لازوال گیتوں کے خالق ،بے مثل شاعر قتیل شفائی کی آپ بیتی۔۔۔ قسط نمبر1
میں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ اس لحاظ سے قطعاً غیر ادبی اور اغیر علمی تھا کہ اس ماحول سے وابستہ لوگ ‘ جن میں میرا اپنا خاندان بھی شامل تھا‘ پیسے کے پیچھے بھاگ رہے تھے اور انہیں اس چیز کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ علم بھی زندگی کے لیے ضروری ہے اورعلم سے آگے بڑھنے والا ایک راستہ ادب کا بھی ہوتا ہے ۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب انگریز کا پرچم اپنی پوری شان کے ساتھ فضاؤں میں لہرار ہا تھا اور لوگوں کو غیر ملکی غلامی کے ماحول میں اور فکر کم ہوتی تھی پیسہ کمانے کی فکر زیادہ ہوتی تھی یا پھر سرکاری دربار میں رسائی حاصل کرنے کے مواقع تلاش کرنا ان کا مطمح نظر ہوتا تھا۔ میرے خاندان کا المیہ یہ تھا کہ ہر شخص تقریباً لکھ پتی تھا لیکن تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کوئی سرکاری دربار میں اوپر تک تو نہیں پہنچ سکا مگر ان پڑھ ہونے کے باوجود مقامی میونسپلٹی کی پریذیڈنٹ شپ تک ان لوگوں میں سے گئے۔
میں جب پیدا ہوا تو اس وقت مجھ سے پہلے گھر میں کوئی اولاد نہیں تھی۔ معاملہ یہ تھا کہ میرے باپ نے جب پہلی شادی کی تو کافی عرصہ تک کوئی اولاد نہ ہوئی۔ خاندان کے اور گھریلو مشورے سے انہیں مجبوراً دوسری شادی کرنا پڑی جس سے 24 دسمبر 1919 ء کو میں اپنے آبائی گاؤں ہری پور ہزارہ میں پیدا ہوا۔ چونکہ یہ میرے والد کی پہلی اولاد تھی اس لئے میری پیدائش پر بہت جشن منایا گیا۔ میری تولید کے تین سال بعد میری بہن پیدا ہوئی اور خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اسی دوران پہلی ماں سے بھی ایک بچہ ہو گیا اور وہ ہمارے گھر میں آخری بچہ تھا۔ گویا ایک ماں سے دو اولادیں ہوئیں اور دوسری ماں سے ایک جن کی کل تعداد تین بنتی ہے ۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی۔
میرے والد کی دوشادیوں میں کوئی معاملہ معاشقے‘ آوارہ گردی یا عیاشی کا نہیں تھا بلکہ ایک ضرورت کے تحت میرے والد نے دو شادیاں کی تھی‘ اس لئے گھر یلو ماحول پرُسکون رہا اور دونوں مائیں ایک دوسرے کا احترام کرتی تھیں اور ایک دوسرے کے بچوں سے بھی پیار کرتی تھیں۔ اس کے باوجود ظاہر ہے کہ دوشادیوں کی قباحتیں اپنی جگہ ہیں۔ کبھی کبھی وہ پہلو بھی سامنے آجاتا تھا لیکن عام طو ر پر حالات خوشگوار ہی رہے‘ سوائے اس کے میرے والد گھریلو اخراجات اور ضرورتوں کے بڑھنے کی وجہ سے کاروبار اور محنت کا سلسلہ بڑھانے پر مجبور تھے اور اس کے علاوہ انہیں ایک اور طرف جانا پڑ گیا جسے ہم شرفاء کی زبان میں ایک اچھا کام نہیں بھی کہہ سکتے اور وہ کام تھا کارنیوال۔
سیدھے لفظوں میں ہم اسے جو ا کہہ سکتے ہیں۔ یہاں میں یہ وضاحت کردوں کہ ہراچھائی اور برائی کی کچھ سطحیں ہوتی ہیں۔ ایک اچھائی کی سطح اتنی گہری ہوتی ہے کہ اچھائی ہونے کے باوجود ہم اسے پسند نہیں کرتے اور ایک برائی کی سطح اتنی بلند ہوتی ہے کہ وہ برائی زیادہ کھلتی نہیں۔
میرے والد کا حلقہ احباب متحدہ ہندوستان کے بڑے بڑے روسا کا تھا جو اپنے وقت میں بہت بڑے سرمائے کے ساتھ شغف کرتے تھے۔ ان کے ساتھ جنہوں نے کارنیوال کا کاروبار شروع کیا‘ اس میں میرے والد سمیت پارٹنر تھے۔ اس کاروبار میں انہیں اچھی خاصی آمدنی ہوتی تھی جو کہ پوری طرح جائز کمائی سے کہیں زیادہ ہوتی تھی۔
اس صورت میں میری پرورش ایک امیر انہ ماحول میں ہوئی اور میں نازو نعم میں پلا لیکن یہ ساری چیزیں ہونے کے باوجود راستے میں ایک قسمت کی دیوار بھی ہوتی ہے۔ بچپن ہی میں والد رخصت ہو گئے جن کے بل بوتے پر یہ ساری عیش و عشرت کی فضا قائم تھی۔ جب تک وہ زندہ رہے ۔ انہوں نے میری ہر خواہش پوری کی۔
پانچویں جماعت میں جب میں سکول میں بزم ادب کا سیکرٹری بن گیا تو انہوں نے میری پوری کلاس اور متعلقہ اساتذہ کو ایک اچھی خاصی دعوت دے ڈالی جیسے آجکل کوئی کونسلر منتخب ہو جائے۔ اسی طرح اس زمانے میں مجھے موسیقی کا شوق ہوا تو انہوں نے ایک گرامو فون اور اس سے متعلقہ چیزیں مجھے فراوانی سے مہیا کر دیں۔ پھر سیاحت کا شوق ہوا تو جہاں میں نے جانا چاہا۔ انہوں نے اس ہدایت کے ساتھ کہ اچھی کلاس میں سفر کرنا مجھے دوستوں کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی۔
ابتدا ہی سے میرے لئے مشہور تھا کہ میں خوش لباس‘ خوش گفتار اور خوش خوراک ہوں۔ یہ سب چیزیں مجھے اپنے والد کی طرف سے ملی ہوئی تھیں۔ انہوں نے میری تربیت کچھ اس رنگ میں غیر محسوس طور پر کی تھی کہ انہوں نے مجھے زندگی کا قرینہ اور مجلسی آداب سکھائے۔ جب انہیں محسوس ہوا کہ میرے اندر تھوڑا سا ادب کا شائبہ بھی ہے تو انہوں نے بہت سی ادبی کتابیں بھی مجھے مہیا کر دیں حالانکہ اس دور میں ادبی کتابیں بہت کم ہوتی تھیں۔ وہ الف لیلیٰ اور حاتم طائی وغیرہ کی کہانیاں اس بہانے مجھ سے پڑھاتے تھے کہ خود بہت کم پڑھے ہوئے تھے۔ اکثر مجھے کہتے کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لئے یہ کتاب مجھے پڑھ کر سناؤ اور یوں سننے کے بہانے وہ مجھے پڑھاتے تھے۔
شاعری کی صرف وہی کتابیں میرے ہاتھ آتی تھیں جو گورنمنٹ ہائی سکول ہری پور کی لائبریری میں میسر تھیں۔ اس زمانے کے گراموفون ریکارڈوں میں آج کی طرح گھٹیا شاعری نہیں ہوتی تھی بلکہ اساتذہ کا کلا م ہی ہوتا تھا۔ میرے پاس جو ریکارڈ تھے ان میں زیادہ تر غالب ‘ امیر مینائی اور ذوق کا کلام تھا ۔ زیادہ تر گانے والے اساتذہ ہی کا کلام گاتے تھے۔ میرے والد مجھے چن چن کرایسے ریکارڈ مہیا کرتے تھے جن میں شاعری کا ایک معیار ہوتا تھا اور یوں میری ذہنی پرورش ہوتی رہی۔
جب میں چھٹی کلاس میں تھا اور بزم ادب کا سیکرٹری بھی تھاتو سکول میں مضمون نویسی اور شاعری کا مقابلہ ہوا۔ اس مقابلے میں مجھے اپنی نظم پر انعام میں ایک کتاب ’’سوز بیدل‘‘ ملی۔ بیدل پشاور کے شاعر تھے۔ سکول کے ہیڈ ماسٹر خواجہ محمد اشرف تھے۔ وہ ہمارے کرایہ دار بھی تھے اور ان سے ہمارے گھریلو تعلقات بھی تھے۔ ان کی مجھ پر بڑی توجہ تھی اس لئے مجھے انعام ملنے پر وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی ۔میرے والد کی وفات کے وقت ہماری پوری فیملی میں پڑھے لکھے لوگ نہیں تھے اور انہیں بالکل احساس نہیں ہوا کہ اس لڑکے کو آگے جینا بھی ہے ۔ انہوں نے میری ماں کو مشورہ دیا کہ اب باپ کا سایہ سر پر نہیں ہے۔ اس لئے لڑکے کو کاروبار کروا دو۔اس وقت میرے دو تایا موجود تھے ۔ ایک تایا فاتر العقل تھے اور بڑی مدت سے پاگل چلے آرہے تھے۔ وہ گویا ایک سرپرست کے فرائض ادانہ کر سکتے تھے۔ دوسرے تایا بھی اکثر بیمار رہتے تھے۔ یہ دونوں ایک طرح سے ہماری فیملی کی ذمہ داری بن چکے تھے اور ان کی نگہداشت بھی ہمیں کرنا پڑتی تھی۔
میری ماں بہت سادہ عورت تھی اور بالکل ان پڑھ تھی۔ وہ بھی اس سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی جس میں باقی ساری فیملی ۔ اس وقت میری عمر تقریباً سولہ برس تھی۔ مجھے کہا گیا کہ کاروبار کرو ۔ کاروبار کے بارے میں مجھے کوئی تجربہ یا ٹریننگ نہ تھی۔ سب سے پہلے مجھے فٹ بال یاسپورٹس کی دکان کھول کر دی گئی اس لئے کہ سپورٹس سے میرا تعلق تھا۔ اس کاروبار میں کوئی فائدہ نہ ہوتا تھا کیونکہ مجھے دو کانداری کا کوئی تجربہ ہی نہیں تھا۔ تمام کاروبار پرانے کاروباریوں کے ہاتھ میں تھا۔ بلکہ سکول کے لڑکے آتے تھے اور چائے وغیرہ پی کر چلے جاتے تھے۔ جب اس کاروبار میں نقصان ہوا تو بچا ہوا مال کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دیا گیا۔ اس کے بعد مجھے سائیکلوں کی دوکان کھول کر دی گئی۔ اس لئے کہ نئی سائیکلیں فروخت کی جاسکیں گی اور پرانی کرایہ پر دی جا سکیں گی۔ مگر اس دوکان کا بھی پہلی دوکان جیسا ہی حشر ہوا۔ اس کے بعد کچھ رشتہ داروں نے مشورہ دیا کہ ایبٹ آباد میں بزازی کی دوکان کھولنی چاہیے۔ اب اس طرح کے کام بڑی ٹریننگ چاہتے ہیں بلکہ اگر فیملی میں یہ کام پیچھے سے چلا آتا ہو تو یہ کاروبار ہو سکتا ہے ۔ چنانچہ ایبٹ آباد میں بزازی کی دکان صرف تیرہ دن چلی اور اس کے بعد بند کر دی گئی۔ کیونکہ اس تمام عرصے میں ایک گاہک بھی نہ آیا تھا۔(جاری ہے)