لازوال گیتوں کے خالق ،بے مثل شاعر قتیل شفائی کی آپ بیتی۔۔۔ قسط نمبر2
میونسپلٹی میں ہمارے ایک قریبی رشتہ دار سپرنٹنڈنٹ تھے۔ انہوں نے کہا کہ بیٹا میونسپلٹی میں محرر ہو جاؤ اور میں تمہیں بہت جلد ترقی دلوا کر بڑے عہدے تک پہنچا دوں گا۔ مزید کہا کہ تمہارا بچا ہوا روپیہ میں اپنے کاروبار میں لگا دیتا ہوں۔ تمہیں ادھر سے بھی فائدہ ہو گا اور ادھر سے بھی۔ دراصل ان کے مقاصد کچھ اور تھے۔ میں تو میٹرک بھی پا س نہیں کر سکا تھا‘ وہ مجھے ترقی دلوا کر انسپکٹر کیسے بنوا دیتے ۔ لیکن وہ اپنی پلاننگ میں کامیاب ہوئے اور میں ناکام۔
خیر!میں میونسپلٹی میں محرر کی حیثیت سے ملازم ہو گیا مگر میرے آفیسرز کو ایک چیز کھلتی تھی۔ بات یہ تھی کہ میرے والد کے زمانے کے بہت سارے سوٹ پڑے ہوئے تھے ۔ آمدن بھی ٹھیک ہی رہی تھی۔ دو ‘تین مکانات بھی تھے اور جس مکان میں ہم رہتے تھے وہ اس زمانے میں ہری پور میں مسلمانوں کے مکانوں میں سب سے بڑا تھا۔ اب تو وہاں پر ماشاء اللہ بڑی ترقی ہو گئی ہے۔ کچھ ہندوؤں کے مکانات البتہ ہمارے مکان سے بڑے تھے ۔ میں جب دفتر میونسپلٹی میں جاتا تو والد کے زمانے کے وہی قیمتی سوٹ پہن کر جاتا اور ننگے سر رہتا حالانکہ اس زمانے میں سب لوگ سرپر ٹوپی پہنتے تھے۔
گھنگرو ٹوٹ گئے۔۔۔لازوال گیتوں کے خالق ،بے مثل شاعر قتیل شفائی کی آپ بیتی۔۔۔ قسط نمبر1 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شاعری کا جو شوق تھا اس کی وجہ سے ایک انا بھی تھی کہ میں بھی کچھ ہوں۔کچھ لوگوں کو یہ برا لگتا تھا۔ چنانچہ اسی چھوٹی سی بات پر کہ یہ ننگے سرکیوں پھرتا ہے اور ہم سے اچھا لباس کیوں پہنتا ہے‘ کچھ جھگڑے بھی ہوئے اور ایک بار مجھ پر اور میرے تین ساتھیوں پر ایک ناجائز مقدمہ بھی بنا دیا گیا جس کی وجہ سے ہم ایک ماہ سے زائد عرصہ تک حوالات میں بند رہے۔ بالآخر بڑی آبرو کے ساتھ ہم حوالات سے نکلے اور وہ ایڈمنسٹر یٹر جنہوں نے جھوٹا مقدمہ بنایا تھا ان کے خلاف کارروائی کی اور وہ وہاں سے ٹرانسفر ہو گئے۔
اس واقعہ کے بعد میں نے سوچا کہ اب ہری پور کو خدا حافظ کہنا چاہیے کیونکہ نوکری بھی بہت معمولی تھی اور پھر یہ بھی خدشہ تھا کہ اس سے ایک تو اپنی شخصیت مسخ ہو جائے گی۔ دوسرے آئندہ بھی اس طرح کا سلوک ہوتا رہے گا ۔ اس لئے میں وہاں سے راولپنڈی چلا گیا۔
ٹرانسپورٹ کمپنی میں ملازمت
شاعری کے پودے کی آبپاری راولپنڈی میں ہوئی اور یہ درخت کی شکل اختیار کرنے لگا۔ وہاں زمانے میں تلوک چند محروم‘ عبدالعزیز فطرت‘ انجم رومانی‘ جگن ناتھ آزاد‘ احمد ظفر‘ جمیل ملک اور حسن طاہر جیسے لوگ موجود تھے۔ ان کے علاوہ وہاں میری ملاقات اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا صاحب سے بھی ہوئی جو طب اور علمیت دونوں ہی میں بہت فاضل تھے۔ شفا صاحب میرے رشتہ دار بھی تھے۔ ان سب لوگوں کی محفلیں کام آئیں۔
روزگار کا سلسلہ یوں چلاکہ میں نے پنڈی‘ مری ٹرانسپورٹ میں دوسری نوکری بطور بکنگ کلرک کر لی۔ میرے والد بہت سازیور اور نقد روپیہ چھوڑ گئے تھے اور ہم تین بہن بھائیوں کیلئے وہ انتظام کر گئے تھے کہ ساری چیزیں افرا ط سے موجود تھیں بلکہ وہ برتین جو دعوتوں کیلئے کام آسکتے تھے وہ بھی گھر میں موجود تھے اور یہ سب کچھ تین چار برس میں میرے ہاتھوں ضائع ہوا کیونکہ میرے اوپر کوئی کنٹرول نہیں تھا اور لواحقین کی نیتیں بھی ٹھیک نہیں تھیں۔ چنانچہ وہ سب کچھ ضائع کرنے کے بعد میں راولپنڈی آگیا۔
یہاں بھی ہمارے دو مکانات تھے۔ لیکن والد صاحب کا اثاثہ میرے ہاتھوں ضائع ہوتا رہا مگر بغیر کسی عیب کے۔ کیونکہ مجھ میں کوئی عیب نہیں تھا۔ سوائے اس کے کہ اگر کوئی دوست آجاتا تو میں شاہ خرچی کرتا تھا۔ جو تین کاروبار کیے ان میں بھی کافی روپیہ ضائع ہوا۔ غرض جب پنڈی آیا تو اس وقت میرے تین بچے تھے۔ میری پھوپھی یہیں رہتی تھیں۔ دونوں مائیں ہری پور ہی رہ گئیں۔ یوں میں اور میرا کنبہ راولپنڈی آکر پھوپھی کے گھر میں مقیم ہوئے کیونکہ یہ بھی ہمارا اپنا ہی گھر تھا۔
میرے والد دس جون 1935 ء کو فوت ہوئے تھے اور 1936 ء کے آخر میں میری شادی ہو گئی تھی۔ شادی کا قصہ بھی عجیب ہے۔ ان پڑھ ماحول میں لوگوں کو ابتداء سے ہی صرف بچے کی شادی کی فکر ہوتی ہے۔ بچوں کی تعلیم کی یا کسی ٹریننگ کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ شادی کے وقت میں میری عمر کوئی سترہ سال ہو گی۔ یہ شادی ایسے ہوئی کہ نہ مجھے علم تھا کہ شادی کہاں ہو رہی ہے اور نہ میری بیوی کو علم تھا کہ اس کی شادی کس سے ہو رہی ہے۔ دراصل ہوایوں کہ میرے گھر ایسے لوگ پڑ گئے جو نہیں چاہتے تھے کہ میری شادی وہاں ہو۔ اس لئے میری شادی بغیر کسی پہلے سے طے شدہ پروگرام کے ایک دوسری جگہ ہو گئی۔
اب جب میں روزگار کا مارا ہوا پنڈی گیا تو وہاں ایک حکیم صاحب کے بیٹے میرے اچھے دوست تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کوئی سروس کر لیں اور اگر کہیں تو پنڈی مری ٹرانسپورٹ میں ساٹھ روپے ماہانہ کی نوکری دلوادوں۔میری پہلی نوکری میں تنخواہ بائیس روپے ماہانہ تھی۔ اس لئے یہ نوکری ملنے سے کافی ریلیف ملا۔ علاوہ ازیں پنڈی میں کچھ مشاعروں وغیرہ کا بھی معاملہ ہو جاتا تھا۔ یہ زمانہ بڑی محنت کا زمانہ تھا۔ محنت تو خیر میں نے ساری زندگی کی ہے اور اپنا وقت ہمیشہ کار آمد طریقے سے خرچ کیا ہے۔
پھوپھی کے ساتھ ہم جس مکان میں رہتے تھے۔ اس میں زیادہ گنجائش نہیں تھی۔ اس لئے میں نے اپنے مکان کے ساتھ ایک بیٹھک لے رکھی تھی۔میرے پنڈی کے ادیب دوست وہیں اکٹھے ہوتے تھے۔ ہم وہاں کم ازکم رات کے بارہ بجے تک بیٹھتے تھے۔ شاعری کے دور چلتے تھے بلکہ کبھی کبھی گانے بجانے کی محفلیں بھی ہوتی تھیں۔ اس کے بعد جب میں یہاں سے فارغ ہو کر گھر جاتا تو مشق سخن کرتا تھا ۔دواڑھائی گھنٹے سونے کے بعد میں بس سٹینڈ پرجاتا تھا کیونکہ چھ بجے مجھے پہلی بس مری کیلئے روانہ کرنی ہوتی تھی۔ نیند کی کمی دن میں تھوڑا بہت سو کر پوری کر لیتا تھا۔(جاری ہے)