قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 78

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 78
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 78

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس مشاعرے میں کہنے لگے کہ طبیعت علیل ہے ۔ کچھ پڑھنے کو جی نہیں چاہ رہا۔ لیکن حاضر ہوئے ہیں تو پانچ شعر عرض کروں گا۔ پھر پنڈت جی نے کہا کہ مولانا پانچ شعر کہتے ہوئے ذرا اپنا جثہ تو دیکھئے مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے ہاتھی مینگنیاں دینے لگا ہے ۔ اس پر بھی وہاں بہت قہقہہ پڑا۔
اب علامہ صاحب حسب ضرورت پیر بھی بن جاتے تھے اور مرید بھی۔ یہ پیر تووہاں بنتے تھے جہاں کسی سے کچھ لینا ہواور مرید بھی وہاں بنتے تھے جہاں سے کچھ لینا ہو۔ پیری کی بات تو سیدھی ہے کہ کوئی شخص جتنا سیدھا سادہ ہو گا وہ پیر کی باتوں میں آجائے گا تو یہ یوپی اور دہلی وغیرہ کے بعض علاقوں میں پیر بھی بنے ہوئے تھے اور وہاں جا کر اپنے مریدوں سے نذر و نیاز لیا کرتے تھے۔ لیکن ہم نے انہیں ایک بار مرید بنتے ہوئے بھی دیکھا۔

