دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پرعزم ہیں، پاکستان نے صلاح الدین پر امریکی پابندیاں مسترد کر دیں

دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پرعزم ہیں، پاکستان نے صلاح الدین پر امریکی پابندیاں ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک228 ایجنسیاں)پاکستان نے کشمیری حق خوارادیت کے حامی کو دہشت گرد قرار دینے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندرمودی کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ کو مسترد کردیا ہے۔پاکستان نے حزب المجاہدین کے رہنما صلاح الدین پر امریکی پابندیاں مسترد کردیں ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ تحریک آزادی کو دہشت گردی سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حامی کو دہشت گرد قرار دینا ناقابل قبول ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے درمیان ملاقات کے بعد امریکہ۔بھارت مشترکہ اعلامیہ پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ خطے میں کشیدگی کی وجہ جانے بغیر مشترکہ اعلامیہ مزید مسائل کا باعث بنے گا اور یہ اعلامیہ خطے میں دیرپا امن و استحکام کے قیام میں ممد و معاون ثابت نہیں ہوگا۔ ٹرمپ۔مودی ملاقات کے دوران خطے میں کشیدگی میں کمی لانے کے ایک اچھے موقعے کو ضائع کردیا گیا جہاں امریکہ نے بھارت کی جانب سے خطے کے امن کو خطرے میں ڈالنے والے نریندر مودی کی پالیسیوں کو ترک کرنے کا بہتر موقع بھی گنوا دیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے بھارت کو جدید ملٹری ٹیکنالوجی کی فروخت پر شدید تشویش ہے، اس قسم کی ٹیکنالوجی کی فروخت سے خطے میں فوجی عدم توازن پیدا ہوگا۔انھوں نے کہا کہ بھارت کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کرکے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے کیونکہ اس صورت حال میں بھارت پاکستان مخالف جارحیت اور مہم جوئی میں مزید اضافہ کرے گا۔خطے میں دہشت گردی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے سرحد پار سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان کے خلاف پراکسی وار کے طور پر استعمال کیا ہے اس لیے پاکستان اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کے بھارتی عزائم کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جو دہشت گردی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے ہیں وہ خود ہی پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات کے حل کے لیے تیار ہے ۔ کشمیری عوام کی جدوجہد کو دہشتگردی کے ساتھ جوڑنے کی کوئی بھی کوشش اور حق خود ارادیت کے حامی کسی شخص کو دہشتگرد قرار دینا ناقابل قبول ہے۔پاکستان بنیادی طور پر خود خطے میں دہشتگردی کا شکار ہے، کسی ملک نے مالی اور جانی طور پر اتنی قربانیاں نہیں دیں، دہشتگردی کے خلاف جنگ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پرعزم ہیں۔ عالمی برادری پاکستان کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں غیر مشروط طور پر کھڑی ہو ،بھارت نے تحریک طالبان کی پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پرمعاونت کی ،بھارت کیطرف سے مجرمانہ طور پر خطے کو غیر محفوظ بنانے کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، پاکستان کو بھارت کو جدید دفاعی ٹیکنالوجیز فروخت کرنے پر شدید تحفظات ہیں اس طرح کے سودے خطے میں عدم توازن پیدا کریں گے اور فوجی ڈاکٹرائن اختیار کرنے کے حوالے سے بھارت کی حوصلہ افزائی ہو گی ۔کشمیری گزشتہ 7 دہائیوں سے آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں، کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دینا ناانصافی ہے ۔ترجمان نے کہا کہ یہ مشترکہ اعلامیہ جنوبی ایشیاء کے خطے میں سٹریٹجک استحکام اور پائیدار امن کے حصول کے مقاصد کے حصول کے لیے غیر معاون ثابت ہو گا واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات میں امریکی صدر اور بھارتی وزیر اعظم نے خطے میں امن کے لیے بھارت کی پالیسیوں میں تبدیلی کا موقع ضائع کر دیا بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ریاستی سرپرستی میں ہونیوالی زیادتیاں ختم ہونی چاہئیں اور انسانی وقار کے مطابق جان و مال کا تحفظ اور آزادی اظہار رائے کو یقینی بنایا جانا چاہیے پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد کو تسلیم کرتا ہے اور حق خودارادیت کی اس جدوجہد میں مکمل طور پر کشمیریوں کا حامی ہے جس کا وعدہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے عالمی برادری کے ساتھ کشمیریوں نے بارہا کیا ہے کشمیری عوام کی پرامن مقامی جدوجہد کو دہشتگردی کے ساتھ جوڑنے کی کوئی بھی کوشش اور حق خود ارادیت کے حامی کسی شخص کو دہشتگرد قرار دینا ناقابل قبول ہے اور اسی طرح سے جان بوجھ کر بھارتی فورسز کی طرف سے معصوم کشمیریوں کے خلاف مظالم بھی ناقابل قبول ہیں اس سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت بنیادی اصول کمزور پڑتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کے خواہشات کے تحت مسئلہ کشمیر حل کرنا ضروری ہے یہ وہ وعدہ ہے جسے بھارت کو بھی تسلیم کرنا چاہیے پا فوجی آپریشنز کے ذریعے ہم نے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے شاندار کامیابیاں حاصل کیں اور اپنی سرزمین سے بلا امتیاز دہشتگردوں کے نیٹ ورک کا خاتمہ کیا جو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قائدانہ کردار چاہتے ہیں دراصل وہ خود پاکستان میں دہشتگردی کی کاروائیوں کے ذمہ دار ہیں بھارت نے سرحد پار سے تحریک طالبان کی پاکستان کے خلاف پراکسی کے طور پرمعاونت کی بھارت کیطرف سے مجرمانہ طور پر خطے کو غیر محفوظ بنانے کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ پاکستان کو بھارت کو جدید دفاعی ٹیکنالوجیز فروخت کرنے پر شدید تحفظات ہیں اس طرح کے سودے خطے میں عدم توازن پیدا کریں گے اور جنوبی ایشیاء کے سٹریٹجک استحکام کو نقصان پہنچائیں گے اس سے جارحانہ فوجی ڈاکٹرائن اختیار کرنے کے حوالے سے بھارت کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ مکمل فوجی مہم جوئی کی طرف بڑے گا بھارت کو جدید فوجی ہارڈ ویئر اور ٹیکنالوجی کی منتقلی سے خطے میں پائیدار سلامتی کے حوالے سے مقاصد پورے نہیں ہو سکیں گے۔ کشمیری گزشتہ 7 دہائیوں سے آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں، کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دینا ناانصافی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں، انسانی حقوق کے اداروں نے مقبوضہ کشمیر میں ان مظالم کو ریکارڈ کیا ہے، گزشتہ ایک سال میں بھارتی قابض افواج نے وادی میں مظالم میں اضافہ کیا، ہزارو ں معصوم کشمیریوں کو پیلٹ گن کے ذریعے بینائی سے محروم کردیا گیا۔ بھارتی فورسز نے خواتین کی آبرو ریزی، ماورائے عدالت قتل اور کشمیریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا گیا، کشمیریوں کے گھروں کو تباہ کرنا، انہیں حبس بے جا میں رکھنا اور بنیادی حق سے محروم رکھنا قابض افواج کا معمول ہے۔ بھارتی ریاستی دہشتگردی کے باوجود کشمیری اپنے مقاصد کے حصول کیلئے پْرعزم ہیں، پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے حصول تک ان کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔بھارت کو ایٹمی تجارت کیلئے استثنیٰ اور خصوصی رویہ سے علاقائی سٹریٹجک استحکام خراب ہوگا اورایٹمی عدم پھیلاؤ کے عالمی ادارے کی ساکھ متاثر ہوگی،خطے میں اسلحے کی دوڑ پر یقین نہیں رکھتے، پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ہے اور وہ نیو کلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کیلئے مضبوط اہلیت رکھتا ہے، نیو کلیئر سپلائرز گروپ میں پاکستان کی شمولیت سے گروپ کے تخفیف اسلحہ اور ایٹمی عدم پھیلاؤ میں مدد ملے گی، پاکستان کے ہتھیاروں کی برآمد کا نظام بہت جامع اور عالمی معیار سے مصدقہ ہے، پاکستان کی بھارت کو ایٹمی اسلحہ محدود کرنے کی پیشکش اب بھی موثر ہے۔ سرکاری نشریاتی ادارے سے انٹرویو میں ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے کہا کہ نیو کلیئر سپلائر گروپ میں پاکستان کی شمولیت سے گروپ کے تخفیف اسلحہ اور ایٹمی عدم پھیلاؤ میں مدد ملے گی کیونکہ پاکستان گروپ کی توانائی او ر برآمد سے متعلق رہنما اصولوں کی پاسداری کرتا ہے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال اور تحفظ کے حوالے سے بین الاقوامی اداروں ا ور تھنک ٹینک کی طرف سے تیار کی گئی رپورٹس میں پاکستان کے ایٹمی تحفظ کی تعریف کی گئی ہے۔ پاکستان کے پاس بجلی کی پیداوار ،صنعت، زراعت اور ادویات کے شعبے میں مثبت اور پرامن مقاصد کے لئے سول ایٹمی تنصیبات کے انتظام کیلئے ماہرین موجود ہیں۔ پاکستان کے ہتھیاروں کی برآمد کا نظام بہت جامع اور عالمی معیار سے مصدقہ ہے۔ 2008 میں استثنیٰ ملنے کے بعد سے بھارت نے فوجی مقاصد کیلئے افزودہ مواد پیدا کرنے کی صلاحیت میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیا جوخطے میں سٹریٹجک استحکام کے مقاصد کیخلاف ہے۔؂ پاکستان خطے میں اسلحے کی دوڑ پر یقین نہیں رکھتا اور وہ اس بات پر قائم ہے کہ دونوں پڑوسی ملکوں کوایٹمی اسلحے کی دوڑروکنے کیلئے بامقصد اقدامات پراتفاق کرنا چاہیے۔؂ پاکستان کی بھارت کو ایٹمی اسلحہ محدود کرنے کی پیشکش اب بھی موثر ہے۔ پاکستان ا س بات پر یقین رکھتا ہے کہ نیوکلیئر سپلائرگروپ کو رکن بنانے کیلئے شفاف، بامقصد، بلاتفریق اوراہلیت پرمبنی طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔

واشنگٹن( مانیٹرنگ ڈیسک228 ایجنسیاں ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین دیگر ممالک پر حملوں کے لیے دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے دے۔ واشنگٹن میں ملاقات کے دوران امریکی صدر اور بھارت وزیر اعظم نے دونوں ممالک کے دفاعی تعاون، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ اور افغانستان میں جاری جنگ کے خلاف مل کرنے کا عزم کیا۔امریکی وائٹ ہاوس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی نے ملاقات کے دوران پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے دے اور اس کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات کرے۔غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق دونوں رہنماوں نے اقوام عالم پر زور دیا کہ وہ اپنے تمام علاقائی اور سمندری تنازعات کو عالمی قوانین کے تحت پر امن طریقے سے حل کریں۔دوطرفہ ملاقات کے بعد وائٹ ہاوس کے باہر مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر کا کہنا تھا کہ بھارت اور امریکا دہشت گردی کی برائی اور اسے چلانے والے انتہا پسند نظریات سے متاثر ہوئے ہیں۔اب تک دونوں ممالک کی جانب سے اہم اعلانات سامنے نہیں آئے ہیں تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت کے ساتھ 36 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے 20 ڈرون طیاروں اور ایک مسافر طیارے کی فروخت کے معاہدے کی تصدیق کر دی۔امریکا بھارت کو 2008 سے اب تک فوجی سامان فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ 9 برسوں میں 15 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے ہو چکے ہیں۔اس موقع پر امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکا اور بھارت کے تعلقات کبھی بھی بہتر اور مضوبط تر نہیں رہے۔انہوں نے بھارتی وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا بھارت کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے اور دو طرفہ شفاف تجارتی تعلقات کی تعمیر کرنا چاہتا ہے جس سے دونوں ممالک کے لوگوں کو ملازمتوں کے مواقع میسر آسکیں اور ساتھ ہی دونوں ممالک کی معیشتیں بھی مضبوط ہوں گی۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اب امریکی اشیاء4 کی بھارتی منڈیوں تک رسائی کی رکاوٹیں ختم ہو گئیں جس کی مدد سے امریکا کا مالی خسارہ کم ہوجائے گا۔نریندر مودی نے بھارت کو امریکی کمپنیوں کے لیے بہترین منڈی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اب امریکی سرمایہ کاروں کے لیے ایک محفوظ ملک کی حیثیت اختیار کر رہا ہے۔بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ امریکا بھارت کے لیے سماجی و اقتصادی تبدیلی میں اہم شراکت دار ہے۔اس موقع پر بھارتی وزیر اعظم نے کہا 'بھارت کی ترقی کے لیے میرے نقطہ نظر اور ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا کو دوبارہ عظیم ملک بنانے کے نظریے کی مدد سے دونوں ممالک کے تعاون میں نئی وسعت پیدا ہوگی۔ٹرمپ مودی ملاقات کے دوران افغانستان کی صورتحال تبادلہ خیال ہوا، اس موقع پر امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان میں تعمیر و ترقی کے عمل میں تعاون پر بھارتی عوام کے شکر گزار ہیں۔بھارتی وزیر اعظم نے بھی امریکی صدر کو یقین دلایا کہ بھارت عالمی امن و استحکامم کے حصول میں امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھے گا۔ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی وزیر دفاع جم میٹس اور امریکی سیکریٹری اسٹیٹ ریکس ٹلرسن سے بھی ملاقات کی تھی۔امریکی محکمہ خارجہ نے حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کو خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندیاں عائد کردی تھیں جسے ماہرین کی جانب سے دورے پر بھارت کی سب سے بڑی کامیابی سمجھا جارہا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ نے حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کو خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان پر پابندیاں عائد کردیں یہ اقدام بھارت کو خوش کرنے کیلئے کیا گیا ہے ۔۔محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے خلاف مسلح جدو جہد کرنے والے سب سے بڑے گروپ کے رہنما ہیں۔یہ پیشرفت بھارتی ویزر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات سے چند گھنٹے قبل سامنے آئی۔امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’سید صلاح الدین کو ایگزیکٹو آرڈر 13224 کے سیکشن ’ون بی‘ کے تحت عالمی دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے، جو امریکا اور اس کے شہریوں کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے غیر ملکیوں پر لاگو ہوتا ہے جبکہ اس کے بعد پابندی کی زد میں آنے والے پر پابندیاں بھی عائد ہوجاتی ہیں۔‘پابندی کے بعد کسی امریکی کو سید صلاح الدین سے مالی لین دین کی اجازت نہیں ہوگی۔امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ’سید صلاح الدین نے ستمبر 2016 میں کشمیر تنازع کے کسی پرامن حل کی راہ میں رکاوٹ بننے کا عندیہ دیا تھا، جبکہ انہوں نے وادی کشمیر کو بھارتی فورسز کا قبرستان بنانے کے لیے کشمیریوں کو خودکش بمبار کی تربیت دینے کی بھی دھمکی دی تھی۔‘امریکہ نے کہنا ہے کہ حزب المجاہدین نے متعدد حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔

مزید :

صفحہ اول -