پینتیسویں قسط۔۔۔ سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان

پینتیسویں قسط۔۔۔ سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان
پینتیسویں قسط۔۔۔ سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سیّد محمد طاہر شاہ ابرار نوشاہی تیس برس اپنے والد گرامی حضرت پیرسید ابوالکمال برق نوشاہیؒ کی خدمت پر مامور رہے اور فیض پاتے رہے ہیں ،وہ کہتے ہیں’’ قبلہ پیر صاحب سے کوئی بات چھپانا بہت مشکل ہوتی تھی۔ایک روز میں دیر سے گھر آیا تو آپ ؒ نے پوچھا’’کہاں کی سیر کرکے آرہے ہو‘‘
’’ حضور میں ذرا بس ادھر ہی تھا‘‘میں نے گھبرا کر تامّل سے جواب دیا۔
آپ نے مجھے گہری نظروں سے دیکھا اور کہا’’طاہر کیا تم چاہتے ہو میں تمہیں بتاؤں تم کہاں تھے اور کیا کررہے تھے۔ کان کھول کریہ بات سن لو،یہاں جو لوگ مجھے ملنے آتے ہیں،کبھی سوچا ہے کیوں آتے ہیں؟۔۔۔پہروں بیٹھے رہتے،ہاتھ چومتے،پاؤں دباتے،دستار راہ میں بچھا دیتے اور اپنا سینہ ہلکا کرکے جاتے ہیں ۔وہ بے وجہ ،بے سبب نہیں آتے۔انہیں کچھ نظر آتا ہے تو آتے ہیں ۔لہذا مجھ سے بات چھپایا نہ کرو۔ اور اس بات کا خیال رکھو۔ابھی تمہیں بہت سی ذمہ داریاں نبھانی ہیں۔احتیاط کیا کرو‘‘ اس روز کے بعد میں نے اپنے ہر معاملے میں احتیاط شروع کردی۔ہمارے ایک استاد تھے مولانا ارشاد شاہ صاحب ۔وہ اکثر مجھے کہتے تھے ’’صاحبزادہ صاحب ۔آپ کے گھر میں تو روحانیت کا سمندر بہتا ہے،آپ کو تو اسکی حاجت نہیں ہوگی ،کبھی ہمیں بھی دو بوند پلا دیں‘‘ میرے استفسار پر وہ کھل کر کہتے’’ اصل میں میں چاہتا ہوں آپ قبلہ برقؒ سے میری سفارش کردیں اور مجھے ان سے کوئی ایک دو وظیفے لے دیں تاکہ میں وہ وظیفے پڑھ کر اپنی باطنی قوتوں میں اضافہ کرسکوں اور میرے پاس بھی خلقت اکٹھی ہوا کرے ،میں چاہتا ہوں میرے پاس بھی ایسا ہجوم نظر آیا کرے جیسا پیر صاحب کے ہاں ہوتا ہے‘‘ استاد صاحب رشک کیا کرتے تھے ہماری قسمت پر ۔میں انہیں کہتا’’ حضور پیر برقؒ صاحب ہمارے والد گرامی ہیں۔ہم آپؒ سے وظائف اسطرح نہیں مانگ سکتے جسطرح آپ عرضی پیش کررہے‘‘میں انہیں یہ شعر سنایا کرتا تھا۔

سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان۔۔۔چونتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کی حاجت اے برق بولنے دی
جو روشن ضمیر پیر اے تُوں
قبلہ حضرت پیرسید ابوالکمال برق نوشاہیؒ فرماتے تھے کہ ہمارے پیر لوگ نیک لوگوں کو ہی وظائف بانٹتے ہیں جبکہ غیر شرع تو ویسے ہی ان سے دور دور رہتے ہیں لہذاپیروں کو چاہئے کہ وہ دنیاوی طمع سے بالا تر ہوکر ،سماجی تفاوت دور کرکے عام لوگوں سے محبت کریں۔ انہیں باطنی نظام سے معروف کرائیں اور طلب گاروں کو وظائف عطا کریں اور پھر اپنی نگرانی میں انکی منازل طے کرائیں کیونکہ مرشد کامل کی مدد کے بغیرباطنی نظام اورقرب الٰہی کی حقیقی تمنا پوری نہیں ہوتی۔پیر صاحب فرماتے تھے کہ جب کوئی باطنی مراحل طے کررہا ہوتو اس وقت صرف اپنے شیخ سے رابطہ رکھے،کسی اور سے اپنے معاملات پر بات نہ کرے ۔پیر صاحب نے اس حوالے سے اپنے چار لیکچر بھی ریکارڈ کرائے تھے۔جو تصوف کے طالب علموں کے لئے قیمتی ترین اثاثہ ہیں۔ایک روز کسی نے قبلہ والد صاحب سے یہ کہہ بھی دیا کہ ’’حضور آپ کے بعد آپ کا فیض کہاں سے ملے گا۔کیا صاحبزادگان کے پاس یہ فیض مل سکے گا‘‘
حضرت پیرسید ابوالکمال برق نوشاہیؒ نے فرمایا’’ میرے مولا اورکریم آقاﷺ کے صدقے ،نوشہ ؒ کے ان لاڈلوں نے اگر میرے دیئے ہوئے وظائف پڑھ کر کسی پربھی دم کیا تو وہ ٹھیک ہوگا۔‘‘اللہ کریم کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے اپنے پیارے نوشہؒ کے صدقے اور انکی نسبت سے ہمیں فیض عام کرنے پر معمور کیا ہے۔میں 30 سال تک قبلہ والد صاحب کے ساتھ ساتھ رہا ہوں۔آپؒ کی بہت سی کرامات میں نے اپنی آنکھوں سے ظہور پذیر ہوتے دیکھی ہیں۔پیرانہ سالی اور مرض کہن کی وجہ سے عمر عزیز کے آخری وقت میں، میں ہی آپؒ کے پاس تھا ۔آپ ؒ کو باتھ روم میں لیکر جاتا اور باہر انتظار میں بیٹھا رہتا تھا۔مجھے والد گرامی کے قرب نے استقامت عطا کی ہے۔آپؒ نے مجھے حق بات کرنے کی ہدایت فرمائی،ظالم کا ہاتھ روکنے کی وصیت فرمائی،مجھے سمجھایا کہ طاہر شاہ انسانوں میں امتیاز نہ کرنا۔آپؒ نے مجھے اونچ نیچ نہیں سمجائی۔سب کیساتھ محبت کا درس دیا۔تحریر وتصنیف سے تعلق کو مضبوط کرنے اور اس کام سے محبت کرنے والوں سے محبت کرنے کی تلقین کی۔آپؒ کی اس محبت کا ثبوت یہ ہے کہ آپؒ نے 500 کتب تحریر کیں اور حضرت سید نوشہ پاکؒ کے سلسلہ کی ترویج کیساتھ ان گمراہوں کو منہ توڑ جواب دیا جنہوں نے سلسلہ نوشاہیہ کی ڈگراور تاریخ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔
حضرت پیرسید ابوالکمال برق نوشاہیؒ اپنے مریدین کا ہمہ وقت خیال رکھتے تھے۔خود بیمار ہوتے لیکن مریدین و حاجت مندوں کے لئے شفا کی دعا کرتے رہتے۔خود بے آرامی کا شکار ہوتے مگر دوسروں کی راحت کا سامان پیدا کرتے۔آپؒ کی وفات سے ایک سال پہلے کی بات ہے۔۱۹۸۴ میں حاجی محمد یاسین نوشاہی برقی انگلینڈ سے ڈوگہ شریف حاضر ہوئے۔انکی اہلیہ کے گردے جواب دے گئے تھے۔ وہ انکی بیماری کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔’’قبلہ انگلینڈ کے ڈاکٹروں نے میری بیوی کو جواب دے دیا ہے ۔انہوں نے اہلیہ کو گھر بھیج دیا ہے اور کہا کہ ہم لوگ اب انہیں گھر میں رکھ کر انکی موت کا انتظار کریں‘‘
والد گرامی نے یہ سنا تو جلال میں آگئے’’ ڈاکٹر کون ہوتے ہیں موت دینے والے ۔حاجی صاحب اللہ کریم ، میرے آقاﷺ کی نظر کرم اور مشائخ کے صدقے آپ کی اہلیہ گردوں کے فیل ہوجانے سے فوت نہیں ہوگی‘‘ اس وقت قبلہ پیر صاحب کی اپنی طبیعت بہت خراب تھی لیکن آپؒ اپنے لئے دعا کم کرتے لیکن دوسروں کے لئے دست دعا بلند رکھتے تھے۔آپؒ کی دعا سے حاجی صاحب کی اہلیہ تندرست ہوگئیں اور آج بھی حیات ہیں۔انگلینڈ کے ڈاکٹر ابھی تک اس انہونی پر حیران ہیں۔
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں