تیسویں قسط۔۔۔ سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان
انکی بات سن کر میں نے اللہ کریم کا شکر ادا کیا اور جھٹ سے دو نفل ادا کرکے باقاعدہ اس ربّ القدوس اور والی الاولیا کا شکر ادا کیا جس نے مجھے یہاں بھی صاحبِ مزار کی نظر فیض سے مستفید ہونے کا موقع دیا اور میرے ارتکاز باطن کو جلا بخشی اور مُراد پوری کردی تھی۔ حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ کو سلام پیش کرکے دوستوں کے ساتھ ہی مزار کے ایک جانب آپؒ کے صاحبزادوں حضرت سیّد ہاشم دریا دلؒ اور حافظ برخوردارؒ مزارات ہیں۔ وہاں بھی جا کر دعاکی اور قلب میں گوناں سی راحت محسوس کی۔ سچ تو یہ ہے کہ جب میں نے اولیاء کرام کی شریعت و طریقت کے مطابق تعلیمات کو اُجاگر کرنے لئے اپنے قلم کو وقف کرنے کا ارادہ کیا تھا تو اس خواہش کو دل میں جانگزیں پایا کہ کیا ہی اچھا ہو جب میں کسی برگزیدہ ولی پر لکھنا شروع کروں تو وہ مجھے خود اپنی بارگاہ میں بلا کر تھپکی دیا کریں۔حضرت برقؒ اور انکے جدد امجد حضرت سیّد نوشہ گنج بخش ؒ کے حضور پہنچ کر میری اس خواہش کو جیسے قرار آگیا اور یہ جو سنا اور پڑھا تھاکہ نوشہ سرکار ؒ کا فیض آج بھی جاری ہے تو اس حقیقت کا سامنا کرکے مجھے نیا ولولہ حاصل ہوا اور اس بات پر بھی یقین کرنا پڑا کہ اللہ کریم کے اولیاء کی تعلیمات پر عمل کیا جائے اور ان کے ساتھ عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے شریعت کا دامن تھامے رکھا جائے تو صاحبِ مزار اپنے زائرین کا خود استقبال کرتے ہیں۔ لیکن افسوس زائرین کی بزرگان دین کی تعلیمات کے برعکس حرکات و سکنات صاحبِ مزار کی دینی و باطنی تعلیمات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہوتی ہیں۔جہاں تک حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ سے حضرت ابولکمال برقؒ نوشاہی کی طریقت کے اسلوب کا سوال ہے تو یہ کوئی معمّہ نہیں ہے۔آپؒ نے واضح الفاظ میں غیر شرعی حرکات پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ دین و شریعت پر کاربند رہنے والوں کو طریقت کا اصل پیروکار قرار دیا ۔آپؒ کے کلام میں دین و شریعت کے پیغامات اور طریقت رموز نمایاں ہوتے تھے۔
سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان۔۔۔انتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت برقؒ تو شعروسخن کے درمیان ہی سانسیں لیا کرتے تھے۔ آپ اگر کسی کو خط بھی لکھتے تو منظوم ارشادات فرماتے اور اپنی فکری،دینی اور باطنی تعلیمات کا اظہار کرتے تھے۔
حضرت برقؒ کے منظوم مکتوبات صوفیانہ ادب کا سرمایہ اور انکی ایک ایک سطر فکرکی دعوت دیتی ہے۔ پانچ نومبر انیس سو باسٹھ کے روز آپؒ نے اپنے چھوٹے بھائی سراج السالکین پیر سیّد معروف حسین شاہ عارف نوشاہی کو بریڈ فورڈ برطانیہ میں طویل منظوم خط لکھا جس کے چند اشعار سن لیجئے۔ حضرت برقؒ خط کا آغاز یوں کرتے ہیں
لائق حمد و ثنا تعریف ابدی واحد ذات ایزد متعال دی اے
لکھوار درود رسول اکرمؐ بے مثال ہستی بے مثال دی اے
کی فائدہ فرق تفریق اندر اعلٰی شان اصحاب تے آل دی اے
قطب الکل سلطانِ بغداد میراں کوئی حد نہ جسدے کمال دی اے
دہن سخی دوارڑا قادری آجتھے لوڑ نہ مول سوال دی اے
پایہ خوب نوشہ گنج بخش پایا بخشش ہوئی رب لایزال دی اے
**
حضرت برقؒ محمد فضل ولد الٰہی بخش آف دھمیال ضلع میر پور کو خط لکھتے ہوئے یوں فرماتے ہیں۔
اوّل حمد خداوند تائیں جو صفتاں دا سائیں
لکھ درود سلاماں نبی محمدﷺ تائیں
اس تھیں بعد سلام وعلیکم جو دستور اسلامی
بعد سلاموں لِکھاں تیں وَل حال احوال تمامی
حضرت برقؒ اپنے بچّوں ،عزیزوں اور مریدین وخلفا کو بھی منظوم خطوط بھیجتے تھے جن میں انکی دینی وباطنی رہنمائی اور اپنے دلی جذبات کا اہتمام و اظہار نہایت پُراثرانداز میں کرتے تھے۔
(جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)