ایک طرف بمباری اور دوسری طرف فرانس چپکے چپکے داعش سے کیا فائدہ لے رہا ہے؟ ایسا انکشاف منظر عام پر کہ ہنگامہ برپاہوگیا

ایک طرف بمباری اور دوسری طرف فرانس چپکے چپکے داعش سے کیا فائدہ لے رہا ہے؟ ...
ایک طرف بمباری اور دوسری طرف فرانس چپکے چپکے داعش سے کیا فائدہ لے رہا ہے؟ ایسا انکشاف منظر عام پر کہ ہنگامہ برپاہوگیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دمشق (مانیٹرنگ ڈیسک) مغربی ممالک ایک طرف تو شدت پسند تنظیم داعش کو عالمی امن اور خصوصاً مغرب کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرا ردے کر اس کے خلاف ڈیڑھ سال سے فضائی حملے کررہے ہیں تو دوسری طرف اسی تنظیم کے ساتھ خفیہ تعلقات بھی استوار کر رکھے ہیں۔ ان مشکوک معاملات کے بارے میں پہلے بھی خبریں سامنے آتی رہی ہیں لیکن اب کچھ ایسے تہلکہ خیز شواہد سامنے آگئے ہیں کہ دنیا حیران رہ گئی ہے۔
اخبار ”زمان الوصل“ نے اپنی خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ فرانس کی کمپنی ”لافارج سیمنٹ سیریا“ کئی سال سے داعش کے ساتھ مضبوط کاروباری تعلق استوار کئے ہوئے ہے۔ الیپو شہر کے شمال مشرق میں کمپنی کی بڑی فیکٹری واقع ہے اور یہ کمپنی ناصرف داعش سے تیل خریدتی ہے بلکہ اسے سیمنٹ بھی بیچتی ہے، جو داعش آگے اپنے کسٹمرز کو فروخت کرتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ فرانس میں ہونے والی خوفناک دہشتگردی کے بعد بھی فرانسیسی کمپنی کے داعش کے ساتھ تعلقات جوں کے توں جاری رہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ جولائی 2014ءمیں داعش اور فرانسیسی کمپنی کے درمیان رابطے کا کام کرنے والے احمد نامی شخص نے کمپنی کے ایک اعلیٰ افسر کو ای میل بھیجی جس میں تیل کی قیمت بروقت ادا نہ کرنے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس شخص نے ای میل میں لکھا کہ فرانسیسی کمپنی کو فخر ہونا چاہیے کہ وہ ایک ”بڑی طاقت“ کے ساتھ کاروباری معاملات چلارہی ہے۔ اس شخص نے یہ دھمکی بھی دی کہ کاروباری معاملات ٹھیک نہ رکھنے پر باہمی تعلقات خراب ہوسکتے ہیں جس کے نتیجے میں کمپنی کو بھاری نقصانات کا سامنا کرناپڑسکتا ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ ای میل وصول کرنے والے افسرنے کمپنی کے سی ای او کو معاملے کے متعلق مطلع کیا، جس نے احمد نامی شخص کے ساتھ کاروباری معاملات جاری رکھنے اور اسے مطمئن رکھنے کی ہدایت کی۔ اخبار کے مطابق ”لافارج سیمنٹ سیریا“ اور داعش کے قریبی تعلقات کا علم کمپنی کے فرانس میں واقع ہیڈکوارٹرز کو بھی ہے۔
اس سے پہلے بھی مغربی ممالک کے داعش کے ساتھ خفیہ اور قریبی تعلقات کی خبریں بارہا سامنے آچکی ہیں لیکن ہمیشہ انہیں بے بنیاد قرار دے کر رد کیا جاتا رہا ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ اس بار بھی جب فرانسیسی کمپنی سے رابطہ کیا گیا تو اس کے ذمہ داران نے اس خبر کو افواہ قرار دے دیا، اور یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ کمپنی افواہوں پر تبصرہ نہیں کرتی۔