لازوال گیتوں کے خالق ،بے مثل شاعر قتیل شفائی کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر16

لازوال گیتوں کے خالق ،بے مثل شاعر قتیل شفائی کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر16
لازوال گیتوں کے خالق ،بے مثل شاعر قتیل شفائی کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر16

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گلڈ کے دستور کے مطابق کوئی شخص ایک عہدے پر دو سے زیادہ بار منتخب نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ دوسری ٹرم کیلئے بھی میں منتخب ہوا اگر چہ اس دوران میرے خلاف بڑی سازشیں بھی ہوئیں ۔ پہلی ٹرم میں جب میں سیکرٹری تھا تو ایوان صدر میں آدم جی پرائز کی تقریب منعقد ہوئی۔ جس میں گلڈ کے سیکرٹری جنرل شہاب الدین‘ دونوں صوبوں کے سیکرٹری جمیل الدین عالی اور دیگر انعام یافتگان مدعو تھے۔ صدر ایوب وہاں مدعو ہر شخص سے دو منٹ کیلئے ذاتی حیثیت میں بھی بات کرتے تھے۔ جس وقت میری باری آئی اور صدر صاحب نے مجھے اپنے پاس بٹھایا تو شہاب صاحب نے کہا کہ سرقتیل صاحب تو آپ کے ’’گرائیں‘‘ ہیں۔ تو صدر صاحب نے مجھ سے کہا کہ کہاں کے ہو بھئی۔ میں نے کہا ہری پور کا ۔ انہوں نے مجھ سے ہند کو میں پوچھا تھا جس پرمجھے چکر سا آگیا تھا کیونکہ مجھے تو لاہور میں آئے ہوئے مدت ہو چکی تھی اور میں ہند کو کو تقریباً بھول چکا تھا لیکن میں نے الفاظ سمیٹ کر پہلا جواب ہند کو میں دے دیا ۔ پھر انہوں نے ایک دو اور سوالات ہند کو میں پوچھے جن کے جوابات بھی میں نے بہر حال دے دیئے۔ پھر انہوں نے اُردو میں بات چیت شروع کی تو میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ وہ بڑے خوش تھے اور کہنے لگے کہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ تم ہری پور کے ہو لیکن تم نے پہلے کیوں نہ بتایا میں نے کہا جی ہری پور کا ہونا میرے لئے کوئی فخر کی بات نہیں ‘ ہر ی پور میں تو اور پچیس ہزار آدمی بھی رہتے ہیں ‘ مجھے تو اس بات پر فخر ہے کہ آپ صدر ہیں اور مجھے بطور شاعر جانتے ہیں اس سے وہ بہت خوش ہوئے۔

لازوال گیتوں کے خالق ،بے مثل شاعر قتیل شفائی کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر15  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اگرچہ صدرایوب مارشل لاء کے بانی تھے اور آج ہم جو کچھ بھگت رہے ہیں انہی کی مہربانیاں ہیں لیکن ذاتی حیثیت میں وہ بہت اچھے تھے اور ان میں کچھ خوبیاں بھی تھیں اور وہ یہ کہ وہ سچے آدمی تھے‘ جھوٹ نہیں بولتے تھے‘ اور اس کے علاوہ سچے دل سے محب وطن تھے انہیں طریق حکومت کا جوڈھانچہ ملا ہوا تھا ‘ اب ظاہر ہے کہ انہوں نے اس کے اندر رہ کر ہی کام کرنا تھا۔ ان کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ وہ منتقم نہیں تھے۔
اسی ملاقات کے دوران انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ بھئی کوئی کام ہو توبتاؤ۔ کسی شخص سے صدر صاحب کے اس سوال کا مطلب یہ تھا کہ یہ شخص مالا مال ہو جائے۔ لیکن میں نے کہا کہ ہمیں ایک رائٹرز کالونی چاہیے۔ انہوں نے مجھ سے درخواست لے کر شہاب صاحب کو دے دی۔ میں نے درخواست میں جگہ کی نشاندہی کی ہوئی تھی جو کہ وہ جگہ تھی جہاں آجکل ریواز گارڈن ہے کیونکہ ان دنوں یہ زمین خالی پڑی ہوئی تھی۔ ویسے بھی ادیبوں کیلئے یہ بڑی آئیڈیل جگہ تھی۔ لیکن اس کے بعد پتا نہیں چلا کہ یہ درخواست کہا گئی ۔ حالانکہ طریقہ یہ تھاکہ شہاب صاحب یہ درخواست اسی وقت ملٹری سیکرٹری کے حوالے کرتے اور اس پر آرڈر لکھا جاتا مگر انہوں نے نجانے درخواست کدھر کر دی تھی۔ بعد میں جب میں نے شہاب صاحب سے پوچھا تو کہنے لگے کہ پتا نہیں وہ درخواست کہا ں گئی میں نے تو وہ گورنر کو بھیج دی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ اس طرح کام نہیں ہو گا۔
یہاں سے رائٹرز کالونی کیلئے میری جدوجہد کا آغاز ہوا۔ چنانچہ میں اور میرے ساتھیوں نے جن میں رؤف شیخ اور مرحوم عبدالرشید تبسم تھے مل کر کو آپریٹو سوسائٹی بنائی۔یہ سوسائٹی ہم نے اپنے خرچ پر بنائی اور رائٹرز گلڈ پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا۔ سوسائٹی کی انکوائری کے لیے جب کوئی اہلکاران آتے تھے تو میں انہیں اپنے خرچ سے Entertain کرتا تھا۔ خداخدا کر کے ہم نے بہت تھوڑے عرصے میں یہ سوسائٹی منظور کروا لی۔ ہم نے اس کی ممبرشپ میں صاف لکھ دیا کہ یہ لاہور کے صرف بے گھر ادیبوں کیلئے ہے جن کے پاس پہلے سے کوئی پلاٹ ‘ مکان یا جائیداد نہیں ہے۔ اس سوسائٹی کے بہت سے ممبر بن گئے۔ ہم نے رائٹرز کیلئے اصولی طور پر ایک سو پلاٹ منظور کر وا لیے۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ نقوش والے مرحوم طفیل صاحب مجھ سے دو ووٹ زیادہ لے کر گلڈ کے سیکرٹری منتخب ہو گئے۔ مرحوم شروع سے ہمارے دوست اور ساتھی تھے لیکن انہوں نے یہ الیکشن بالکل سیاسی انداز میں لڑا اور اس پر ان کے کم از کم پچاس ہزار روپے خرچ ہوئے۔ وہ ووٹوں کیلئے جہاز میں بیٹھ کر پشاور‘ کراچی اور کوئٹہ بھی جاتے تھے اور گورنر سے سفارش بھی کرواتے تھے ۔ اس طرح وہ اپنے زمانے کے بالکل نواز شریف تھے۔ میں تو دو ووٹوں سے ہار گیا لیکن وہ اپنے ٹھیک ٹھاک کام دکھا گئے۔
رائٹرز کالونی کی کوآپریٹو سوسائٹی کی باڈی گلڈ سے الگ تھی لیکن میں اصولی آدمی تھا اس لئے میں نے کہا کہ میں ایک محاذ پر ہار گیا ہوں تو اب مجھے یہ باڈی بھی ان کے سپرد کر دنی چاہیے۔ مرحوم طفیل صاحب کی تمنا تھی کہ یہ سوسائٹی میرے پاس ہی رہے یا پھر ہم آدھے آدھے عہدیدار رکھ کر کام چلائیں۔ لیکن میں نے ان سے کہا کہ میں الیکشن میں ہار گیا ہوں اس لئے اب یہ سوسائٹی بھی آپ ہی چلائیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ بعد میں اس کا کیا حشر ہو گا۔
اس سوسائٹی کا بعد میں حشر یہ ہوا کہ وہ کالونی جو لاہور کے صرف بے گھر ادیبوں کے لئے تھی اس میں الاٹمنٹ ایسے ایسے لوگوں کو دی گئی جن کے دو دو مکانات پہلے سے موجود تھے۔ ان میں طفیل صاحب کے دوست ‘ رشتہ در ‘ پریس مین ‘ مشین مین‘ پبلشر اور جلد ساز بھی شامل تھے جن کا ادب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔
محمد طفیل
’’نقوش ‘‘ کے مالک و مدیر طفیل صاحب سے میرے تعلقات تقسیم ملک سے کوئی دو سال پہلے کے تھے وہ اور ان کے دوست لطیف فاروقی ایک بار ہر ی پور آئے تھے تو ایک ایسے موقع پر مجھ سے ملنے کیلئے آئے ئب میرے چھوٹے بھائی کی شادی تھی اور دعوت ولیمہ کا دن تھا۔ یہاں سے ان سے علیک سلیک شروع ہوئی۔ پھر جب میں لاہور آکر سیٹل ہوا تو ان سے پرانی دوستی پھر سے چلی۔ انہوں نے ادارہ فروغ اُردو کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا اور لطیف فاروقی کے ساتھ مل کر کتابیں شائع کرنا شروع کیں۔ بعد میں لطیف فاروقی پر اسرار حالات میں اس ادارہ سے علیحدہ ہو گئے اور طفیل صاحب تنہا اسے چلانے لگے اور ادارے کی طرف سے پہلی کتاب احمد ندیم قاسمی صاحب کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ’’کیسر کیاری ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ بعد میں ا نہوں نے قاسمی صاحب اور ہاجرہ مسرور کے تعاون سے ’’نقوش ‘‘ شروع کیا اور خود محض ایک پبلشر کے طور پر اس میں نظر آئے۔
پرچہ ’’نقوش ‘‘ ترقی پسند بنیادوں پر قائم کیا گیا تھا اور اس زمانے کا ایک اچھا خاصا ترقی پسند گروپ اس کے ساتھ تھا۔ اس لئے پرچہ کچھ اچانک آگے بڑھا مگر اسی دوران ہم نے سنا کہ پرچہ بند کر دیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ پر چہ بند رہنے کے بعد دوبارہ شروع ہوا تو یہ ترقی پسند ی کا لیبل لگائے ہوئے نہیں تھا بلکہ کچھ اور لائنوں پر چلنے لگا تھا۔ چنانچہ اس کے مدیر بھی کچھ اور لوگ ہی وقتاً فوقتاً مقرر ہوتے رہے۔
پھر ایک دھماکہ خیز خبر سنی کہ طفیل صاحب خوداس کے مدیر بن گئے ہیں اور اب وہی یہ پرچہ ایڈٹ کیا کریں گے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ نام تو طفیل صاحب کا چلے گا لیکن کام کوئی اور شخص کرے گا کیونکہ بعض دوسرے پرچوں میں یہی رسم چل رہی تھی۔ یہ تاثر ایک عرصے تک چلتا رہا لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس عرصے میں طفیل صاحب کے اندر ایک تخلیقی قوت بیدار ہو چکی تھی اور وہ خاص طور پر خاکہ نگاری کی صف میں بہت آگے نکل چکے تھے۔ چنانچہ جب ان کے خاکے منظر عام پر آئے تو انہوں نے لوگوں کو چونکا دیا۔(جاری ہے)

لازوال گیتوں کے خالق ،بے مثل شاعر قتیل شفائی کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر17 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں