سوشل میڈیا پر دوستی، شادی کا وعدہ، سندھ یونیورسٹی طالبہ کی خود کشی کا سبب بنا، ملزم گرفتار
حیدرآباد (ویب ڈیسک) سندھ یونیورسٹی ہاسٹل میں طالبہ نائلہ رندکی خود کشی کا واقعہ فیس بک دوستی کا نتیجہ نکلا ،پو لیس نے بلیک میل کرنے والے عادی ملزم کو گرفتارکر کے اس کے موبائل سے مزید30طالبات کی تصاویر و قابل اعتراض وڈیوزبرآمد کر لیں۔ ملزم انیس خاصخیلی نجی کالج کا لیکچرار اور قائد عوام یونیورسٹی نوابشاہ کے رجسٹرار کا بیٹا ہے۔ڈی آئی جی حیدرآبادخادم حسین رند اور ایس ایس پی جام شوروکیپٹن طارق ولایت نے جمعہ کو مشترکہ ہنگامی پریس کانفرنس میں کہا کہ نائلہ خود کشی کیس میں گرفتاری کی رپورٹ اعلیٰ حکام کو ارسال کردی گئی ہے ،ملزم کی گرفتاری کے بعد نائلہ خود کشی کیس کا معمہ حل ہو گیا ہے۔
طیبہ تشدد کیس،پولیس کے چھاپے،پھوپی کو حراست میں لے لیا
ڈی آئی جی آفس شہباز بلڈنگ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہو ئے ڈی آئی جی حیدرآباد خادم حسین رند نے کہا کہ یکم جنوری کو سندھ یونیو رسٹی کے ماروی ہاسٹل میں شعبہ سندھی سالِ آخر کی طالبہ نائلہ رند نے خود کشی کی تھی جس کے بعد آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے واقعہ کا نو ٹس لیتے ہو ئے تحقیقات کی ہدایت کی تھی۔ جس کے بعد پولیس نے دیانت داری سے تفتیش شروع کر کے خود کشی کا پس منظر جاننے کی کوشش کی، ہاسٹل کے کمرے سے ملنے والے نائلہ کے موبائل فون کے فرانزک ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ اسے قائد عوام یونیورسٹی نوابشاہ کے رجسٹرار کا بیٹا ،مہران گرامر کالج جام شورو کا لیکچرار انیس احمد خاصخیلی جو ایم اے انگریزی ہے، شادی کا جھانسہ دیکراسے بلیک میل کررہا تھا۔ پو لیس نے انیس خاص خیلی کا نام سامنے آنے پراس کے موبائل فون کا فرانزک ٹیسٹ کیا توفون ریکارڈ سے نائلہ کی تصویر ، کال ریکارڈ اوردیگر30سے زائد قابلِ اعتراض وڈیوز برآمد ہو ئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ نائلہ رند دراصل انیس احمد خاصخیلی ولد غلام رسول خاصخیلی کی بلیک میلنگ کا شکار ہو ئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ اگرچہ نائلہ اور انیس دونوں نے اپنے اپنے موبائل فون کا بیشتر ڈیٹا ڈیلٹ کردیا تھا لیکن ڈی ایس آر کے زریعہ ہم نے یہ ڈیٹا بھی نکلوالیاتھا، جس کے مطابق خود کشی سے21منٹ قبل تقریباً 24منٹ تک نائلہ او ر انیس کی موبائل پر گفتگو ہو ئی تھی۔ انہوں نے کہاکہ موبائل فون کے ریکارڈ کے مطابق نائلہ اور انیس خاص خیلی میں تین ماہ سے تعلقات تھے۔ ان کی دوستی فیس بک کے ذریعہ ہو ئی تھی۔ ڈی آئی جی حیدرآبا د نے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق یہ خود کشی کا واقعہ ہے، جو ایک ردِ عمل میں کی گئی ہے۔ انیس نے نائلہ کو استعمال کیا اور پھر شادی سے انکار کردیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں متوفی طالبہ کے حاملہ ہو نے سے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ قتل،قتل شبِعمد،کہلاتا ہے،جس میں انسان ذہنی دباﺅ اورپشیمانی کی وجہ سے ایسا قدم اٹھاتا ہے۔ انیس خاصخیلی نے سائبر کرائم کیا، بلیک میل کر کے خوف و دہشت پھیلائی جس کے نتیجے میں ایک انسانی جان ضائع ہو ئی۔ انہوں نے کہاکہ نائلہ رند کے اہلِ خانہ کی مدعیت میں جام شورو تھانہ میں گرفتا ر ملزم انیس کیخلاف دفعہ
نمبر316,509ppcاور6/7ATA اور سائبر کرائم کی دفعات9،13کے تحت ایف آئی در ج کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ناقابلِ ضمانت جرم ہے جس پرانیس کو عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ ڈی آئی جی حیدرآبا د نے کہا کہ انیس احمد خاصخیلی ایک عادی مجرم ہے ،جس کے موبائل ڈیٹا سے30لڑکیوں کو بلیک میل کر نے اور ان کی قابلِ اعتراض وڈیوز اور تصاویر بھی ملی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جو بھی متاثرہ لڑکیا ں اورخواتین پولیس سے رابطہ کریں گی اور اپنے ساتھ ہو نے والے غلط سلوک کی شکایت کریں گی، انہیں مکمل تحفظ کے ساتھ انصاف دلوایا جائے گا۔انہوں نے کہاکہ ہم نے تفتیشی رپورٹ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور متعلقہ حکام کو ارسال کردی ہے۔
دنیا کا بڑا اسلامی ملک جہاں جسم فروشی غیر قانونی نہیں، نام ایسا کہ کوئی پاکستانی سوچ بھی نہیں سکتا
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں ہم نے تفتیش و تحقیقات کا عمل اس لیے کیا کہ معزز اساتذہ و طالبات کی حرمت کو ملحوظ رکھا جاسکے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ والدین اپنی بچیوں کو یونی ورسٹی بھیجیں اور کسی قسم کے خوف کا شکار نہ ہوں۔انہوں نے کہاکہ گذشتہ روز کمشنر حیدرآباد نے یونی ورسٹی کا دورہ کرکے ہماری تفتیش پر نہیں یونیورسٹی کی کمیٹی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا، تاہم اس دوران یونیورسٹی اور ہاسٹل انتطامیہ کی جو کمزوریاں سامنے آئی ہیں فی الحال اس پر بات نہیں کرنا چاہتا،دوران تفتیش یہ کمزوریاں یونیورسٹی انتظامیہ،اساتذہ اور نائلہ کی ساتھی طالبات سے انکوائری کے دوران سامنے آئیں ہیں، ہاسٹل میں سی سی ٹی وی کیمرے نہیں ہیں۔ ڈی آئی جی حیدرآباد خادم حسین رند نے اس مو قع پر اعلان کیا کہ ڈی آئی جی آفس میں ایک واچ یونٹ قائم کیا جارہا ہے جو کا م کے مقامات (ورک پیلس )پر خواتین کو ہراساں کرنے کے کیسز دیکھے گا۔ واچ یو نٹ میں پولیس کے علاوہ باہر کے لوگوں کو بھی لیا جائے گا۔ اس یونٹ میں یونیورسٹیز، بینک اور محکمہ پولیس سمیت دیگر اداروں میں کام کرنے والی خواتین کے معاملات دیکھے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کام کے مقامات( ورک پیلس) پر لڑکیوں کو ہراساں کرنے کا معاملہ محتسب کے دائرہ اختیار میں آتا ہے لیکن ڈی آئی جی آفس میں خصوصی طورپر اس یونٹ کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے، تاکہ مظلوم لڑکیوں اور خواتین کو فوری امد اد اور قانونی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔اس موقع پر ایس ایس پی جام شورو طارق ولایت نے کہا کہ ہمیں ہاسٹل سے نیند کی گولیوں کے خالی پتے بھی ملے ہیں،ثبوت بہت ہیں،یہ شواہد ہم عدالت میں پیش کریں گے۔