ہم پر الزام لگانے سے پہلے بھارت کو کشمیریوں پر ڈھائے گئے مظالم کا حساب دینا ہوگا:وزیراعظم کی پاکستانی صحافیوں کے ساتھ ناشتے پر گفتگو

ہم پر الزام لگانے سے پہلے بھارت کو کشمیریوں پر ڈھائے گئے مظالم کا حساب دینا ...
ہم پر الزام لگانے سے پہلے بھارت کو کشمیریوں پر ڈھائے گئے مظالم کا حساب دینا ہوگا:وزیراعظم کی پاکستانی صحافیوں کے ساتھ ناشتے پر گفتگو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نیویارک (عثمان شامی سے) اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب کے اگلے روز، جمعرات کی صبح وزیراعظم نواز شریف نے اپنے ہوٹل میں ناشتے پر صحافیوں سے تبادلہ خیال کیا۔ اِس موقع پر مشیر خارجہ سرتاج عزیز، طارق فاطمی، سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری، اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی اور امریکہ میں پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی بھی موجود تھے۔ صحافیوں سے ملاقات کے دوران وزیراعظم بے حد خوشگوار موڈ میں نظر آئے۔ آتے ہی انہوں نے صحافیوں سے سوالات کے ساتھ ساتھ تقریر پر ردعمل اور بھارت کے خلاف سفارتی جنگ میں تیزی لانے کیلئے تجاویز بھی مانگیں۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بھارت اُڑی حملے کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کررہا ہے لیکن ایسے میں وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اُس نے کشمیریوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے، کتنے بے گناہوں کو شہید اور کتنوں پر شدید تشدد کیا ہے۔ کیا اس ظلم کے جواب میں کشمیری کوئی ردعمل نہیں دیں گے؟ یہی بات دنیا کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُڑی حملے کے 10 سے 12 گھنٹوں کے اندر ہی بھارت نے پاکستان پر الزام لگانا شروع کردیا، کیسے ممکن ہے کہ اتنی جلدی تحقیقات مکمل کرلی گئی ہوں۔ اگر 2 سے 3 ہفتے لیتے تو پھر بھی سمجھ آتا کہ کوئی تحقیقات تو کی گئی ہوں گی لیکن یہ رویہ سمجھ سے بالا تر ہے۔
وزیراعظم کے مطابق انہوں نے کشمیر پر حقائق نامہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو پیش کیا تو چھَروں کا نشانہ بننے والے زخمی کشمیریوں کی تصاویر دیکھ کر وہ بھی ’شاک‘ میں نظر آئے، اُن کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ یہ تصاویر انہوں نے پہلے نہیں دیکھیں لہٰذا فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس دستاویز کی کاپیاں سیکیورٹی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان سمیت او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کو بھی فراہم کی جائیں گی۔
وزیراعظم صحافیوں کے سوالات پر دلچسپ فقروں کا تبادلہ بھی کرتے رہے۔ ایک صحافی نے سوال پوچھتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کا ناشتہ تو یہی ہوتا ہے کہ اچھی خبر مل جائے، آج پتہ نہیں چل رہا کہ ہم نے کھایا ہے یا نہیں تو وزیراعظم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ آپ اس کا ملبہ بھی مجھ پر ڈال دیں۔ اسی طرح ایک صحافی نے دھرنا سیاست کے بارے میں وزیراعظم سے اُن کے خیالات پوچھے تو وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم چپ رہتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، اور اسی طرح الیکشن بھی جیت جاتے ہیں۔
دوسری جانب سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ تاثر قطعاً درست نہیں کہ پاکستان سفارتی محاذ پر تنہا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ عالمی دنیا میں نئی صف بندیاں ہورہی ہیں اور سی پیک کی وجہ سے پاکستان کی اہمیت میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ اُن کے مطابق اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران وسطی ایشیائی ممالک نے بھی اس منصوبے کے حوالے سے انتہائی مثبت تاثرات کا اظہار کیا، اسی طرح سعودی عرب اور اومان سمیت عرب ممالک کا کہنا تھا کہ وہ بھی اس منصوبے کی تکمیل کے شدت سے منتظر ہیں کہ اس کے نتیجے میں تجارت کیلئے راستہ بے حد چھوٹا ہوجائے گا۔ چند یورپی ممالک نے بھی سی پیک میں بے حد دلچسپی کا اظہار کیا اور سب سے بڑھ کر ایرانی صدر نے بھی ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ چاہ بہار اور گوادر کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں۔
وزیراعظم کی تقریر کے جواب میں بھارتی ردعمل بھی توقع سے کچھ زیادہ ہٹ کر نہیں۔ یکے بعد دیگرے بھارتی حکومت کے متعلقین پاکستان کے خلاف آگ اُگل رہے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہے کہ کم از کم پاکستانی وزیراعظم کی تقریر کو بھارت میں بھرپور انداز سے رجسٹر تو کیا گیا ہے اور وزیراعظم کا یہ نیا رنگ بھارتیوں کیلئے بھی شدید حیرت کا باعث ہے۔