’ہمیں دہشتگرد اغواءکرکے کیمپ میں لے گئے،ایک لیڈر نے ریپ کرنے کی کوشش کی، پھر جب آنکھ کھلی تو میرے جسم پر دھماکہ خیز مواد بندھا ہوا تھا، مجھے کہا گیا کہ۔۔۔‘ نوجوان لڑکی نے ایسی کہانی سنادی کہ ہر شخص کانپ اُٹھے

’ہمیں دہشتگرد اغواءکرکے کیمپ میں لے گئے،ایک لیڈر نے ریپ کرنے کی کوشش کی، پھر ...
’ہمیں دہشتگرد اغواءکرکے کیمپ میں لے گئے،ایک لیڈر نے ریپ کرنے کی کوشش کی، پھر جب آنکھ کھلی تو میرے جسم پر دھماکہ خیز مواد بندھا ہوا تھا، مجھے کہا گیا کہ۔۔۔‘ نوجوان لڑکی نے ایسی کہانی سنادی کہ ہر شخص کانپ اُٹھے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ابوجہ(مانیٹرنگ ڈیسک) نائیجیریا میں شدت پسند تنظیم بوکوحرام نے دیہات پر حملے کر ہزاروں لڑکیوں کو اغواءکر لیا تھا۔ ان میں سے جب کبھی کوئی لڑکی فرار ہونے میں کامیاب ہوتی ہے تو ظلم کی نئی داستان دنیا کو سناتی ہے۔ اب نادیہ نامی ایک بہادر لڑکی تنظیم کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن اس نے ایسی کہانی سنائی ہے کہ آپ بھی اس کی جرا¿ت کی تعریف کریں گے۔ دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق 17سالہ نادیہ کو 4ماہ قبل اس کے سکول سے اغواءکیا گیا۔ شدت پسندوں نے ان کے گاﺅں پر حملہ کیا، ان کے گھر آئے، اس کے والد کو گولی مار دی اور نادیہ سمیت گاﺅں کی درجنوں لڑکیوں کو ساتھ لے گئے۔ اپنے کیمپ میں لیجا کر انہیں شدت پسندوں کے کمانڈر نے لیکچر دینا شروع کر دیا۔ اسی دوران اس کی نظر نادیہ پر پڑی اور اس نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ اس لڑکی کو اس کے گھر پہنچا دیا جائے۔ چنانچہ شدت پسندوں نے نادیہ کو اس کمانڈر کے گھر پہنچا دیا۔
رات کو جب کمانڈر گھر آیا تو اس نے نادیہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن نادیہ نے شدید مزاحمت شروع کر دی۔ اس کا کہنا تھا کہ ”میں نے سوچا کہ ان لوگوں نے ویسے بھی مجھے قتل ہی کر دینا ہے، تو کیوں نہ میں عزت کی موت مروں۔ تمام رات وہ شخص زبردستی کی کوشش کرتا رہا لیکن ہر بار میں پوری قوت استعمال کرکے اس کی خواہش بد کو ناکام بنا دیتی۔ اگلی صبح اس نے اپنے شدت پسندوں کو بلایا اورانہیں حکم دیا کہ وہ مجھے کوڑے ماریں۔ ان لوگوں نے مجھے اتنے کوڑے مارے کہ میں بے ہوش ہو گئی۔ اگلی رات پھر اس کمانڈر نے وہی حرکت شروع کر دی اور میں نے پھر اسی طرح مزاحمت جاری رکھی۔ یہ سلسلہ تین مہینے تک جاری رہا۔ بالآخر اس کمانڈر نے تنگ آ کر مجھ سے جان چھڑانے کی ٹھان لی۔ ایک رات انہوں نے مجھے نشہ آور چیز کھلا کر بے ہوش کر دیا اور جب میں صبح ہوش میں آئی تو میرے جسم سے بارود بندھا ہوا تھا۔“

’جن لڑکیوں کی دادی یہ کام کرتی ہوں، اُن کا پیدائشی طور پر ذہنی معذور ہونے کا خطرہ بے حد زیادہ ہوتا ہے‘
نادیہ نے مزید بتایا کہ ”کچھ دیر بعد کمرے میں کچھ شدت پسند آئے اور مجھے ساتھ لے کر باہر آ گئے۔ وہاں انہوں نے مجھے اپنے ساتھ موٹرسائیکل پر بٹھایا اور دیگر دو جگہوں سے میرے جیسی دو اور لڑکیوں کو بھی ساتھ لیا اور چل دیئے۔ ان لڑکیوں کے جسم سے بھی بم باندھے ہوئے تھے۔ شدت پسندوں نے ہمیں کہا کہ جہاں سب سے زیادہ بھیڑ نظر آئے وہاں جا کر دھماکہ کر دینا۔ ایک جگہ پر لیجا کر انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا اور آگے آبادی کی طرف جانے کا کہہ کر خود واپس چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد ہم تینوں لڑکیوں نے فیصلہ کیا کہ ہم دھماکہ نہیں کریں گی۔ چند منٹ پیدل چلنے کے بعد ہم ایک چیک پوسٹ پر پہنچ گئیں۔ وہاں موجود سکیورٹی اہلکاروں نے ہمیں رکنے کو کہا تو ہم دور ہی رک گئیں اور ہاتھ اٹھا کر چلانے لگیں کہ ہمارے جسموں کے ساتھ بم بندھے ہوئے ہیں۔ ہم خوش قسمت تھیں کہ انہوں نے ہم پر گولی نہیں چلائی۔ انہوں نے فوج کو بلالیا۔ ایک گھنٹے تک ہم ایک درخت کے نیچے کھڑی رہیں۔ اس کے بعد فوج وہاں پہنچ گئی اور انہوں نے ہمارے جسموں سے بم الگ کر دیئے۔ موت کے منہ سے اس طرح نکلنے پر ہم ایک دوسری کے گلے لگ کر خوشی سے رونے لگی تھیں۔“


واضح رہے کہ بوکوحرام کی طرف سے خواتین کو خودکش حملوں میں استعمال کیے جانے کی کئی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ ان میں سے اکثر خواتین نے پکڑے جانے سے بچنے کے لیے بچے بھی اٹھا رکھے ہوتے ہیں تاکہ فورسز کو ان پر شک نہ ہو۔