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 77 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہ اس وقت کی بات ہے جب یہ پاکپتن کے ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے۔ جس میں کنور مہندر سنگھ بیدی اور بمبئی کے ایک دوسرے شاعر بھی شرکت کر رہے تھے۔ یہ مجھے کہنے لگے ’’ قتیل صاحب دیوان قطب جو یہاں کے متولی ہیں ،میں اس سے ملنا چاہتا ہوں کیونکہ ہم اس درگاہ کے مرید ہیں کیونکہ ہماری پیری کا شجرہ نسب ان سے ملتا ہے ۔ اس لئے میرا ان کے پاس جانا باعث ثواب ہو گا‘‘
بمبئی کا دوسرا شاعر جس کا نام اب مجھے یاد نہیں وہ میں اور علامہ انور صابری نے دیوان صاحب سے فون پر رابطہ کیا۔آجائیے۔ چنانچہ ہم ان کے پاس تینوں ایک ساتھ پہنچے۔
میں اور انور صابری دیوان صاحب کے پاس اندر کمرے میں بیٹھے تھے جبکہ وہ بمبئی والا شاعر اس کے ساتھ دالان میں بیٹھا تھا۔ وہاں جا کر میں نے علامہ کی اداکاری دیکھی۔یہ جاتے ہی دیوان صاحب کے سامنے ان کے قدموں میں سجدے میں گر گئے۔ دیوان صاحب نے کہا’’ علامہ صاحب اٹھیئے یہ کیا کر رہے ہیں‘‘
یہ کہنے لگے ’’ نہیں صاحب یہ تو ہمارا پیر خانہ ہے ۔ مجھے یہاں سے مت اٹھائیے ‘ مجھے جی بھر کے اپنا سر ان قدموں میں رکھ لینے دیجئے‘‘ خیر بڑی مشکل سے انہیں اٹھایا گیا۔ جب اٹھے تو میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور کہہ رہے تھے کہ بڑی مدت کے بعد میری خواہش پوری ہوئی ہے اور آپ کی قدم بوسی سے میرا سینہ روشن ہو گیا ہے۔
خیر باتیں ہوتی رہیں اور میں سوچتا رہا کہ یہ بندہ آخر یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے۔ آخر یہ بات بھی کھل گئی ۔ یہ اٹھنے سے پہلے دیوان صاحب سے کہنے لگے ’’ حضرت آپ ہمارے والی درگاہ کو جانتے ہیں ‘‘
انہوں نے کہا ’’ مجھے تو معلوم نہیں‘‘ کہنے لگے’’ ہم تو آپ کے مریدوں میں سے ہیں اور وہاں بھی آپ ہی کا سلسلہ فیض چلا ہوا ہے۔ اس درگاہ کے متولی ہم لوگ ہیں۔ ہماری اس درگاہ پر ہر سال عرس کے سلسلہ میں جو قوال آیا کرتے تھے۔ وہ اب پاکستان آچکے ہیں اور اب جب انہیں پتا چلا ہے کہ میں یہاں آیا ہوا ہوں تو وہ میرے پاس آنا چاہتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اب وہ آئیں گے تو اسی توقع پر آئیں گے کہ میں انہیں کچھ دوں گا ۔ اب میں تو یہاں مشاعر ے کے سلسلے میں آیا ہوں۔ اب مجھے یہاں سے کیا ملے گا اور میں ان کی نذر کیا کروں گا۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس سلسلے میں میری رہنمائی کریں‘‘
انہوں نے اپنی جیب میں سے پانچ سو روپے کا نوٹ نکالا اور کہنے لگے ’’ آپ انہیں یہ نوٹ دے دیجئے گا‘‘ میں دل ہی دل میں بہت ہنسا اور کہا ’’ علامہ صاحب یہاں جو مرید بنے ہیں اور بے غرض نہیں تھا ۔ انہیں مرید بننے کے پانچ سو روپے مل گئے ہیں‘‘
اس موقع پر لطیفہ یہ ہوا کہ یہ بار بار دیوان صاحب سے کہتے تھے ’’ حضور میں تو اس درگاہ کا کتا ہوں‘‘ اب وہ بمبئی کا شاعر علامہ صاحب کے بہت بے تکلف تھا وہ اسل میں امروہہ کا تھا اور امروہی کہلواتا تھا ۔ جب انہوں نے اندر بہت دیر لگا دی تو اس نے وہیں سے آواز دی ’’قتیل صاحب اب اس کتے کو باہر بھی نکالئے بہت دیر ہو رہی ہے‘‘ یہ بات علامہ نے بھی سن لی تھی مگر پی گئے اور کہنے لگے ’’ اچھا حضور اجازت دیجئے ‘‘اور پھر اسی طرح اپنی چرب زبانی کا مظاہرہ کرنے لگے۔ یوں ہم وہاں سے چلے آئے۔
اس کے بعد جب شام کو ہمیں مشاعرے کے منتظمین کی طرف سے معاوضہ ملا تو پتا چلا کہ علامہ صاحب کو دیوان سے جو پانچ سو روپے ملے تھے وہ نوٹ کہیں کھو گیا ہے ۔ ہم بہت حیران ہوئے اور پھر علامہ صاحب کہہ رہے تھے کہ بے شک قتیل صاحب سے پوچھ لیجئے ان کے سامنے میرے پاس پانچ سو روپیہ تھا۔ دیوان غلام قطب نے یہ نوٹ ہمیں نذر کیا تھا حالانکہ انہوں نے دیوان صاحب سے بھیک مانگی تھی۔ مگر اب یہاں کہہ رہے تھے کہ دیوان صاحب نے وہ نوٹ ہمیں نذر کیا تھا۔ اب مشاعرے کے منتظمین نے شرمندگی کے عالم میں معاوضے کے علاوہ جو کچھ اور بھی بن سکا وہ انہیں دیا۔
ان کے بارے میں ایک لطیفہ اور ہے۔ یہ محض لطیفے کی حد تک ہے اس میں حقیقت تو نہیں ہو گی۔ ایک بار کسی سے کہنے لگے کہ دھوبی کو بلواؤ ہم اپنی شلوار دھلوانا چاہتے ہیں۔
چنانچہ دھوبی آیا اور ان کی شلوار اٹھانی شروع کی۔ وہ شلوار اٹھاتا ہی چلا گیا۔ جب وہ کافی دیر تک شلوار اٹھا تا رہا اور وہ ختم نہ ہوئی تو اس نے ان کی شلوار نیچے گراتے ہوئے کہا ’’ یا حضرت میں شلوار یں دھوتا ہوں کوئی تنبو نہیں دھوتا‘‘(جاری ہے )

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 79 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں