حکومت کی انتظامی ذمہ داری ہے کہ اسلام آباد کو دھر نے کے شرکاءسے پاک کروائے : فضل الرحمان

حکومت کی انتظامی ذمہ داری ہے کہ اسلام آباد کو دھر نے کے شرکاءسے پاک کروائے : ...
حکومت کی انتظامی ذمہ داری ہے کہ اسلام آباد کو دھر نے کے شرکاءسے پاک کروائے : فضل الرحمان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ حکومت کی انتظامی ذمہ داری ہے کہ آئین اور قانون کے تحت اسلام آباد کو دھر نے کے شرکاءسے پاک کردیاجائے،کیا پاکستان کی پارلیمنٹ اور جمہوریت کا تقدس ہندوستان کی پارلیمنٹ اور جمہوریت سے کم ہے،وزیراعظم مستعفی ہوں گے اور نہ ہی چھٹی پر جائیں گے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے 2001 ءمیں ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ جب انڈین پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا تو اسے جمہوریت پر حملے سے تعبیر کیا گیا۔ آج پاکستان کی پارلیمنٹ پر حملہ کیا جا رہا ہے، کیا ہماری پارلیمنٹ کسی طور ہندوستانی پارلیمنٹ سے کم تر ہے؟، پاکستان کی پوری دنیا میں تذلیل ہورہی ہے، پی ٹی وی کے ہیڈ کوارٹر پر قبضہ ہوگیا، ٹرانسمیشن بند ہوگئی ہے، قوم کے نمائندوں کا یہ فرض منصبی ہے کہ ملک اور قوم پر جب ایسے نازک حالات آجائیں تو وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور مجھے فخر ہے کہ آج پارلیمنٹ میں عوام کے نمائندوں نے وہ عظیم فرض ادا کرنے کا اقدام کیا ہے جو یقینا تاریخ کا ایک حصہ بنے گا۔
 انہوں نے اسلام آباد کے موجودہ حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے کہا کہ کوئی وزیر اور بیوروکریٹ اپنے دفتر میں داخل نہیں ہو سکتا،پارلیمنٹیرین پارلیمنٹ لاجز میں نہیں جا سکتے۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ صرف چار حلقوں کے نام پر پورا نظام لپیٹنا چاہتے ہیں،وزیراعظم سے کہا جاتا ہے کہ وہ تیس روز کے لیے مستعفی ہوجائیں، لیکن اسکا مطلب کیا ہے؟، جمہوریت کےخلاف سازش کو پکڑلیا ہے اور اب اس کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔انہوں نے واضح کیا ہے کہ وزیراعظم کہیں نہیں جائیں گے اور نہ ہم جمہوریت کو کچھ ہونے دیں گے۔انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ پارلیمنٹ ایک اہم کردار ادا کررہی ہے۔نازک وقت میں تمام منتخب نمائندے ذمہ داری پوری کریں۔
جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ موجودہ نازک وقت میں تمام منتخب نمائندﺅں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے،کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، ماضی کی طرح اس بار بھی جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی کوشش کی گئی، پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ جمہوریت پر شب خون مارا گیا ہے،جب جمہوریت کی بساکھ لپیٹ دی جاتی تھی تو ہمیں احساس ہوتا کہ ملک میں اندھیرا چھاگیا ہے ۔
 جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم اور وزراءسے ہمیں بھی شکایتیں تھیں لیکن جب ہم نے دیکھا کہ جمہوریت کے خلاف کچھ غیر جمہوری سیاسی قوتیں جو سیاست اور غیر مسلح ہونے کی باتیں کرتی ہیں ، جمہوریت کے خلاف کھڑی ہوگئی ہیں تو ہم نے حکومت کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کر لیا کیوں کہ یہ بات میاں نواز شریف کی نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے منتخب وزیراعظم کی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں میڈیا کے نمائندوں سے بھی کئی شکایات ہیں ، کوئی اجتماع کراچی یا پشاور میں ہوتو پورا میڈیا ان کے ارد گرد گھومتا ہے، ہم پشاور میں ایک لاکھ عوام کے ساتھ مظاہرہ کررہے ہوں تو میڈیا نے اس کو کوریج نہیں دی، یہاں تک کہ سرکاری ٹی وی نے بھی جلسہ نہیں دکھایا ۔
 انتخابات میں دھاندلی کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ میں نے الیکشن کے اگلے ہی دن پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور اس کی تحقیقات ہونی چاہیے اور آئندہ کے لئے دھاندلی کا سدباب ہونا چاہیے، عمران خان اسی انتخابا ت کے نتیجے میں خیبر پختونخوا حکومت میں بیٹھے ہیں ، صورتحال خراب ہوئی تو کوئی اور فائدہ اٹھالے گا،ملک اور قوم کو لشکریوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ فوج جتنی حکومت کی اور اتنی ہی ہماری ہے،کہا جاتا ہے کہ مسئلے کو طاقت کے استعمال کے بغیر حل کرو۔