ججز کے پاس من مرضی کے فیصلوں کا اختیار نہیں یہ قانون کے مطابق کرنا ہوتے ہیں :چیف جسٹس

ججز کے پاس من مرضی کے فیصلوں کا اختیار نہیں یہ قانون کے مطابق کرنا ہوتے ہیں ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور( نامہ نگار )چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہم اپنے فرائض کی انجام دہی اور اس قوم کیلئے کام کرنے میں سنجیدہ ہیں، اگر ہم جلد اور معیاری انصاف کی فراہمی میں انقلابی کام نہ کرسکے تویہ ہماری ناکامی ہوگی۔ اس کیلئے خود کو کبھی معاف نہیں کر پائیں گے،ججز کے پاس من مرضی اور منشاکے مطابق فیصلے کرنے کا اختیار نہیں ، ہمیں قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہوتے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار فاضل چیف جسٹس نے صوبہ پنجاب میں ماڈل کورٹس اور مصالحتی مراکز کے قیام کے حوالے سے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں منعقدہ سمپوزیم میں خطاب کر تے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ، عدالت عالیہ کے فاضل جج صاحبان، وکلاء رہنماء، ضلعی عدلیہ کے ججز، ماڈل کورٹس سے منسلک تمام اسٹیک ہولڈرز کے نمائندے موجود تھے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پائلٹ کریمینل جسٹس پراجیکٹ اور اے ڈی آر سنٹرز کی کامیابی کا سہرا ان پراجیکٹس سے منسلک سٹیک ہولڈرز کے سر ہے. قانون میں تبدیلی لائے بغیر کریمینل جسٹس میں خاطر خواہ نتائج حاصل کئے ہیں یہ اس بات کا مظہر ہے کہ اگر خواہش اور دلچسپی ہوتو موجودہ قوانین کے تحت بھی فوری اور معیاری انصاف یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ وہ مذکورہ پراجیکٹس سے منسلک ججز، وکلاء اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے مشکور ہیں جنہوں نے ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ انصاف کرنا آسان تو نہیں ، زندگی موت کے معاملے ہوتے ہیں، سزا و جزا کا تعین کرنا ہوتا ہے، اس لئے ججز کیلئے اولین ضروری ہے کہ وہ ہمہ وقت قانون سے مسلح ہوں، جب تک ججز کو قانون پر دسترس نہیں ہوگی تو وہ سول مقدمات میں جلد فیصلے نہیں کر سکیں گے۔انہوں نے ججز سے کہا کہ ایسے فیصلے دیں جو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج نہ ہوں اور اگر ہوں تو آپ کے فیصلے قائم رہیں۔ فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس وقت قلیل ہے ، اس لئے موجودہ قوانین کے تحت ہی لوگوں کے اعتماد پر پورا اترنا ہے، لیکن ساتھ ساتھ اصلاحات کا عمل بھی جاری رکھنا ہے۔ وکلاء صاحبان ایسے فورم بنائیں جہاں اس حوالے سے بحث و مباحثے ہوں تاکہ قوانین میں بہتری لائی جا سکے، وکلاکے تعاون کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکیں گے، ہمیں اس پر جلدی نہیں ، یہ کام ہم سکون کے ساتھ مکمل غور وخوض کے ساتھ کریں گے تاکہ کسی غلطی کی کوئی گنجائش نہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ جس شخص کا حق مارا جاتا ہے وہ عدالت میں تاریخ ملنے پر بہت مایوس ہوتا ہے، اگر عدالت میں جج حاضر ہو، وکیل بھی موجود ہو تو پھر تاریخ دے دی جائے تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس میں صرف دو ہی صورتیں سامنے آتی ہیں، یاتو وکیل کیس سنانا نہیں چاہتا یا جج سننا نہیں چاہتا، یہ دونوں صورتیں ہی سائلین میں مایوسی کا سبب بنتی ہیں۔ انسان کے وجود اور انصاف کی طلب ایک دوسرے سے جد ا نہیں ہوسکتے۔ چھوٹے سے چھوٹے معاشرے میں بھی کسی انسان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہوگی اس بناء پر اختلافات جنم لیتے ہوں گے اور ان مسائل کے حل کیلئے وہاں کوئی ایسا شخص بھی موجود ہوگاجس کی ایمانداری پر سب کو اعتماد ہوتا ہوگا ، جسے وہ منصف سمجھتے ہوں گے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف کی یہ ابتدائی شکل اپنی ارتقائی مراحل طے کر تے ہوئے آج ایک ادارے کی شکل اختیار کر چکی ہے لیکن منصف میں غیرجانبداری، آزادی، سوچ اور دیانتداری کے عناصر ساتھ ساتھ چلتے رہے ، آ ج یہ ادارہ مختلف قوانین کے طابع ہے، منصف کوانہی مروجہ قوانین کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ امریکہ میں جب بیس پچیس سال پہلے اے ڈی آر سسٹم شروع ہوا تو وہاں بھی سب سے بڑی مزاحمت وکلاء کی صورت میں سامنے آئی لیکن آج وہاں اے ڈی آر سب سے زیادہ کامیاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی نئے نظام کو اپنانے میں وقت لگتاہے اور ہمیں امید ہے پاکستان میں مصالحتی نظام سے عدلیہ میں بہت بہتر اور مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ کسی بھی جرم کی میڈیا میں تشہیر بہت زیادہ ہوجاتی ہے، میڈیا تمام گواہ اور ثبوت دکھا دیتا ہے لیکن یہ چیزیں ہمارے تفتیشی افسران کو نظر نہیں آتیں ، کمزور تفتیش کی بنیاد پر ملزم رہا ہوجاتے ہیں اور ساراالزام عدالتوں پر آجاتا ہے، پولیس کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور درست تفتیش سے گہنگاروں کو انکے انجام تک پہنچانے میں معاونت کرنا ہوگی۔ مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ زندگی میں بہت کم ہوتا ہے کہ انسان کوئی خواب دیکھے اور اپنی آنکھوں کے سامنے اسکی تعبیر بھی دیکھے لیکن وہ اس معاملے میں بہت خوش نصیب ہیں۔ پولیس کریمینل جسٹس سسٹم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اگر پولیس عدالتوں کی مثبت انداز میں معاونت کرتی رہے گی تو یہ سسٹم کامیابی سے چلتا رہے گا۔ پولیس، جیل حکام، پراسیکیوشن اور وکلاء سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز نے اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیا اور نتائج ہمارے سامنے ہیں، اگر پورا نظام سہی انداز میں کام کرے گا تو جلد انصاف کی فراہمی کا خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا۔ صرف زیادہ سے زیادہ مقدمات کو نمٹانا ہی انصاف نہیں بلکہ انصاف یہ ہے کہ مقدمہ میں فیصلہ کتنا معیاری ہے۔ مقدمات کے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا ضروری ہے، اگر ضلعی سطح پر معیاری انصاف فراہم کیا جائے گا تو اعلیٰ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بہت کم ہو جائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ فیصلہ کروتو انصاف کے ساتھ کرو اور امانت داروں کو انکی امانت لوٹا دو۔ بطور جج تو انصاف کرنا ہماری ذمہ داری ہے لیکن یہ امانت کیاہے، ان کا کہنا تھا کہ روزانہ جاری ہونے والی کاز لسٹ ہمارے پاس امانت ہوتی ہے، ہم نے اس کاز لسٹ کے مطابق تمام مقدمات کو سننا ہوتا ہییہ سائلین کی جانب سے ہمارے پاس امانت ہوتی ہے۔ کریمینل جسٹس پائلٹ پراجیکٹ کے پیچھے بنیادی اصول تھا کہ جن مقدمات میں ریاست مدعی ہوتی ہے اس میں جلد انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے، عدالت کو مکمل طور پر معاونت فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، چودہ دنوں میں تفتیش مکمل کرنا اور سترہ دنوں میں چالان پیش کرنا پولیس پر قانونی فرض ہے اور چالان پیش ہوجانے کے بعد وقت پر عدالتی معاونت کرنا پراسیکیوشن اور عدالتوں میں ملزمان کی بروقت پیشی جیل حکام کی ذمہ داری ہے۔ اگر اسی طرح تمام ادارے اپنی اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن پوری کریں گے تو کوئی شک نہیں لوگوں کو انکی سوچ سے بھی پہلے انصاف ملے گا۔ لیکن اگر انصاف کی فراہمی میں لیت و لعل سے کام لیا جائے گا یا مقدمات کو لمبا کرنے میں مختلف حربے استعمال کئے جائیں گے تو پھر یہ گناہ ہم سب کے کندھوں پر ہوگا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عہدہ سنبھالا تو ان کے سامنے دو آپشنز تھیں، ایک تو سسٹم کو اسی طرح چلنے دیتے اور دوسرا کچھ محنت کرکے اس سسٹم میں بہتری لاتے اور سائلین کیلئے آسانیاں پیدا کرتے ، فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے دوسری آپشن پر عمل کیا اور پنجاب کی عدلیہ میں خاطر خواہ اصلاحات لائی گئی ہیں اور مزید کام جاری ہے۔یہ سب چیف جسٹس آف پاکستان اور جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کے اعتماد کی بدولت ہے کہ وہ آج کامیابی کی راہ پر گامزن ہین۔ کسی بھی نئے نظام کو اپنانے کیلئے ذہن تبدیل کرنا ہوتاہے، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ماڈل کورٹس کے قیام سے بھی کچھ مسائل سامنے آئے ہوں گے لیکن ہمیں تعمیری تنقید چاہیے ہمیں ہر قدم پر وکلاء کا ساتھ چاہیے، کیونکہ عدالت عالیہ لاہور کی جانب سے اٹھائے جانے والے تمام اقدمات کا مقصد عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانا ہے۔ قبل ازیں سمپوزیم سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور عابد حسین قریشی نے ADR سنٹرزسے متعلق تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ لاہور میں قائم تین مصالحتی مراکز میں اب تک 145 مقدمات بھیجے گئے جن میں سے 86 مقدمات کو کامیابی سے حل کیا گیا 30 مقدمات زیر سماعت ہیں، ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج سہیل ناصر نے ماڈل کورٹس کے حوالے سے بتایا کہ چھ اضلاع اٹک، چنیوٹ، وہاڑی، نارووال، لودھراں اور منڈی بہاؤالدین میں قائم ماڈل کورٹس میں 1781 کریمینل مقدمات کے ٹرائل مکمل کئے گئے ، جن میں 485 قتل، 771 نارکوٹکس اور 525 دیگر مقدمات شامل ہیں، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر چار مزید اضلاع راولپنڈی، جہلم، بہاولنگر اور مظفر گڑھ کو بھی پائلٹ پراجیکٹ میں شامل کیا جارہا ہے اور ان چار اضلاع میں سول مقدمات کے حوالے سے بھی ماڈل کورٹس قائم کی جارہی ہیں۔سمپوزیم کے اختتام پر ماڈل کورٹس کے ججز کو تعریفی اسناد بھی دی گئیں۔

چیف جسٹس

مزید :

صفحہ اول -