سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان۔ ۔ ۔ تئیسویں قسط

سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان۔ ۔ ۔ تئیسویں قسط
سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان۔ ۔ ۔ تئیسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شہنشاہ اکبر کے دین الٰہی کے خلاف شریعت و طریقت کا علم بلند کرنے والی عظیم ہستی،سلسلہ و خانوادۂنوشاہیہ کی خدمات

حضرت سیّدبرخوردارؒ کے مراتب و مقامات بھی ارفٰع ہیں ۔تاہم حضرت سید نوشہ گنجؒ بخش نے اصولِ طریقت نبھانے کے لئے اپنے دوسرے فرزند حضرت سیّد ہاشم دریا دلؒ کو ولی عہد مقرر کردیا تھا۔
سلسلہ نوشاہیہ کی مختلف روایات کے مطابق حضرت سید برخوردارؒ نے مہمانوں کی خدمت سے معذوری کا اظہار کر دیا تو حضرت سید نوشہ گنج بخشؒ کے ارادتمندوں نے حضرت سید محمد ہاشم دریا دلؒ کو آپؒ کی خدمت میں پیش کیا تو آپؒ نے ارشاد فرمایا’’اب سیّد محمد ہاشم کو میری جگہ سمجھو‘‘ خلافت و سجادگی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد حضرت سید ہاشم دریا دلؒ نے ان تمام خلفاء کے ادھورے باطنی نظام کوبھی مکمل کرادیا جو حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ کے وصال کے بعد خود کو لاوارث سمجھنے لگے تھے۔

بائیسویں قسط، سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان قسط وار  پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
طریقت میں رموز باطنی سے آشنا کرنے کی قوت سجادگی کے منصب پر فائز ہونے والے کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ اگرچہ کسی بھی ولی اللہ اور صاحب طریقت کی اولاد شریعت طریقت کی پابند ہو تو صدری اسرار اس میں بھی منتقل ہو جاتے ہیں لیکن شیخ کامل اپنے سینے سے لگا کر جب اپنے نامزد کردہ ولی عہد وسجادہ نشین کو مجدداعلیٰ کا نور طریقت احسن طریقہ سے منتقل کرتا ہے تو اس کی فضیلت کامل ہو جاتی ہے۔ وہ سجادہ نشین شیخ کامل کے علوم باطنی و تصرفات کا فیض یافتہ ہوتا اور پھر اس نور باطن کو خلفاء و مریدین تک پہنچانے کی قدرت رکھتا ہے۔ سجادگی میں چونکہ نورباطن منتقل ہوتا ہے اس لئے اہل طریقت میں فیض رسانی کا محور سجادہ نشین کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔
حضرت ابو الکمال برقؒ کے صاحبزادگان سید ظاہر شاہ کمال نوشاہی اورسید طاہر شاہ ابرار نوشاہی برقی کا استد لال ہے کہ شیخ کی تعلیمات کو ازروئے شریعت و طریقت اختیار کرنے والا اور شیخ کی عائد کردہ ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے والا ہی حقدار طریقت و سجادگی ہوتا ہے ۔۔۔بارگراں سمجھنے والا اور شیخ ومرشد کی ہدایات وتعلیمات سے انحراف کرنے والا سجادہ نشین نہیں ہوتا۔سلسلہ نوشاہیہ میں ایسی مثال موجود ہے۔جیسا کہ حضرت سید نوشہ گنج بخشؒ نے حق ادا نہ کرنے اور انکار کرنے پر اپنے فرزند اوّل حضرت برخور دارؒ کی بجائے سجادگی حضرت سید ہاشم دریا دلؒ کے سپرد کر دی تھی۔ شریعت اور طریقت پر عمل کرنا سجادگی اور خلافت سے زیادہ معتبراور افضل کام ہے ۔ شیخ کی ہدایات و تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے جو اس راہ حق پرگامزن ہوتا ہے وہ مرشد وشیخ کے فیض کا لنگر تقسیم کرتا اور مخلوق خدا کی خدمت کرکے آستانۂ طریقت کو آباد رکھتا ہے۔
سیّد ظاہر شاہ کمال نوشاہی اپنے والد گرامی کے معمولات طریقت کو عمیق نگاہی سے دیکھتے اور اس سے ہدایت کے چراغ روشن کرتے رہے ہیں۔ راقم سے بات چیت کے دوران اپنے والد گرامی حضرت سید ابوالکمال برقؒ کی باطنی معراج کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہنے لگے’’پیر صاحب پر قلبی، خفی،سری،روحی لطائف باطنیہ بھی کشادہ وآشکارتھے۔یہی کسی قطب المشائخ وقطب الارشاد کا مقام بھی ہے کہ وہ ہر اُس شے سے باخبر ہوتا ہے جسے عام آدمی عام سمجھتا ہے۔ مجھے مکّہ شریف کی گلیوں میں عرصہ گزارنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ میں جب بھی چھتے بازار سے باب عمرہ کی سیڑھیاں چڑھ کر حرم میں داخل ہوتاتھا تو اسکی سیڑھیوں پر ایک عام سے شخص کو دیکھا کرتا تھا۔ وہ اپنے انہماک میں ہوتا تھا اور اسکے سامنے چائے کے دو کپ رکھے ہوتے تھے۔ میری اس سے واقفیت ہو گئی تھی۔ میں اکثر سلام دعا کرکے گزرتا تھا۔لیکن وہ عام طور دوسروں سے نظریں ملانے سے بھی گریز کرتا تھا۔ ایک بار پیر صاحبؒ بھی میرے ساتھ تھے۔ جب میں ان کے ساتھ باب عمرہ کی سیڑھیوں پر چڑھ رہا تھا تو وہ شخص والہانہ انداز میں اُٹھا اور پیر صاحب سے نہایت محبت سے ملا پھر دونوں عربی میں گفتگو فرمانے لگے۔ حرم میں داخل ہوتے ہوئے پیر صاحب نے پوچھا ’’جانتے ہو یہ شخص کون ہے؟‘‘
میں نے عرض کیا’’ میں طویل عرصہ سے اسے دیکھ رہاہوں۔ہمیشہ سنجیدہ اور اپنے آپ میں مگن ہوتا ہے۔ اللہ جانے کون ہے‘‘
پیر صاحب چلتے چلتے گویا ہوئے’’ظاہر شاہ یہ قطب مکّہ ہے۔ اسکی ڈیوٹی یہاں لگی ہوئی ہے‘‘ میں لمحہ بھر کے لئے تھم گیا۔ پلٹ کر دیکھنا چاہا مگر اس وقت ہم سیڑھیوں سے اوپر آچکے تھے۔ اس روز کے بعد پھر میں نے اس شخص کو باب عمرہ کی سیڑھیوں پر نہیں دیکھا۔کیونکہ اب اس کا راز مجھ پر عیاں ہوگیا تھا ۔ مجھے برسوں تک اس بات کا افسوس رہا لیکن والد گرامی جیسے مرشد کی رفاقت مجھے میّسر تھی۔لہذا میں اپنے قطب دوراں کی خدمت میں مزید مصروف ہوگیا۔
یہ اپنے اپنے مقام کی بات ہوتی ہے۔اللہ کا ہر بندہ اپنے مقام کی فضیلت سے پرواز کرتا ہے۔طریقت کے باطنی نظام میں جو مقام غوث اعظم کو حاصل ہوتاہے وہ قطب،ابدال،اوتاد،عارف اور اپنے اپنے درجہ پر ولایت سے فائز ہونے والے کو حاصل نہیں ہوتا اور قادرمطلق اپنی جناب سے اور محبوب نبی ﷺ کی رضا سے اپنے ولی کو جس مقام ورتبہ کی فضیلت سے نوازتا ہے وہ اس کے مدار میں رہتے ہوئے اپنی روحانی ذمہ داریوں اور پرواز وتصرفات،نگاہ کی تیزی سے کام لیتا ہے۔حضرت ابوالکمال برقؒ نوشاہی نے مکہ شریف کے قطب کو پہچان لیا تھا لیکن ان سے پہلے ان کا اسرار کسی پر نہیں کھلا تھا حتٰی کہ ان کے لخت جگر نورنظر سید ظاہر شاہ کمال بھی اسے ایک عام انسان ہی سمجھتے رہے تھے۔سید ظاہر شاہ کا کہنا ہے کہ وہ آج بھی یہ کسک دل میں محسوس کرتے ہیں ۔کاش وہ جان لیتے کہ سیڑھیوں پر بیٹھنے والا قطب مکّہ تھا ۔لیکن قطب مکّہ بہرحال حضرت ابوالکمال برقؒ نوشاہی کے صاحبزادے کی حقیقت سے آگاہ تھا۔یہی وجہ تھی کہ وہ جب بھی نماز کے لئے جاتے تو ہمیشہ انہیں التفات نظر سے دیکھتاتھا۔
جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