ٹرین حادثہ، پاک فوج کے اعلیٰ افسران سمیت17 افراد شہید، 5 کی تلاش جاری: آئی ایس پی آر

ٹرین حادثہ، پاک فوج کے اعلیٰ افسران سمیت17 افراد شہید، 5 کی تلاش جاری: آئی ایس ...
ٹرین حادثہ، پاک فوج کے اعلیٰ افسران سمیت17 افراد شہید، 5 کی تلاش جاری: آئی ایس پی آر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گوجرانوالہ (مانیٹرنگ ڈیسک) چٹھہ نہر میں ٹرین کی بوگیاں گرنے سے پاک فوج کے لیفٹیننٹ جنرل عامر جدون اور ان کی بیوی بچوں سمیت 17 افراد شہید ہو گئے ہیں  اور 5 افراد کی لاشوں کی تلاش کا عمل جاری ہے۔ شہید ہونے والوں میں سے 10 افراد کی نمازہ جنازہ گوجرانوالہ کینٹ میں ادا کی گئی۔ پاک فوج کی جانب سے لاپتہ افراد کی تلاش کیلئے امدادی کارروائیاں رات گئے بھی جاری ہیں اور پاک فوج نے عزم ظاہر کیا ہے کہ لاشیں ملنے تک آپریشن جاری رکھا جائے گا۔
 فوج کے ادارہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری ہونے والی حادثے کی تفصیلات کے مطابق چٹھہ نہر میں ٹرین کی بوگیاں گرنے سے پاک فوج کے لیفٹینٹ جنرل عامر جدون اور ان کی بیوی بچوں سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے جبکہ حادثے کے فوری بعد امدادی کارروائیاں کرتے ہوئے زخمیوں سمیت 80افراد کو بحفاظت نکا ل لیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق خصوصی ٹرین پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کو لے کر کھاریاں جارہی تھی کہ راستے میں ہیڈ چھناواں کے قریب ٹرین حادثہ کا شکار ہو گئی اور نہر کا پل ٹوٹنے کے باعث ٹرین کی ایک فرسٹ کلاس سلیپر بوگی اور انجن نہر میں گر گیا۔ ریسکیو آپریشن میں پاک فوج کے سول ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹرز اور ایس ایس جی کے غوطہ خور حصہ لے رہے ہیں۔
حادثے کو کئی گھنٹے گزرنے کے بعد بھی ریسکیو کارروائیاں جاری ہیں اور پاک فوج کی امدادی ٹیمیں اندھیرا ہونے کے باوجود بھی لاپتہ افراد کی تلاش میں مصروف ہیں۔ ذرائع کے مطابق ٹرین کے ڈرائیور سمیت اب تک 14 افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں جن میں سے 10 کی نماز جنازہ بھی ادا کر دی گئی ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور دیگر عسکری حکام سمیت شہداءکے ورثاءنے بھی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ٹرین کی فرسٹ کلاس سلیپر بوگی نہر میں مکمل ڈوبی ہوئی ہے جبکہ دو بوگیاں پل سے لٹکی ہوئی ہیں ۔ آئی ایس پی آر کے تمام تمام لاپتہ افراد کی تلاش کے بعد ہی ریسکیو کا عمل آگے بڑھایا جائے گا اور پانی میں موجود انجن اور بوگیوں سمیت ریل گاڑی کے تمام حصوں کو پانی سے باہر نکالا جائے گا۔
دوسری جانب وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ سانحے میں ابتدائی طور پر کسی قسم کے دھماکے کے آثار یا شوماہد نہیں تاہم بظاہر اس میں کوئی اور ہاتھ بھی ملوث ہے کیونکہ پلیٹیں ہٹائے بغیر ٹرین کا پٹری سے اترنا ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امدادی کارروائیوں کے بعد ریلوے کے انجینئرز اور سیکیورٹی ایجنسیز جائے وقوعہ کا جائزہ لیں گی جس کے بعد ہی تمام حقائق سامنے آئیں گے۔
سارے پہلوﺅں کا سیکورٹی ایجنسیز اور ریلوے کے انجینئرز جائزہ لیں گے جس کے بعد ہی تمام حقائق سامنے آئیں گے۔ ٹرین کے اسسٹنٹ ڈرائیور نے اپنے ابتدائی بیان میں بتایا ہے کہ جب ٹرین پل پر پہنچی تو کچھ گڑگڑاہٹ سنائی دی اور اچانک پل کا گارڈر ٹوٹتے ہی انجن نہر میں جا گرا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے بعد اسے کچھ ہوش نہ رہا اور جب ہوش آیا تو خود کو ہسپتال میں موجود پایا۔
واضح رہے کہ ہیڈچھناواں میں کا پل 1906میں تعمیر کیا گیاتھا جو کہ اب بہت ہی خستہ حال ہو چکاتھا جس کے باعث ٹرین کو حادثہ پیش آیا۔ اس سے قبل اسی پل سے کراچی جانے والی پاکستان ایکسپریس گزر کر گئی تھی اور خدانخواستہ اگر اس گاڑی کو حادثہ پیش آ جاتا تو نقصان بہت زیادہ ہونے کا خطرہ تھا۔