قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 42

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 42
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 42

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ممتاز مفتی
جب کوئی شخص نئے ابھرتے ہوئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تو وہ برسوں کا سفر مہینوں میں اور مہینوں کا سفر ہفتوں میں طے کر لیتا ہے ۔ اس کی حوصلہ افزائی ہو جاتی ہے اور وہ بلا جھجک آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ چنانچہ شعر و شاعری میں ڈاکٹر تاثیر‘ تاجور صاحب ‘ سالک صاحب‘ حفیظ ہوشیار پوری اور اپنے استاد احمد ندیم قاسمی کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی سے میں اس میدان میں آگے آیا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ شاعری سے پہلے میرا رجحان افسانہ نگاری کی طرف تھا اور میں اس حد تک افسانے لکھنے لگا تھا کہ انہیں دوسرے درجے کے افسانے کہا جا سکتا ہے۔ یہ افسانے ساقی دہلی اور سنگ میل کے علاوہ دوسرے ادبی پرچوں تک بھی پہنچ گئے تھے۔
میں نے ممتاز مفتی صاحب کی چند چیزیں پڑھی ہوئی تھیں اور میں نے دیکھا کہ میں جن موضوعات کو چھیڑتا ہوں اور انہی موضوعات کے قبیلے کے سرخیل ہیں۔ اس وقت تک میں شاعری میں ندیم صاحب سے استفادہ کر رہا تھا ۔ لیکن ندیم صاحب کا فسانوی کا انداز میرے رجحانات سے بالکل مختلف تھا۔ مفتی صاحب نفسیات کی بھول بھلیاں اور جنسی موضوعات زیر بحث لاتے تھے ۔ میرا ذہن بھی ادھر ہی تھا۔

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 41  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک دن میں نے سوچا کہ ممتاز مفتی صاحب سے مشورہ کروں ۔ میں نے ایک افسانہ لکھا اور مفتی صاحب کے پاس لے گیا اور کہا ’’ میں افسانے لکھ رہا ہوں اور آپ سے کچھ مشورہ لینا ہے۔ آپ میری رہنمائی کریں‘‘
کہنے لگا’’اچھا افسانہ سناؤ۔ یہ افسانہ چار یا پانچ فل سکیپ کاغذات پر مشتمل تھا‘‘
میں نے سنایا تو مفتی صاحب نے اس پر جس طرح رائے زنی کی وہ میری توقعات کے بر خلاف تھی کیونکہ وہ مجھ سے ہمیشہ مروّت سے پیش آتے تھے لیکن افسانہ سن کر مجھے کہنے لگے ’’ یار تم نے یہ افسانہ لکھا ہے‘‘
میں نے کہا ’’جی میں نے افسانہ ہی لکھا ہے ‘‘
کہنے لگے’’ نہیں ‘ یہ افسانہ نہیں ہے‘‘
میں نے کہا ’’ آپ اسے کیا نام دیں گے؟‘‘
کہنے لگے ’’ یہ کچھ بھی نہیں ہے ‘‘
میں نے کہا ’’ آپ کا کیا خیال ہے ۔ امپروومنٹ ہو سکتی ہے‘‘
کہنے لگے ’’ نہیں قطعاً نہیں ہو سکتی۔ اس میں کوئی گنجائش ہی نہیں‘‘ یہ سن کر میرا دل ٹوٹ گیا۔ لیکن میں نے ان کی رائے کو سچ مانا اس لئے کہ میں بطور نامور افسانہ نگار کے ان کا دل سے معترف تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ افسانہ واقعی اتنا ہی برا ہو گا جتنا یہ کہہ رہے ہیں۔ اس کے بعد میں نے وہی افسانہ کچھ اور لوگوں کو بھی دکھایا انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ پائے کا افسانہ نہیں ہے مگر پھر بھی اچھا افسانہ ہے ۔ اور اس میں تمام افسانوی ضرورتیں موجود ہیں۔
اصل بات یہ تھی کہ میں ان دنوں ویسے بھی یہ فیصلہ کر رہا تھا کہ میں ان دونوں اصناف ادب میں سے کونسی ایک رکھوں ۔ چنانچہ مفتی صاحب کے یہ کلمات میرے ذہن میں گونجتے رہے۔ ان کے ان کلمات سے میری کافی دل شکنی بھی ہوئی لیکن اس فیصلے میں بھی مدد ملی کہ میں شاعری اور افسانہ نگاری میں سے کونسی چیز اختیار کروں۔
شاید مفتی صاحب کو یہ واقعہ یاد بھی نہ ہو۔ لیکن مجھے بہر حال یاد ہے اور میں اب بھی سوچتا ہوں کہ انہوں نے یہ رائے دینے میں اتنی شدت کیوں اختیار کی۔ ورنہ بزرگوں کا قاعدہ تو یہ ہوتا ہے کہ نئے لکھنے والوں کو سمجھاتے ہیں مگر بات لیکن سے شروع کرتے ہیں اور پھر اصل مقصد تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد میں نے افسانہ نگاری کو خیر باد کہا او ر شاعری کی طرف مکمل توجہ دی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈیا کا سفر
انڈیا میں نے بچپن میں بھی دیکھا تھا لیکن اس وقت میں بالکل بچہ تھا اور اس وقت کے واقعات مجھے اس طرح یاد ہیں جیسے خواب کے کچھ دھندلے دھندلے منظر ہوں۔ یہ میں اپنی پھوپھی ‘ پھوپھا اور ان کی بیٹی کے ساتھ گیا تھا۔ وہ ذرا پیر پرست قسم کے لوگ تھے اور مزاروں پر آتے جاتے تھے۔ انہیں اجمیر شریف‘ کلیر شریف‘ دہلی میں نظام الدین اولیاء کے مزار اور تاج محل جسے اس وقت تاج بی بی کا مزار کہا جاتا تھا ‘ پر جانا تھا ۔
اس کے بعد میرا انڈیا کا سفر 1952 ء میں ہوا۔ یہ تقسیم کے بعد میرا انڈیا کا پہلا سفر تھا۔ دہلی چیمسفورڈ کلب کا ایک مشاعرہ تھا جس میں پاکستان سے مجھے بلایا گیا تھا اور اس کے اہتمام کرنے والوں میں کنور مہندر سنگھ بیدی ‘ ساحر ہوشیار پوری اور جگن ناتھ آزاد تھے۔ چنانچہ میں دہلی گیا۔ یہ ہوائی جہاز میں بیٹھنے کا بھی میرا پہلا موقع تھا اور میں نے لاہور سے دہلی تک کا سفر ہوائی جہاز میں کیا۔
فوکر جہاز کے ذریعے دہلی پہنچا تو جگن ناتھ آزاد وہاں مجھے لینے کیلئے آئے تھے۔ ان سے مدت بعد ملاقات ہوئی۔ وہ میرے پرانے دوستوں میں سے تھے۔ انہوں نے میرے قیام کا بندوبست ساحر ہوشیار پوری صاحب کے گھر میں کیا تھا۔ یہ ایک بڑا گھر تھا اور کبھی اس میں جوش ملیح آبادی رہا کرتے تھے۔ یہ پل بنگش کے علاقے میں واقع تھا اور اب یہ جگن ناتھ آزاد صاحب کو الاٹ ہو چکا تھا اور انہوں نے اس کا کچھ حصہ ساحر ہوشیار پوری صاحب کو دیا ہوا تھا‘ جو وہاں رہتے تھے۔
ساحر ہوشیار پوری کا اصلی نام اوم پر کاش ہے ۔ لیکن ان کی دوسری شادی ایک مسلمان خاتون سے ہوئی تھی اور انہی کے ساتھ وہ وہاں رہ رہے تھے۔ ان کی دو سالیاں اپنے وقت کے مشہور ہیرو میاں نجم الحسن اور ایک بریگیڈ یئر صاحب سے بیاہی ہوئی تھیں‘ جو تقسیم کے بعد پاکستان میں رہ رہے تھے۔
میں دونوں کا مشترکہ مہمان تھا لیکن جگن ناتھ آزاد صاحب کے سٹڈی روم میں ایک پلنگ اور دو کرسیاں لگا دی گئی تھیں جہاں میں رات کو سوتا تھا۔ دن میں ویسے بھی سارا وقت دعوتوں میں گزر جاتا تھا۔
مشاعرہ ہوا۔ چیمسفورڈ کلب جگمگا رہا تھا اور ایک عجیب سماں پیش کر رہا تھا۔ دہلی میں بڑی آزادی کا زمانہ تھا اور اس کلب میں آنے والے سبھی لوگ پینے پلانے والے تھے۔ مشاعرے والوں نے کلب کے بارے کے علاوہ اپنے بار کا بھی بندوبست کر رکھا تھا۔ کیونکہ وہاں تقریباً نوّے فیصد شعراء پینے والے تھے ۔
میرے جانے سے یہ مشاعرہ ہندو پاک ہو گیا حالانکہ میں یہاں سے اکیلا ہی گیا ہوا تھا۔ جب کسی مشاعرے یا محفل موسیقی میں اس طرح پینے پلانے والے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں تو انہیں کوئی اچھی چیز ایک عام آدمی سے دس گنا زیادہ اچھی لگتی ہے یہ ماحول تھا اور لوگ خوب داد دے رہے تھے۔ دلیپ کمار صاحب سے بھی اس مشاعرے میں ملاقات ہوئی۔
لاہور میں کرفیو کے زمانے میں میں نے ریڈیو کے لئے ایک غزل لکھ کر جگن ناتھ آزاد صاحب کو دکھائی تھی۔ انہوں نے یہ غزل ناپسند کی تھی لیکن ریڈیو پر یہ غزل حاصل مشاعرہ رہی اور میرے اچھے تعارف کا ذریعہ بنی تھی۔ اس مشاعرے میں جب میری باری آئی تو میرے ذہن میں یہ غزل آئی ۔ میں نے کہا کہ میں آج کے وقت کو تھوڑا پیچھے لے جانا چاہتا ہوں اور وہی واقعہ بیان کیا البتہ جگن ناتھ آزاد صاحب کے نام کا حوالہ نہ دیا۔ اور کہا کہ اس روز بھی جگن ناتھ آزاد میرے ساتھ تھے اور آج بھی یہاں میزبان ہیں۔ اس لئے میں یہ غزل ان کی نذر کرتا ہوں:
تمہاری انجمن سے اٹھ کر دیوانے کہا ں جاتے
میں نے جب یہ غزل سنائی تو لوگوں نے ایک ایک شعر پانچ پانچ بار پڑھوایا اور جیسے یہ غزل لاہور میں میری شہرت کا باعث بنی تھی ‘ اس طرح دہلی میں بھی یہ میری شہرت کا باعث بنی اور اس مشاعرے کے بعد بیسیوں نامور شاعروں نے اس زمین میں غزلیں کہیں اور اسی غزل کو شکیل بدایونی جیسے شاعر نے چار فلموں میں اس کا چربہ کر کے استعمال کیا اور چنانچہ مجھے یہ فائدہ ہوا کہ مجروح صاحب نے اس بات کو ہوا دی کہ شکیل نے قتیل کی غزل چوری کر لی ہے۔ یہ بات اخبارات میں بھی آئی۔ اس طرح میرا تعارف ہوتے ہوتے اور زیادہ ہو گیا۔
اس سے تھوڑا عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میری ایک غزل تھی:
اک جام کھنکتا جام کہ ساقی رات گزرنے والی ہے
پاکستان میں یہ غزل ماسٹر غلام حیدر کی ٹیون میں نورجہاں کی آواز میں ریکارڈ ہونی تھی اور سید شوکت حسین رضوی کی فلم میں لی جانی تھی کہ اچانک ایک دن انڈیا کے ریڈیو سے سنا کہ ایک غزل لتا کی آواز میں گائی جا رہی تھی جس کی ردیف تھی‘ رات گزرنے والی ہے ۔ اب بعض ردیفین ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں ردیف ہی نمایاں ہوتی ہے۔ اگر وہ ردیف کسی اور جگہ استعمال کر لی جائے تو اصل غزل کی حیثیت ہی کوئی نہیں رہتی مثلاً
پریشاں رات ساری ہے ستارو تم سو جاؤ
اب اس میں ’’ستارو تم تو سو جاؤ‘‘ ایک بڑی دلکش ردیف ہے ۔ اگر فلم کی حد تک کوئی اور شخص ’’ستارو تم تو سوجاؤ‘‘ ردیف رکھ کے غزل ڈال لے تو قطع نظر اس کے کہ اس کے باقی مصرعے اس کے اپنے ہوں گے، یہ چوری کہلائے گی ۔ مجھے اس سے بہت صدمہ ہوا۔ میں نے ماسٹر غلام حیدر نے اور کچھ دوسرے ساتھیوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ چونکہ یہ ردیف آچکی ہے۔ اس لئے اب اس غزل کو روک لیا جائے۔ اس طرح فلم گلنار کی یہ غزل جس میں نور جہاں کی اس وقت کی آواز تھی،اور جس کی دھن بھی ماسٹر غلام حیدر نے بہترین بنائی تھی رہ گئی۔
میں نے اس واقعہ کے بعد راج کپور صاحب کو لکھا لیکن بعد میں پتا چلا کہ یہ چٹھی راج کپور صاحب تک نہیں پہنچنے دی گئی۔ اس دوران یہ بات اخبارات میں بھی آچکی تھی ۔ چنانچہ جب شکیل صاحب نے میری چوری کی تو یہ بات بھی اخبارات میںآگئی۔ میری ان چوریوں کی وجہ سے جب میرا بار بار نام آیا اور اس کے بعد میں بمبئی پہنچا تو کئی پارٹیاں میرے پیچھے پیچھے تھیں۔ کیونکہ وہ کہتے تھے کہ جس شخص کی یہاں چوری چلتی ہے ‘ اب جبکہ وہ خود یہاں آیا ہوا ہے تو اس سے اصل چیز کیوں نہ لی جائے۔ یہ 1952 ء کا واقعہ ہے ۔(جاری ہے )

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 43 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں