قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 54

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 54
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 54

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کے آصف اور نگار سلطانہ
1961 ء میں مرحوم کے آصف نے مجھے اپنی فلم کے گانوں کے لئے بمبئی میں روکا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہ فلم ’’محبت اور خدا ‘‘ بنا رہے تھے۔ اس وقت تک فلم ’’مغل اعظم ‘‘ ریلیز ہو کر آصف کا بہت نام پیدا کر چکی تھی۔یہ پہلی فلم تھی جس پر ایک کروڑ روپیہ خرچ آیا تھا جبکہ اس زمانے میں فلم دس لاکھ روپے میں بن جاتی تھی۔ یہ فلم بہت زیادہ پیسہ کما رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ یہ مشہور ہو رہا تھا کہ آصف دلیپ کمار کی بہن سے شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن چونکہ یہ پہلے سے نگار سلطانہ سے شادی شدہ ہیں اس لئے دوسری شادی کی راہ میں کچھ رکاوٹیں حائل ہیں۔ پھر چونکہ دلیپ صاحب بھی آصف صاحب سے اس نئے رشتے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس لئے بھی یہ شادی ہو نہیں پا رہی ۔وہ کہتے یہ مناسب نہیں،لیکن بہن کو ورک نہ پائے ۔ لوگ آصف کو تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے تھے ۔ اگر ان کی ایک ہزار جگہ پر تعریف ہوتی تھی تو ساتھ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کا جنسی پہلو بہت کمزور ہے۔
اس سے پہلے کے آصف کے کھاتے میں اپنی ممانی ستارہ کا اغوا بھی پڑا ہوا تھا۔ ستارہ اپنے زمانے کے مشہور ہدایتکار اور اداکار نذیر صاحب کی بیوی تھی اور ڈانسر تھی۔ آج کا زمانہ تو اسے نہیں جانتا لیکن پچھلے زمانے کے لوگ جانتے ہیں کہ وہ کتنے پائے کی ڈانسر تھی۔ وہ محبوب صاحب کی فلم روٹی میں ہیروئن آئی تھیں اور انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے جھنڈے گاڑ دیئے تھے۔ اس کے علاوہ وہ متعدد فلموں میں بھی ہیروئن آچکی تھیں۔

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 53  پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
نذیر صاحب بہت خوبصورت آدمی تھے ‘ بطور مردان کی شخصیت بہت پر کشش تھی اور اداکاری میں بھی ان کا اپنا ایک سٹائل تھا۔ جہاں تک کے آصف کا تعلق ہے ‘ وہ واجبی سی شکل و صورت کے آدمی تھے بلکہ بعض صورتوں میں تو خوبصورتی کے معیار سے ذرا نیچے گرے ہوئے نظر آتے تھے لیکن ’’مغل اعظم ‘‘ کی وجہ سے انہیں بہت شہرت مل گئی تھی اور بقول نگار سلطانہ اس شہرت پر پہنچ کر کوئی بھی لڑکی کے آصف کی طرف راغب ہو سکتی ہے۔
چنانچہ یہی ہوا ہو گا کہ دلیپ صاحب کی بہن ادھر راغب ہو گئی ہوں گی۔ ویسے بھی کے آصف صاحب اب نگار سلطانہ کے ساتھ نہیں رہ رہے تھے بلکہ جو ہو ہوٹل میں دریا کے کنارے ایک خوبصورت کا ٹیج لے کر رہ رہے تھے۔ وہیں وہ اپنی فلم کا کام بھی کرتے تھے اور پتا یہ چلتا تھا کہ اب بھی دلیپ صاحب کی بہن کے ساتھ ان کا پیام رسانی ہو رہی ہے جسے لوگ ناپسندیدہ قرار دے رہے تھے۔
اسی زمانے میں میری ملاقات نگار سلطانہ کے ساتھ ہوئی ۔ نگار سلطانہ ایک بہت ہی خوبصورت خاتون تھیں‘ وہ شعروشاعری کی دلدادہ تھیں اور جب ترنم سے پڑھتی تھیں تو دل موہ لیتی تھیں۔ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ تانیت میں باتیں نہیں کرتی تھیں تذکیر میں باتیں کرتی تھیں مثلاً میں آیا اور میں گیا ۔ اس طرح مردوں کی طرح باتیں کرتی تھی ۔ انہیں بچپن ہی سے اس طرح باتیں کرنے کی عادت تھی۔
ان سے میری پہلی ملاقات تو آصف نے ہی کروائی تھی۔ یہ ایک دن گھومتے ہوئے مجھے ان کے پاس لے گئے تھے۔ اس وقت ان کے بچوں سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ اس کے بعد بھی نگار سلطانہ سے ایک دوبارہ ملاقات ہوئی۔ اتنی دیر میں حیدر آباد سے مجھے ایک مشاعرے کی دعوت موصول ہوئی۔ نگار سلطانہ پیدائشی طور پر حیدر ااباد سے تعلق رکھتی تھیں۔
جب مشاعرے کی دعوت آئی تو اس زمانے میں حبیب جالب صاحب بھی انڈیا پہنچے ہوئے تھے۔ قبل ازیں میں اور وہ دہلی میں ایک ساتھ مشاعرہ بھی پڑھ چکے تھے۔ جہاں سے میں مدراس چلا گیا تھا اور مدراس سے واپس آکے آصف صاحب کے لئے بمبئی ٹھہر گیا تھا جبکہ جالب صاحب بعد میں دہلی سے بمبئی آئے اور غالباً بڑے غلام علی کے ہاں ٹھہرے کیونکہ ان کے بیٹے سے ان کے مراسم تھے۔
جالب صاحب مجھ سے ملنے کیلئے آجاتے تھے۔ میں مشہور نغمہ نگار اندریو کے ساتھ رہ رہا تھا ۔ جالب صاحب اس زمانے میں خاصے غیر ذمہ دار آدمی تھے۔ کوئی احتیاط نہیں کرتے تھے۔ جو جی میں آیا کہہ دیتے تھے ۔ کسی کو ملال ہوتا ہے تو ہو اور اگر ان کی ذات پر کوئی حرف آتا ہے تو آئے اس وجہ سے اکثر دوست ایک حد تک ان سے تنگ رہتے تھے۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جسے قدرت نے قوت برداشت کچھ زیادہ ہی دی ہے۔ نصیحتیں تو کرنے لگ جاتا ہوں لیکن کسی سے تنگ نہیں آتا۔
جب جالب صاحب میرے پاس آئے تو پوچھا ’’سنا ہے آپ حیدر آباد جا رہے ہیں‘‘
میں نے کہا’’ ہاں جا رہا ہوں‘‘
کہنے لگے ’’ میں بھی جا رہا ہوں‘‘
میں نے کہا’’ دعوت نامہ آیا ہے‘‘
کہنے لگے ’’ آجائے گا‘‘
میں نے پوچھا’’ کس طرح‘‘
‘ کہنے لگے’’ آپ منگوا کر دیں گے‘‘
میں نے کہا ’’ٹھیک ہے ‘‘ جالب کے لئے دعوت نامہ منگوانا کوئی مشکل بات نہیں تھی کیونکہ ان کا نام تو تھا ہی چنانچہ میں نے جب مشاعرے کے منتظمین سے کہا تو انہوں نے بخوشی انہیں دعوت نامہ بھیج دیا۔
اب مجھے معلوم تھا کہ اس دعوت نامے کے ساتھ جو کوفت برداشت کرنی ہو گی‘ وہ مجھے ہی برداشت کرنی ہو گی۔ بہرحال جالب صاحب کو دعوت نامہ آگیا اور وہ حیدر آباد چلے گئے ۔ میں جس ٹرین میں روانہ ہوا اس میں مشہور خاتون میوزک ڈائریکٹر اوشا کھنہ ان کے والد اور بمبئی کے کچھ دوسرے شعراء بھی تھے۔ حیدر آباد میں مشاعرہ بھی تھا اور ساتھ کوئی میوزک پروگرام بھی تھا۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ نگار سلطانہ حیدر آبادی ہونے کے ناتے وہاں موجود ہیں اور مشاعرہ بھی پڑھیں گے ۔ یہ سن کر مجھے خوشی ہوئی۔
وہاں راجہ راج دھن گیر بھی موجود تھے جو نواب کے مصاحبین میں سے تھے۔ وہاں ہندو راجہ کہلواتے تھے۔ راجہ صاحب ایک چھوٹی سی ریاست کے خود بھی مالک تھے اور انہوں نے باہر سے آئے ہوئے شعراء کی دعوت کی۔ اس میں نگار سلطانہ بھی موجود تھیں۔ ہم پہلی بار ایک محل میں داخل ہوئے تھے ۔ گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو ایک سڑک بہت دور تک چلی جارہی تھی۔ راستے میں پہریدار بھی کھڑے تھے۔ ہم کافی فاصلہ طے کر کے اندر محل تک پہنچے۔ اس دعوت میں جانے والوں میں معرکے کے انقلابی شاعر مخدوم محی الدین نکسلواڑی اور نگار سلطانہ بھی شامل تھیں۔
اس دعوت میں ایک بہت خوبصورت چہرہ بڑی خصوصیت کے ساتھ نظر آرہا تھا جو راجہ دھن راج گیر کی بیٹی کا تھا۔ ان کا نام اندر ا تھا۔ اور یہ حسن کا مجسمہ تھیں۔ یہ انگلش کی شاعرہ تھیں۔ پتا چلا کہ مخدوم صاحب روزانہ راجہ صاحب کے ہاں حاضری دینے جاتے ہیں اور جا کر اندرا جی کو دیکھتے ہیں۔ ہم نے بھی اندر ا جی کو دیکھا اور وہ واقعی اس لائق تھیں کہ:
تجھ کو بٹھاکے سامنے یاد خدا کریں
وہاں دھن راج گیر کا کردار بھی سامنے آیا ۔ انہوں نے اپنی جوانی میں اور تو جو کچھ کیا ہو گا وہ الگ ہے مگر انہوں نے اپنے زمانے کی خوبصورت اور مشہور ترین ہیروئن زبیدہ سے بھی شادی کر رکھی تھی جو ہندوستان کی پہلی متکلم فلم میں ہیروئن بھی آچکی تھیں۔ لیکن جوانی گزر جانے کے باوجود اس بڑھاپے میں بھی راجہ صاحب کی حسن پرست طبیعت باقی تھی۔
جہاں میں بیٹھا تھا اس سے آگے نگار سلطانہ تھیں اور ان سے دھن راج گیر بیٹھے ہوئے تھے ۔ اس عمر میں بھی جبکہ اکثر لوگ زندگی سے ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں ،وہ نگار سلطانہ سے کہہ رہے تھے کہ نگار تم ہاں تو کرو میں اب بھی تمہیں جواہرات میں تول سکتا ہوں۔ نگار کن اکھیوں سے کبھی میری طرف دیکھے اور کبھی تھوڑا سا جواب دے۔ اصل میں وہ کے آصف کی بیوی تھیں اور میں آصف صاحب کا دوست تھا اس لئے کچھ حجاب ساتھا۔
اس وقت وہاں سب لوگ پئے ہوئے تھے اور جس کے جی میں جو آرہا تھا کہے جا رہا تھا۔ نگار سلطانہ کے ایک بھائی بھی وہاں موجود تھے مگر ایسے بھائیوں کی اپنی تو کوئی حیثیت ہوتی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ نامور خاتون تھیں اور ان لوگوں کی کفیل بھی تھیں۔ پھر بھی وہ بظاہر منہ سا بنا کر یہ تاثر دے رہے تھے کہ دھن راج گیر کیوں ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ مگر یہ سب نمائشی تھا۔
یہ محفل بہت دیر تک رہی۔ میں نے دیکھا کہ دھن راج گیر صاحب کو رومانس کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے آگاہی تھی۔ مجھے پوچھنے لگے ’’ اقبال بانو کا کیا حال ہے؟‘‘ میں بہت پریشان ہوا۔ اور کہا’’ جی بس ٹھیک ہے‘‘۔ کہنے لگے ’’ بھئی میں تو آپ کے حوالے سے پوچھ رہا ہوں‘‘
میں نے کہا ’’ اب تو سلسلہ منقطع ہو چکا ہے ‘‘
کہنے لگے ’’ آپ کی طرف سے یا ان کی طرف سے ‘‘
میں نے کہا ’’ بس دونوں ہی کی طرف سے سمجھ لیجئے۔دونوں ہی ایک دوسرے سے اکتا چکے تھے‘‘
کہنے لگے ’’ اچھا اس معاملے میں آدمی اکتا بھی جایا کرتا ہے‘‘ وہ اس طرح کی زندہ دلی کی باتیں کر رہے تھے۔ مشاعرے میں پنجاب کے یونینسٹ وزیر بھیم سین سچر جو اس وقت گورنر تھے۔ وہ بھی آئے ہوئے تھے۔ اس دن مجھے محسوس ہوا کہ اپنے علاقے کے رہنے والے ہم وطنوں سے پیار ایک لازمی سی چیز ہے ۔ اور اس میں بعض اوقات درمیان میں مذہب و ملت بھی نہیں آتا ۔ مثال کے طور پر بنگالی مسلمان ‘ مغربی پاکستان کے مسلمان کی نسبت بنگالی ہندو کو نسبتاً زیادہ چاہتا تھا۔ کیونکہ زمین اور زبان کا رشتہ بڑی چیز ہوتی ہے۔
جب ہم مشاعرے میں بیٹھے ہوئے تھے تو اس کی صدارت گورنر لالہ بھیم سین سچر کو کرنی تھی۔ وہ خالص پنجابی آدمی تھے۔ جالب چونکہ جونیئر تھے اس لئے وہ انہیں نہیں جانتے تھے لیکن مجھے جانتے تھے جب آکر وہ کرسی صدارت پر بیٹھے تو سب سے پہلے پوچھا ’’ ہمارے قتیل شفائی آئے ہوئے ہیں۔ وہ کہاں ہیں‘‘
میں نے سنا تو اٹھ کر آیا۔ وہ مجھ سے بغل گیر ہو گئے اور میر ا منہ چوما۔ پھر انہیں جن شاعروں کے نام یاد تھے ان کے بارے میں پوچھا کہ ان کا کیا حال ہے۔
انہوں نے اگلے روز گورنر ہاؤس میں باہر سے آئے ہوئے سب شعراء کو دعوت دی اور اس میں خاص طور پر مجھے مدعو کیا۔ جب میں نے جالب کے بارے میں بتایا تواسے بھی خاص طور پر مدعو کیا۔ اگرچہ دعوت تو سب کیلئے تھی لیکن ہمارا تعلق چونکہ پنجاب سے تھا اس لئے انہوں نے ہمیں خصوصی طورپر مدعو کیا۔ اس کے علاوہ وہاں سے ایک پرچہ ’’ملاپ ‘‘نکلتا تھا۔ اس کے سٹاف کے ان سب ارکان کو بھی خصوصی طورپر مدعو کیا جو پنجاب سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے مجھے اتنی عزت دی کہ یہ مشاعرہ اور یہ تقریب میرے لئے یادگار بن گئے ۔ انہوں نے حقیقی معنوں میں ہم وطن ہونے کا حق ادا کر دیا۔(جاری ہے )

قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 55 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں