہلے ہی اضافہ ہوچکا ہے۔ اس لئے اسرائیلی وزیراعظم کی کوشش ہوگی کہ کسی نہ کسی طرح ٹرمپ انتظامیہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ ختم کر دے۔ اسرائیل کو ہمیشہ سے ایران سے خطرہ رہا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر ایران نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی تو اس پر ایٹمی حملہ کرسکتا ہے۔وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم کو فروری کے آغاز میں واشنگٹن کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی ہے جو شاید ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکہ کا دورہ کرنیوالے پہلے غیر ملکی سربراہ ہوں گے۔ ٹرمپ نے ایسے موقع پر اسرائیلی وزیراعظم کو فون کیا ہے جب اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس میں 566 نئے گھروں کی تعمیر کیلئے پرمٹ منظور کئے ہیں۔ اس علاقے کو فلسطینی اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے بیان میں اس موقع پر واضح کہا گیا ہے کہ امریکہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مسائل کے حل کیلئے براہ راست بات چیت کا حامی ہے۔ اس بیان میں دو ریاستی نظرئیے کا ذکر نہیں ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں ٹرمپ انتظامیہ کا موقف اسرائیلی موقف سے قریب ہی رہے گا۔
ٹیلیفون

واشنگٹن(مانیٹرنگ ڈیسک) اسرائیل فلسطینی ریاست کے وجود کا امکان مٹانے کیلئے اپنا دارالحکومت تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنا چاہتا ہے، جس کی راہ میں اب تک امریکہ حائل تھا، کیونکہ اس نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ صدر بن گئے تو سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کر دیں گے۔ اب انہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی اپنا یہ وعدہ پورا کرنے پر تیزی سے کام شروع کر دیا ہے جس سے مسلم دنیا اور امریکہ کے مابین تعلقات کی کشیدگی عروج پر پہنچنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس کا مکین ہونے کے تیسرے روز ہی وائٹ ہاؤس کے ترجمان کی طرف سے بیان جاری کر دیا گیا ہے کہ ’’امریکہ نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے تاہم یہ مذاکرات تاحال ابتدائی مرحلے میں ہیں۔‘‘فلسطین بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے لیکن درحقیقت بیت المقدس آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کا جائز اور قانونی حصہ اور دارالحکومت ہے۔ اگر دنیا بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیتی ہے تو اس سے فلسطینی ریاست کے وجود کا امکان ختم ہو جائے گا اور پورے علاقے پر اسرائیل کے قبضے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل مذہبی، ثقافتی اور تاریخی حوالے دے کر اس شہر کی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ گزشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے فون پر گفتگو کی۔ اس گفتگو کے بعد نیتن یاہو کے دفتر کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’’ٹرمپ نے نیتن یاہو کو فروری میں ملاقات کے لیے واشنگٹن آنے کی دعوت دی ہے۔ دوران گفتگو دونوں رہنماؤں کے مابین ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے، فلسطینیوں کے ساتھ حصول امن کے طریقہ کار اور دیگر مسائل پر گفتگو ہوئی۔‘‘ اس گفتگو پر وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’’صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نیتن یاہو کے ساتھ گفتگو عمدہ رہی۔ انہوں نے نیتن یاہو سے کہا کہ فلسطینیوں کے ساتھ امن دونوں فریقوں کے براہ راست مذاکرات سے ہی آ سکتا ہے۔‘‘رپورٹ کے مطابق امریکہ کی طرف سے سفارتخانے کی منتقلی پر مذاکرات شروع کرنے سے امریکی اتحادیوں سعودی عرب، اردن، مصر و مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کی طرف سے شدید احتجاج متوقع ہے۔وائٹ ہاؤس کے پریس سیکریٹری شان سپائسر نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ یروشلم میں سفارتخانے کی منتقلی کے موضوع پر بات چیت کے بھی انتہائی ابتدائی مرحلے میں ہے اس بات چیت کا جو خلاصہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیا گیا ہے اس میں صدر ٹرمپ کے اس منصوبے کا کوئی ذکر نہیں جس کے تحت اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنا شامل ہے اور یہ منتقلی امریکہ کی دو دہائی سے جاری پالیسی کو تبدیل کر دے گی۔1995 کا یروشلم سفارتخانہ ایکٹ امریکی صدر کو پابند کرتا ہے کہ وہ امریکی سفارتخانہ یروشلم منتقل کرے تاہم اس سے بچاؤ اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ ہر چھ ماہ بعد یہ تصدیق کرے کہ ایسا کرنا قومی مفاد میں نہیں ہے۔سابق صدر بل کلنٹن سے لے کر براک اوباما تک تمام امریکی صدر یہ تصدیقی سرٹیفیکیٹ جاری کرتے رہے ہیں اور صدر ٹرمپ کے پاس یہ فیصلہ کرنے کے لیے مئی 2017 تک کا وقت ہے کیونکہ صدر اوباما نے آخری مرتبہ یہ سرٹیفیکیٹ یکم دسمبر 2016 کو جاری کیا تھا۔
ٹرمپ

واشنگٹن (بیورورپورٹ) ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے داخلی اور بین الاقوامی سطح پر جن ڈرامائی تبدیلیوں کی توقع کی جا رہی تھی، ان کا آغاز ہوچکا ہے۔ انہوں نے سوموار کے روز بڑی کمپنیوں کے عہدیداروں سے ملاقات کے بعد ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ’’ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ‘‘ (ٹی پی پی) سے امریکہ کو باہر نکال لیا ہے۔ یہ ڈرامائی اعلان وائٹ ہاؤس کی ایک تازہ نیوز ریلیز میں کیا گیا ہے، جس سے بحرالکاہل اور ایشیا کے ممالک کے ساتھ ترجیحی تجارتی تعلقات کا وہ اہم معاہدہ ختم ہوگیا ہے جسے صدر اوبامہ نے کئی سال کی محنت اور مذاکرات کے بعد تیار کیا تھا اور اسے اپنی انتظامیہ کا ایک تاریخی کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اسے ایک ’’برا معاہدہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے افتتاحی خطاب میں اور قبل ازیں انتخابی مہم میں اپنے ایجنڈے میں اس کے خاتمے کا جو عہد کیا تھا، وہ انہوں نے پورا کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ وہ طویل عرصے سے اس معاہدے سے نکلنے کی بات کر رہے تھے، کیونکہ اس کے ذریعے امریکی ملازمتوں میں کمی ہونے کا امکان تھا۔ ہم چاہتے ہیں کہ غیر ملکی اشیاء کی امریکہ میں کم از کم درآمد ہو، مقامی سطح پر پروڈکشن میں اضافہ ہو اور عام امریکیوں کے لئے ملازمتوں کے مواقع کم نہ ہوں۔ انہوں نے بڑے فخر سے میڈیا کو بتایا کہ ہم نے جو نیا قدم اٹھایا ہے، یہ امریکی کارکنوں کیلئے ایک بڑی خدمت ہے۔ کیپیٹل ہل اور غیر ملکی لیڈروں کیلئے یہ اعلان ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے پہلا بڑا جھٹکا ہے۔ صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے والوں میں ورل پول، انڈر آرمر، ٹیسلا، لاک ہیڈ مارٹن اور جانسن اینڈ جانسن جیسی بڑی کمپنیوں کے عہدیداران شامل تھے۔ان شخصیات سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا ایسا نہیں کہ ہم تجارت نہیں چاہتے،ہم درآمدات نہیں چاہتے،انہوں نے کہاکہ جو کمپنیاں اپنا پیداواری عمل امریکہ سے باہر منتقل کریں گی وہ ان پر بھاری سرحدی ٹیکس لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ’’آپ کو بس یہی کرنا ہے کہ آپ پیداواری عمل ملک (امریکہ) میں ہی رکھیں‘‘۔انھوں نے عزم ظاہر کیا کہ وہ کارپوریٹ ٹیکس کی موجودہ 35 فیصد شرح کو کم کر کے 15 سے 20 فیصد تک لائیں گے۔صدر ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے سے پہلے اعلان کیا تھا کہ وائٹ ہاؤس میں ان کی آمد کے پہلے دن ہی امریکہ عالمی تجارتی معاہدے ٹرانس پیسفک پاٹنرشپ ڈیل (بحرالکاہل کے آر پار ہونے والے مشترکہ تجارت کے معاہدے) سے باہر نکل جائے گا۔صدر ٹرمپ نے تجارتی معاہدے سے نکلنے کے صدارتی حکمنامے پر دستخط کرنے کے بعد کہا ہے کہ’ جو ابھی ہم نے کیا ہے وہ امریکی ورکروں کے لیے بہت بڑی چیز ہے۔‘خیال رہے کہ آسٹریلیا، ملائیشیا، جاپان، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور میکسیکو سمیت 12ممالک اس عالمی تجارتی معاہدے میں شامل ہیں اور یہ ممالک دنیا کی 40 فیصد تجارت کو کنٹرول کرتے ہیمزیدبرآں، انتخابی مہم کا اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے، ٹرمپ نے متعدد سرکاری اداروں میں ملازمت پر رکھے جانے کے عمل کو منجمد کرنے کا بھی اعلان کیا، جس کا مقصد حکومت کے اخراجات میں کمی لانا اور کسی اضافے کو روکنا ہے۔

مزید :

صفحہ اول -