لازوال گیتوں کے خالق ،بے مثل شاعر قتیل شفائی کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 9

لازوال گیتوں کے خالق ،بے مثل شاعر قتیل شفائی کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 9
لازوال گیتوں کے خالق ،بے مثل شاعر قتیل شفائی کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 9

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مجھے اندر سے احساس ہوتا کہ جو کر رہا ہوں وہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اس وقت میرے تین بچے تھے۔ میں نے اس معاملے میں کبھی تماش بینوں والا رویہ اختیار نہیں کیا۔ انہوں نے مجھے اپنے حالات اور بے سہارگی کے بارے میں بتایا تھا اور میں نے بھی انہیں بتادیا تھا کہ میری بیوی اور تین بچے ہیں اور میں ان پر یہ حالات اثر اندازنہیں ہونے دینا چاہتا۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے مجھے تو ایک Shelter چاہیے‘ اس کے بعد بات شیلٹر سے آگے بڑھ گئی‘ پھر مطالبے شروع ہوئے کہ بیوی سے الگ ہو جاؤ اور اسے طلاق دے دو۔ دراصل وہ اپنے علاوہ اور کسی کو میرے قریب نہیں آنے دیتی تھیں اور خود مسلمان بھی ہو گئی تھیں۔ لیکن تقسیم کے کوئی ڈیڑھ سال بعد ان سے علیحدگی ہو گئی۔
چونکہ یہ زندگی کا اور رومانس کا پہلا واقعہ تھا اور اس میں شکست و ریخت بھی ہوئی اس لئے اس کا میری زندگی پر بہت اثر پڑا۔ میں ذہنی طور پر اتنا ڈسٹرب ہوا کہ بہت دیر تک سنبھل نہیں پایا لیکن مجھے بہت سے موضوعات مل گئے۔ اس زمانے کی شاعری ایک نئے رخ پر آگئی اور یہ شعور پیدا ہوا کہ یہ محبتیں کیسے پیدا ہوتی ہیں۔

لازوال گیتوں کے خالق ،بے مثل شاعر قتیل شفائی کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 8 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
انہوں نے تقسیم سے پہلے جب مجھے دیکھا تو اس وقت انہیں میر امستقبل بڑا شاندار نظر آرہا تھا۔ اس زمانے میں میری اس پروڈکشن کیلئے جو دو گیت ریکارڈ ہوئے تھے ان کا بہت شہرہ ہوا تھا کہ ایک شخص نیا انداز لایا ہے۔ اگر تقسیم نہ ہوتی یا تبادلہ آبادی نہ ہوتا اور وہی پروڈکشنز موجود رہتیں تو میں بہت آگے بڑھتا لیکن تقسیم کے بعد روزگار کا معاملہ آگیا اور انہوں نے کوٹھی‘ گاڑی اور عیش و عشرت کے بارے میں جو سوچا تھا وہ پورا نہ ہوا‘ سو وہ بددل ہو گئیں ۔ پھر ان کی طرف سے جو مطالبات تھے وہ میں پورے نہ کر سکا‘ اس طرح جو علیحدگی ہوئی اس نے میری شاعری کو ایک پس منظر دیا اور میں روایتی شاعری سے ہٹ کر جذباتی شاعری کرنے لگا۔
اس کے کافی عرصہ بعد اقبال بانو سے ملاقات ہوئی اور ملاقاتوں کا یہ سلسلہ ساڑھے تین یا چار سال چلا اور اس نے مجھے ایک موضوعی نظموں پر مشتمل ایک پوری تصنیف ’’مطربہ‘‘ دی۔ اگر کوئی شخص مجھے تھوڑا سا بھی جانتا ہو تو اس تصنیف سے میری ساری پہچان ہو جاتی ہے ہر چند کہ یہ چیزیں بیانیہ نہیں ہوتیں بلکہ ادب پارے ہوتے ہیں جن میں ذاتی ٹچ بھی ہوتا ہے۔
یہ تمام چیزیں میری بیوی نے اپنے اوپر جھیلیں اور اس پر میں کوئی فخر بھی نہیں کرتا۔ اور سمجھتا ہوں کہ یہ سب میرے دامن پر داغ ہیں جو آگئے ۔ میری بیوی کو اذیتیں تو ہو ئیں لیکن اس نے لڑائی جھگڑے کے باوجود ایسا نباہ کیا کہ جب میں عمر کے اس حصے میں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھتا ہوں تو بڑی شرمندگی ہوتی ہے۔ اس کی عظمتیں سامنے آتی ہیں اور اپنی لغزشوں سے شرمسار ہوتا ہوں۔
ایک بات میں نے ذمہ داری سے نبھائی کہ جس حال میں بھی رہا سب سے پہلے اپنے گھر پر توجہ دی اور گھر کی سب ضرورتیں پوری کر کے ہی کوئی اور کام کیا۔ اس کے علاوہ زندگی میں کئی ایسے مواقع بھی آئے کہ میرے گھر سے دور ہونے کے امکانات تھے۔ مگر میں ثابت قدم رہا۔ بعد میں ان کرداروں سے جب اگلے لوگوں کی وابستگیاں ہوئیں اور میں نے ان کا حشر دیکھا تو مجھے ہنسی آئی کہ میری بلا ان کے گلے پڑ گئی ہے اور میں اپنے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ بالکل ٹھیک بیٹھا ہوں اور اس عمر میں جبکہ سکون کی ضرورت ہے ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا ہوں۔
دل توڑنے والے دیکھ کر چل
پاکستانی فلم انڈسٹری میں 1956 ء انور کمار پاشا کے عروج کا زمانہ تھا ۔ ان کی فلموں میں لکھنے والوں کا ایک اجتماع ہوا کرتا تھا اور شاعری پر خصوصیت سے توجہ دی جاتی تھی۔ ان کی کوئی فلم ایسی نہیں تھی جس میں کوئی سپرہٹ گانا نہ آئے۔ اس زمانے میں جو واقعی شاعر تھے اور جنہیں شاعر کہنا چاہیے نغمہ نگار نہیں‘ وہ تنویر نقوی‘ سیف الدین سیف اور میں تھے۔ ہم تینوں پاشا صاحب کے قریبی لوگوں میں شمار کئے جاتے تھے ور کبھی ان کیلئے پوری فلم اور کبھی مل کر لکھتے تھے۔ اس طرح ایک مسابقت کا سلسلہ تھا۔ اگر میرا گیت ہٹ ہو جاتا تو تنویر صاحب کو شش کرتے تھے کہ اس سے آگے بڑھیں اور اگر سیف صاحب کا کوئی گانا ہت ہو جاتا تو میں اس پر رشک کرتا اور کوشش کرتا کہ میں ان سے آگے نکلوں ‘ فلم ’’گمنام‘‘ کا ایک گیت تھا:
پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے
یہ گیت سیف صاحب نے لکھا اور اقبال بانو اس کی گائیکہ تھیں‘ اس گیت کی شہرت بہت دور دور تک پہنچی ۔ مجھے یہ Haunt کرتا تھا اور میں سوچتا تھا کہ کاش ایسا ہی ایک گیت میں بھی لکھوں اور سیف صاحب کے ہمدوش قرار دیا جاؤں اس کے بعد فلم قاتل بنی تو اس کے گانے میں لکھ رہا تھا ۔ اس کے لئے ایک مشہور سی سچوایشن آئی جس کیلئے میں نے عام روشن سے خاصا ہٹ کر یہ گیت لکھا:
الفت کی نئی منزل کو چلا
تو ڈال کے بانہیں بانہوں میں
دل توڑنے والے دیکھ کر چل
ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں
اس گیت کی ہسٹری یہ ہے کہ جب یہ لکھا گیا اور چونکہ عام روش سے ہٹ کر تھا‘ اس لئے پاشا صاحب اسے سن کر قدرے خاموش رہے ۔ وہاں موجود پاشا صاحب کے مصاجین ان کے تیور دیکھ کر ہی داد دیا کرتے تھے اور اگر پاشا صاحب کوئی گیت سن کر خاموش رہتے تو وہ سمجھتے کہ انہیں یہ پسند نہیں آیا اور وہ بھی ناپسندیدگی کا اظہار کر دیتے تھے۔(جاری ہے )

لازوال گیتوں کے خالق ،بے مثل شاعر قتیل شفائی کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 10 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں