قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 62

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 62
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 62

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وہیں ہمیں سنیل دت کی سربراہی میں خاص طور پر ایک مندر میں لے جایا گیا۔ اس کے بارے میں روایت یہ ہے کہ یہ سرزمین ہندو یا پھر پوری دنیا کا پہلا مندر تھا۔ یہ ایک ایسی عمارت تھی جیسی کہ ہندو طرز تعمیر کی ایک پرشکوہ عمارت ہوتی ہے اور اندر سے اس کی سیڑھیاں نیچے جاتی تھیں۔ بہت نیچے جا کر ایک مندر آتا ہے جس میں مورتیاں سجی ہوئی ہیں اور پجاری بیٹھ کر پوجا کرتے ہیں۔ اندر لوہان اور صندل کی خوشبوئین مچل رہی تھیں۔ میں تو باہر کھڑا ہوا تھا لیکن سنیل دت ایک روشن خیال آدمی تھے۔ وہ مجھے ساتھ لے گئے اور کہنے لگے کہ یہ تو بھگوان کا گھر ہے اور سب انسانوں کے لئے ہے اس لئے آپ باہر کیوں رکتے ہیں ۔ آپ تو خود دیوتا اور شاعر ہیں اس لئے اندر آئیے ۔ وہ مجھے نہ صرف اندر لے گئے بلکہ اُس جگہ پر بٹھایا جہاں خاص آدمیوں کو بٹھایا جاتا ہے اور پوجا کی جاتی ہے ۔ میں نے ان کے ساتھ بیٹھ کر سارے رسم و رواج دیکھے۔
ویسے تو میں پہلے ہی ان کی عظمت کا قائل تھا لیکن اس سفر کے دوران اور وہاں قیام کے بعد ان کی ساری خوبیاں کھل کر میرے سامنے آئیں تو گویا اس سفر میں مشاعرے کے علاوہ روپ متی باز بہادر کی پوری داستان اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھی اور دنیا کا پہلا مندر بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ اس کے علاوہ کچلے کا شہد بھی زندگی میں پہلی بار دیکھا ۔ جس میں تھوڑی سی کڑواہٹ بھی تھی۔ اس کے علاوہ وہاں کے موسیقی کے گھرانے دیکھے اور پھر راستے میں میو چھاؤنی دکھائی دی۔ مجھے یاد آیا کہ جنگ کے زمانے میں ہمارے ایک عزیز وہاں ہوتے تھے کیونکہ اس زمانے میں فوجیوں کی نئی تقرریاں وہاں ہوتی تھیں۔ چنانچہ وہ چھاؤنی بھی دیکھی۔

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 61  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں واپس پاکستان آیا تو اپنے ہری پور کے عزیزوں سے کہا کہ میں وہ چھاؤنی بھی دیکھ کر آیا ہوں جہاں آپ کے بزرگ کام کرتے تھے ۔ تو ان کی بیوی مجھ سے پوچھنے لگیں کہ بتائیے وہ کس قسم کا شہر ہے ۔ جب میں نے آثار بتائے تو وہ کہنے لگیں بالکل ٹھیک ہے ۔
اندور کے مشاعرے کے بارے میں یہ بات بھی ہے کہ وہاں کے لوگ موسیقی سننے والے ہی نہیں بلکہ اچھے گوئیے بھی تھے اور برمحل داد دیتے تھے ۔ پھر گویا ہو یا شاعر داد اس کی کمزوری بن جاتی ہے اور وہ کھل کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس مشاعرے میں بھی ہزاروں آدمی تے اور لوگوں نے خوب سنا ۔ مشاعرہ بہت خوب رہا اور کہا جاتا ہے کہ یہ اندور کی تاریخ کا سب سے بڑا مشاعرہ تھا۔ اس کا سارا کریڈٹ سنیل دت صاحب کو جاتا ہے ۔ اس مشاعرے سے جتنی آمدنی ہوئی وہ رسالہ ’’فن اور شخصیت ‘‘ کو دی گئی۔ اس طرح ایک ادبی پرچے کی جائز مددبھی ہو گئی۔
میرٹھ میں نوچندی کا مشاعرہ
میرٹھ میں ہر سال ایک میلہ لگتا ہے جسے نو چندی کا میلا کہا جاتا ہے ۔ یہ میلہ ہمہ گیر قسم کا ہوتا ہے اور کئی دن تک رہتا ہے ۔ اس میں مختلف تماشے ‘ ناچ گانا اور رنگارنگ پروگراموں کے علاوہ ایک آل انڈیا مشاعرہ بھی ہوا کرتا ہے۔ اس میلے میں دور تک باقاعدہ بازار بنے ہوتے ہیں جن میں سے دنیا کی ہر چیز ملتی ہے۔ آس پاس کے لوگ دور دراز سے آتے ہیں اور وہاں آکر کھیل تماشے دیکھتے ہیں اور خریدو فروخت کرتے ہیں۔
مجھے بھی وہاں نوچندی کے ایک مشاعرے میں ایک بار جانے کا موقع ملا۔ میں دہلی گیا ہوا تھا جہاں میں اس مشاعرے میں شرکت کیلئے میرٹھ گیا۔ اس میلے میں ایک ہنگامہ برپا تھا اور ایسا ہی ہنگامہ مشاعرے میں بھی برپا تھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ دس بیس آدمیوں کی ایک ٹولی ایک طرف سے آتی ہے اندر جھانکتی ہے اور دوسری طرف سے باہر نکل جاتی ہے۔ کسی کو مشاعرہ پسند آتا تو بیٹھ جاتا ورنہ آگے چل دیتا۔ غرضیکہ لوگ یوں آجا رہے تھے جیسے یہ مشاعرہ نہیں بلکہ کوئی ورائٹی شوہو ۔ بہرحال ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ اگرچہ سامعین بدل رہے تھے لیکن داد اسی طرح چل رہی تھی۔ وہاں سے مجھے تین ساڑھے تین ہزار روپے کا جو معاوضہ ملا وہ بہت زیادہ رش ہونے کی وجہ سے کسی نے میری جیب سے نکال لیا۔ میں نے شرم کے مارے کسی کو بتایا بھی نہیں کیونکہ شاعروں سے ایسی بہت سی داستانیں وابستہ ہیں کہ وہ جھوٹ موٹ کی چوری کا بہانہ گھڑ کے دوبارہ معاوضہ بھی لے لیتے ہیں۔ اس لئے میں نے اس بات کا کسی سے ذکر نہ کیا۔ واپسی کیک لیے چونکہ گاڑی کا انتظام تھا۔ اس لئے چپکے سے میں واپس آگیا۔ یہ تلخ تجربہ میرٹھ میں ہوا۔
ایک اور تلخ تجربہ جے پور کے مشاعرہ میں ہوا۔ یہاں کا مشاعرہ بہت ٹھاٹھ کا تھا۔ اس میں بھی گائیڈ کنور مہندر سنگھ بیدی تھے۔ اصل میں ہم لوگ مشاعرے کے لئے انبالہ گئے تھے جہاں سے مجھے دہلی کلاتھ ملز کے مشاعرے کے لئے آنا تھا۔ ساتھ کچھ پاسکتانی شعراء تھے جن مین انور مسعود بھی شامل تھے۔ ان دو تین شاعروں کو ہم وطن ہونے کی وجہ سے میں نے پور کے مشاعرے کیلئے بک کروا دیا تھا۔ ہم وہاں گئے اور مشاعرہ پڑھا۔ یہ شکر کرتا ہوں کہ وہ وہاں اچھے رہے۔ وہ اچھے شعراء تھے میں نے تو صرف سفارش کی تھی۔ ویسے بھی میں ایسے لوگوں کی سفارش نہیں کرتا جو اچھا کلام نہ کہتے ہوں کیونکہ عزت کا سوال ہوتا ہے۔
وہاں ہمیں جو دھا بائی کے بھائی راجہ مان سنگھ کا محل دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ یہ راجہ اکبر اعظم کے سالے تھے ۔ یہ محل بہت بڑا تھا اور ہم نے سوچا کہ اگر راجہ مان سنگھ کا محل اتنا بڑا ہے تو شہنشاہ اکبر اعظم کا محل کتنا بڑا ہو گا۔ وہ محلوں کا شہر ہے اور وہاں اور بھی بہت سے راجاؤں کے محل ہیں۔ بازار سے گزریں تو دو رویہ ایسی عمارتیں ہیں جو محل ہی کا ایک حصہ دکھاتی دیتی ہیں۔
اس مشاعرے کے منتظم راہی شہابی تھے۔ ان کی خوبی یہ تھی کہ انہیں سو پچاس اشعار یوں ہی یاد ہوتے تھے۔ وہ نظم کے شاعر ہیں ‘ بڑی اچھی نظم کہتے ہیں اور پھر پوری کی پوری نظم زبانی سناتے چلے جاتے ہیں۔ بہت جوش ولولے سے کلام پڑھتے ہیں۔ ہمیں اس مشاعرے میں بہت سے راجستھانی شاعروں سے کلام سننے کا موقع ملا۔ اس مشاعرے میں ایک راجستھانی خاتون شاعرہ بھی شریک تھیں۔ یہ شروع میں راجستھانی زبان میں شعر کہتی تھیں لیکن بعد میں انہوں نے اُردو میں شعر کہنے شروع کئے۔ انہوں نے وہاں کمال کر کے دکھایا اور مشاعرے کو لوٹا۔
ایک شاعر سٹیج پر آئے اور انہوں نے مزاحیہ انداز میں کلام سنانا شروع کیا۔ ان کی نظم میں مشاعرے کے تقدس کے بارے میں کچھ نئے مضامین شامل تھے جن سے انہوں نے ثابت کیا تھا کہ مشاعرہ کوئی لہو و لعب قسم کی چیز نہیں ہوتی بلکہ یہ بڑے محترم اور مکرم لوگوں سے اظہار خیال کی جگہ ہوتی ہے اور بڑی مقدد جگہ ہوتی ہے۔ میرے ذہن میںیہ مضمون تھا جب یہ مشاعرہ ختم ہوا۔
مشاعرہ ختم ہوا تو میں نے انا جو تا تلاش کرنا شروع کیا لیکن وہاں میرا جوتا موجود نہیں تھا۔ اب جوتے کی روایت تو یہ ہے کہ:
اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہوشیار
اک بزرگ آئے ہیں مسجد میں خضر کی صورت
لیکن اب جوتے کی چوری کی بات مسجد سے نکل کر مشاعرے تک آگئی تھی۔ اب وہ جو شاعر ہ گاہ کو ایک مقدس جگہ بیان کر رہے تھے میرے ذہن میں ان کا خیال آگیا اور مجھے ان کی بات کا یقن آگیا کہ یہ مشاعرہ گاہ مسجد سے پیچھے نہیں ہے۔ وہاں سے بھی جوتے چرائے جاتے ہیں اور یہاں سے بھی جوتا چرایا گیا۔(جاری ہے )

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 63 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں