قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 69

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 69
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 69

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بڑے لوگوں کے سامنے کلام
جن بڑے لوگوں کے سامنے مجھے کلام پیش کرنے کا موقع ملا‘ ان میں پنڈت جواہر لعل نہرو‘ خواجہ ناظم الدین اور مولانا ابوالکلام آزاد کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب انڈیا اور پاکستان میں اکثر ادھر ادھر مشاعرے ہوا کرتے تھے اور غالباًراجہ غضنفر علی کی مہربانی ہی سے یہ ہوتے تھے۔ وہ اکثر یہ کام کیا کرتے تھے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو خوشگوار بنایا جائے۔
دہلی کے جس مشاعرے کا میں اب ذکر کر رہا ہوں اس میں پاکستان کے سبھی سرکردہ شعراء موجود تھے۔ جن میں صوفی تبسم ‘ سالک صاحب اور کراچی سے ظریف جبل پوری ‘ سید محمد جعفری اور دیگر شعراء موجود تھے ۔ پنڈت نہرو کی جانب سے پاکستانی شاعروں کے اعزاز میں چائے کا بندوبست کیا گیا تو اس میں یہ سب شعراء گئے۔ یہ چائے پارٹی پنڈت صاحب کی رہائش گاہ پر منعقد ہوئی تھی۔ انہیں اُردو سے لگاؤ تھا کیونکہ وہ الہ آباد کے رہنے والے تھے اور موتی لال نہرو کے زمانے ہی سے ان کے گھر میں اُردو کا چلن تھا۔ ہر چند اس وقت ہندوستان کی سرکاری زبان ہندی ہو چکی تھی لیکن وہ باقیات وہ صالحات ذہنوں میں سے تھے اور اس کے تحت پنڈت جی نے یہ اہتمام کیا تھا۔

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 68  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وہاں سب لوگوں نے کلام سنایا ۔ پنڈت جی بڑی سنجیدگی سے کلام سن رہے تھے اور جہاں ضروری ہوتا سرہلادیتے تھے ۔ ان کا داد دینے کا انداز یہ تھا کہ ذرا زیر لب مسکرادیتے یا ذرا سر ہلا دیتے۔ میں نے جو غزل سنائی اس کا مطلع تھا:
مسجد کی اذاں ہو کہ شوالے کا گجر ہو
اپنی تو یہ حسرت ہے کسی طرح سحر ہو
پنڈت جی نے کچھ زیادہ سر ہلانے کی فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔ محفل ختم ہوئی تو چائے وغیرہ پی گئی ۔اس موقع پر پنڈت جی نے یونہی سر سری سا مجھ سے پوچھا ’’ آپ نے وہ سحر والا جو شعر پڑھا تو کیا آپ کی وہ حسرت پوری ہو گئی‘‘
میں اتنے بڑے آدمی کے سامنے کیا جواب دے سکتا تھا۔ اس زمانے میں تو ہم سب فیض صاحب سے لے کر نیچے تک یہی کہہ رہے تھے:
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
اب پنڈت جی کے سامنے تو یہ مصرع بھی دہرایا نہیں جا سکتا تھا۔ اس طرح ایک بڑے آدمی سے ہم کلام ہونے کا موقع ملا۔
اس کے بعد دہلی کے مشاعرے میں گئے تو سالک صاحب اس میں خاص طور پر یہاں سے مولانا ابوالکلام آزاد کے لئے قراقلی کھال ٹوپی کے لئے لے کر گئے تھے۔ انہوں نے لکھ بھی رکھا تھا کہ میں نیاز حاصل کرنے آؤں گا۔ مولانا آزاد اس زمانے میں وہاں وزیر تعلیم تھے۔ ظاہر ہے کہ سالک صاحب کے نام سے ان کا سیکرٹری واقف نہیں ہو گا۔ انہوں نے ایک آدھ بار ٹرائی کی تو فون پر ان کا رابطہ نہ ہو سکا۔ اس کے بعد ہم جوش صاحب کے ساتھ ملنے کے لئے گئے تو ان سے کہا کہ سالک صاحب کو مولانا الکلام آزاد سے ملنا ہے کچھ انتظام کیجئے۔ جوش صاحب کہنے لگے کہ کیا اس میں کوئی وقت ہے ۔ وہ اپنے خاص انداز میں بولتے تھے۔
ہم نے کہا کہ وقت تو ہے ۔ انہوں نے فوراً فون اٹھایا اور مولانا آزاد کے سیکرٹری سے کہا کہ ہم جوش بول رہے ہیں۔ مولانا سے ملوائیے ۔ سیکرٹری نے ملوادیا ۔ انہوں نے کہا کہ مولانا ہم آرہے ہیں۔ ہمارے ساتھ لاہور سے سالک صاحب اور کچھ دوسرے دوست بھی آپ کے پاس آرہے ہیں۔ انہوں نے پتا نہیں کیا جواب دیا لیکن جوش صاحب نے فون رکھا اور ہم سب سے کہا چلو۔ ہم وہاں چلے گئے اور جا کر دیکھا کہ مولانا نے جو اور کام تھے سب چھوڑ دیئے تھے اور وہ ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ مولانا جوش صاحب کا اتنا احترام کرتے تھے۔
مولانا ابو الکلام آزاد کی یہ عادت دیکھی کہ وہ خود تو سگریٹ پی رہے تھے لیکن کسی اور کو سگریٹ آفر نہیں کر رہے تھے۔ سنا ہے کہ ان کی یہی عادت تھی۔ باتیں چلیں تو جوش صاحب نے کہا کہ یہ سب پاکستانی شعراء ہیں۔ مولانا کہنے لگے کہ ویسے تو میرے پاس زیادہ وقت تو نہیں ہوتا لیکن کلام سننے کو بھی بہت جی چاہتا ہے ۔ اگر آپ تکلف محسوس نہ کریں تو اپنے دو دو شعر سنا دیں۔ ان کا مقصد ہماری عزت افزائی کرنا بھی تھا اور محفوظ ہونا بھی تھا۔ چنانچہ ہم نے د و دو شعر سنائے ۔ جب سب نے دو دو چار چار شعر سنا دیئے تو اب جوش صاحب کا مرحلہ تھا۔ مولانا جوش صاحب سے کہنے لگے کہ اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو آپ بھی کچھ ارشاد فرمائیں ۔ جوش صاحب کہنے لگے نہیں مولانا۔ سالک صاحب نے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں آپ و ہ سن لیجئے۔ چنانچہ سالک صاحب نے دو باتیں کی ہوں گی تو جوش صاحب شروع ہو گئے اور اس کے بعد ہم جتنی دیر وہاں بیٹھے رہے جوش صاحب ہی باتیں کرتے رہے اور مولانا چپ چاپ سنتے رہے۔
آدھا گھنٹہ گزر گیا تو سالک صاحب نے کہا کہ اب ہمیں چلنا چاہئے کیونکہ مولا نا مصروف ہیں اور دوسرے لوگ بھی باہر بیٹھے مولانا کی فراغت کا انتظار کر رہے ہیں۔ جوش صاحب کہنے لگے ہمیں تو یاد ہی نہیں رہا کہ مولانا تو وزیر تعلیم بھی ہیں۔ بعد میں پتا چلا کہ اس طرح جوش صاحب پہلے بھی ایک بار مولانا سے ملنے کے لئے گئے تھے۔ انہوں نے جانے سے پہلے فون نہیں کیا تھا بلکہ وہاں جا کر باہر سے رقعہ بھیج دیا تھا۔ کافی دیر ہو گئی اور جب اندر سے بلوایا نہ گیا تو انہوں نے ایک رقعے پر لکھ دیا تھا:
اب تو مشکل ہے خون کھولانا
پھر کسی اور وقت مولانا
جو ش صاحب یہ شعر لکھ کر اس وقت چھوڑ آئے تھے۔ یہ ایک دو سال پہلے کا واقعہ تھا۔ شاید اسی وجہ سے اب یہ ملاقات کچھ جلدی ہو گئی ۔ یہ اس پرچی کا فیض ہو گا جو جوش صاحب نے کبھی آزاد صاحب کے نام لکھی تھی۔
تیسرا بڑا نام خواجہ ناظم الدین کا آتا ہے ۔ یہ یقیناًایک بڑے آدمی تھے۔ جس زمانے میں وہ وزیراعظم تھے تو انہوں نے بھی کراچی ہی میں اپنی رہائش گاہ پر ایک مشاعرے کا انتظام کیا تھا ۔ میری پوزیشن اس وقت یہ تھی کہ میں جونیئر ز میں سے تھا۔ نام تو میرا ابھر آیا تھا لیکن مجھ سے اونچے نظر آنے والے بڑے بڑے ہاتھی اور دیو موجود تھے۔ اس کے باوجود اس مشاعرے میں شرکت کر لینا ہی مجھ جیسے جونیئر کیلئے بڑی بات تھی۔
اس مشاعرے میں انڈیا سے جگر صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے سب صوبوں سے بھی بہت سے نامور شعراء آئے ہوئے تھے۔ تقریباً چالیس شعراء اس مشاعرے میں شریک تھے۔ جب خواجہ صاحب سن رہے تھے تو میں دیکھ رہا تھا کہ خواجہ صاحب میں شعری ذوق موجود ہے اور وہ مجھے برمحل داد دینے میں ماہر نظر آئے۔ پھر جتنے خلوص سے انہوں نے شاعروں کو خوش آمدید کیا تھا او ر کھانے کے بعد جتنے خلوص سے الوداع کیا تھا ۔ اس سے ان کا بڑا پن نظر آیا تھا۔ اب تو وہ اور بھی بڑے نظر آرہے ہیں۔
ان کے بعد جو بھی آتا گیا اس کا قد چھوٹا ہی ہو تا گیا۔ آج ہم دیکھتے ہیں تو ہر طرف ہمیں بونے ہی بونے نظر آتے ہیں اور ادب کے معاملے میں تو لوگ یہاں بونے بھی نہیں بلکہ چیونٹیوں سے ہیں۔ آپ پہلے پاکستان کے ماضی کی طرف دھیان دیں تو جگہ جگہ ادبی سرگرمیاں ہوتی تھیں۔خواجہ ناظم الدین جیسے لوگ حکومت میں بھی اور باہر بھی ملتے تھے۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا تو خاص طور پر ادب متاثر ہوا اور اب جب ہم نظر دوڑاتے ہیں اور اپنے ہی شہر لاہور میں دیکھتے ہیں جو کہ علم و ادب کا گڑھ تھا۔ اس میں ادبی ویرانی ایسی نظر آتی ہے کہ کسی بھی محفل سے شعر کی آواز سنائی دے رہی۔ وہ ہال جن میں ادبی کانفرنسیں اور شعری نشستیں ہوا کرتی تھیں ‘ اب وہاں کچھ بھی نہیں ہے ۔ ایک وقت تھا کہ اوپن ائیرتھیٹر میں بھی ایسے ایسے کل پاکستان اور ہندوپاک مشاعرے ہوئے جن کی گونج اب تک آتی ہے لیکن اب وہ ماضی کا حصہ ہیں ۔ حال میں ویرانی کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا۔اس لئے کہ ایک مدت سے جو غیر جمہوری سرگرمیاں یہاں شروع ہوئی ہیں انہوں نے یہاں علم و ادب کے سوتے خشک کر دیئے ہیں اور ذاتی اغراض کی ایک جنگ اب شروع ہو چکی ۔ ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں لگا ہے۔
اب پاکستان میں جمہوری اور غیر جمہوری ادوار کا حساب لگایا جائے تو نسبتاً غیر جمہوری ادوار کا عرصہ زیادہ ملے گا۔ غیر جمہوری زمانوں میں سب سے بڑا یہ نقصان ہوتا ہے کہ اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ کی اقدار کو بھی نقصان پہنچتا ہے ۔ انسانیت مرجاتی ہے ۔ فرقہ واریت ابھرتی ہے ‘ طبقاتی جنگ زرگری شروع ہو جاتی ہے ۔ طبقاتی جنگ جاتی ہے ۔ طبقاتی جنگ ویسے تو بہت مفید چیز ہے اور اس میں نچلے طبقوں کو کچھ حاصل ہوتا ہے لیکن طبقاتی جنگ زرگری میں علم و ادب پستا چلا جاتا ہے اور مادر علم و ادب کو کوکھ بانجھ ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس وقت صورتحال یہی ہے کہ مسلسل مارشل لاء اور غیر جماعتی سیاسی سرگرمیاں جن میں آپا دھاپی ہوتی ہے اور جس کے پاس چار پیسے زیادہ ہیں وہ آکر پردھان بن کر بیٹھ جاتا ہے حالانکہ اس کا پس منظر کوئی نہیں ہوتا ۔ اس کے پاس علم و ادب ‘ سیاست یا کسی اور چیز کا کوئی پس منظر نہیں ہوتا۔ صرف پیسے لگا کر پیسے بٹورنے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔ یہ صورتحال جاری ہے اور اس کا جتنا بھی ماتم کیا جائے وہ کم ہے۔
اب ایک مدت کے بعد الیکشن ہونے والے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہی لوگ جو سیاست کو خلاف اسلام قرار دلوانے کیلئے ایری چوٹی کا زور لگا رہے تھے‘ جو جمہوریت کو خلاف اسلام قرار دے رہے تھے وہ آگے ہیں اور جمہوریت اور سیاسی سرگرمیوں کا نعرہ لگا کر اور جماعتی انتخابات میں شامل ہو کر آپ کو عوام کا خادم ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ منافقین جب تک ختم نہیں ہوں گے یہاں شعرو شاعری‘ موسیقی اور مصوری اور رقص کا کوئی مستقبل نہیں۔
جس قوم کو بھی دیکھیں اس میں رقص موجود ہے ۔ رقص ایک پاکیزہ اظہار خیال کا نام ہے جو جسم سے کیا جاتا ہے ۔ کیا ضروری ہے کہ آپ اسے طوائف کے ساتھ ہی منسوب کریں۔ اگر آپ ہیرا منڈیوں میں جا کر اس کی سرپرستی کریں گے تو یقیناًیہ ایک بری چیز ہو گی لیکن اگر اسے فن کے طور پر قبول کریں گے تو یہی قوم کیلئے ایک صحت مند چیز ہو گی۔ لیکن یہ سوچنے کے لئے اور ذہنوں کی ضرورت ہے جو کھلے ذہن ہوں اس میں تنگ نظری اور تعصبات رکھنے والے گروہوں کی گنجائش نہیں کہ وہ آکر اس کا احیاء کر سکیں۔(جاری ہے )

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 70 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں