قائمہ کمیٹی قومی صحت کی وزارت کو ایک ماہ میں اسٹنٹس کی قیمت مقرر کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت
اسلام آباد(آئی این پی)ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز وریگولیشنز نے وزارت کو ایک ماہ میں اسٹنٹس کی قیمت مقرر کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی ، قائمہ کمیٹی کی حکومت سے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے بجٹ میں اضافہ کرنے اور ادارے کے اصل مقصد کے مطابق لینے کی سفارش ،کمیٹی آئندہ ہفتے این آئی ایچ کا دورہ کر کے مسائل کا بھی جائزہ لے گی .
پولیس اور حساس اداروں کا کوہاٹ میں سرچ آپریشن ، 18مشتبہ افراد گرفتار،اسلحہ برآمد
وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ این آئی ایچ کچھ کارکردگی دکھائے پھر فنڈز میں اضافے کےلئے بھی بات کریں گے ،ہم نے این آئی ایچ پر بڑی محنت کی ہے ، پچھلے پندرہ سالوں میں اس ادارے کا بیڑہ غرق کر دیا گیا ، اتنے معاملات خراب تھے کہ میڈیا پر نہیں لا سکتے ، این آئی ایچ میں باقاعدہ یونینز اور مافیا ہے جو بہت مضبوط ہے ،پاکستان میں کوئی پرائیویٹ ادارہ ویکسین نہیں بناتا جس کی وجہ سے یونیسف کے ذریعے باہر کے ممالک سے مہنگے داموں خریدنا پڑتی ہے ، اگر ویکسین پاکستان میں بننا شروع ہو جائے تو سستے داموں ملے گی اس حوالے سے پرپوزل تیار کیا ہے جو سینیٹ میں پیش کیا جائے گا ۔قائمہ کمیٹی کا اجلاس جمعہ کو چیئرمین سینیٹر سجاد حسین طوری کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاﺅس میں ہوا جس میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کی پرفارمنس فنکشنز بارے بریفنگ اور جعلی اور غیر معیاری اسٹنٹس کے معاملے کا جائزہ لیا گیا ۔اجلاس میں ممبران کمیٹی سینیٹر عائشہ رضا فاروق ،سینیٹر کلثوم پروین ، سینیٹر میاں عتیق شیخ ، سینیٹر غوث محمد خان نیازی، وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ ، سیکرٹری صحت ،ای ڈی این آئی ایچ اور ڈریپ کے سی ای او سمیت دیگر متعلقہ افراد نے شرکت کی ۔ اجلاس کو قائمقام ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ ڈاکٹر مختار نے ادارے کے طریقہ ہائے کار ،کارکردگی اور بجٹ وفنڈز کے حوالے سے بریفنگ دی ۔
سینیٹر میاں عتیق شیخ نے سوال کیا کہ این آئی ایچ میں روزانہ مریضوں سے ہزاروں روپے وصول کئے جاتے ہیں اور الرجی کا ایک بھی سپیشلسٹ نہیں ۔سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ پولیو کے خاتمے کے حوالے سے این آئی ایچ کا کردار قابل تعریف ہے ۔ وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میں یونین بہت مضبوط ہیں ، باقاعدہ ایک مافیا بنا ہوا ہے ، پورے ادارے میں 100لوگ بھی سپیشلسٹ نہیں ہوں گے ، یونین نے اپنے بندوں کو بھرتی کروا رکھا ہے ، اس حوالے سے قانون سازی کر کے ٹیکنیکل لوگوں کو آگے لانے کی ضرورت ہے ۔ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروس ریگولیشنز اتھارٹی نے کہا کہ گزشتہ دنوں کانگو وائرس کا مسئلہ رہا تاہم این آئی ایچ کے پاس ایسا اختیار نہیں کہ دوسرے صوبے میں جا کر کام کر سکے ۔وزیر مملکت نے کہا کہ جب تک وفاقی حکومت کو مینڈیٹ نہیں ملے گا کام نہیں چلے گا ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہم جس کو پکڑتے ہیں وہ صفر سے کہانی شروع کر دیتا ہے ، موجودہ حکومت کو بھی چار سال ہو گئے ہیں آپ نے کیا کیا۔ حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ مشنری تیس سال پرانی ہے ، فنڈز نہ دیئے جانے کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہوتا ہے ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جب آپ کو مسائل تھے تو ہمیں کیوں آگاہ نہیں کیا گیا ۔ وزیر مملکت نے کہا کہ جو چیزیں ہمیں چاہئیں اس کا قائمہ کمیٹی سے کوئی تعلق نہیں ، آپ ہمیں فنڈز نہیں دلا سکتے تھے ، فنڈ کے لئے پلاننگ کمیشن گئے تاہم مشنری کی اپ گریڈیشن کےلئے پیسے نہیں ملے ۔ این آئی ایچ میں پچھلے پندرہ سال میں کوئی کام نہیں ہوا صرف ہماری حکومت میں بہتری آئی ہے ، ہم نے این آئی ایچ پر بڑی محنت کی ہے ، ہم سے پہلے ادارے کیا ہوتا تھا میڈیا کے سامنے نہیں بتا سکتے ۔
ٹرانسپورٹ کا استعمال بھی کسی اور مقصد کےلئے ہوتا تھا ۔ ای ڈی این آئی ایچ نے کہا کہ ہمارے پاس فنڈز ہی نہیں لوگوں کو چھ چھ ماہ سے تنخواہیں نہیں ملتیں پہلے ہمیں پیسے پھر کارکردگی مانگیں ۔ وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ پہلے آپ کچھ کارکردگی دکھائیں پھر فنڈز کےلئے بھی بات کی جا سکتی ہے ۔قائمہ کمیٹی نے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے فنڈ میں اضافے کی سفارش کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ادارے کو جس مقصد کےلئے بلایا گیا اس سے وہی کام لیا جائے ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیٹی آئندہ ہفتے این آئی ایچ کا دورہ کر کے مسائل کا بھی جائزہ لے گی ۔وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ پاکستان میں کوئی پرائیویٹ ادارہ ویکسین نہیں بناتا جس کی وجہ سے یونیسف کے ذریعے باہر کے ممالک سے مہنگے داموں خریدنا پڑتی ہے ، اگر ویکسین پاکستان میں بننا شروع ہو جائے تو سستے داموں ملے گی اس حوالے سے پرپوزل تیار کیا ہے جو سینیٹ میں پیش کیا جائے گا ۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اسلم افغانی نے اسٹنٹس کے معاملے پر کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ہمارے پاس 55قسم کے اسٹنٹس رجسٹرڈ ہیں ، ہم نے رجسٹریشن سے قبل کمپنیز کو معیاری اسٹنٹس بنانے کےلئے دو سال کا وقت دیا تاہم بعض لوگ اسٹنٹس کے پرزے بھی استعمال کرتے ہیں ۔ زائد المیعاد اسٹنٹس استعمال کرنے کے کیسز بھی سامنے آئے ہیں ۔ 50مزید کمپنیوں کی اسٹنٹس رجسٹرڈ کرانے کےلئے درخواستیں آئی ہیں تاہم ضمانت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں رجسٹرڈ نہیں کیا گیا ، ان میں سے 20مزید اسٹنٹس کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے ۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ انسانی جانوں سے کھیلا جا رہا ہے معاملے پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا ہے ، غیر معیاری اسٹنٹس لگانے کے معاملے میں جو بھی ادارے یا افراد ملوث ہیں عدالت عظمیٰ انہیں عبرتناک سزا دے ۔
سینیٹر عتیق شیخ نے کہا کہ اسٹنٹس کا معاملہ آپ نے چار سال سے لٹکا رکھا ہے جس پر سیکرٹری صحت ایوب شیخ نے کہا کہ پوری دنیا میں میڈیکل ڈیوائسز قیمتوں سے متعلق کوئی قانون نہیں صرف ہم درآمد شدہ ادویات اور میڈیکل ڈیوائسز کی قیمتوں کےلئے پالیسی لے کر آرہے ہیں ، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ادویات کےلئے ایسی پالیسی بنائیں کہ قیمتیں پڑوسی ممالک سے زیادہ نہ ہوں ۔ وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ ادویات کی قیمتوں پر ایک سٹے آرڈر ختم کیا تو ڈیلرز نے گلگت بلتستان کی عدالت سے سٹے لے لیا ، ہماری آدھی وزارت عدالت میں ہوتی ہے ۔قائمہ کمیٹی نے ایک ماہ میں اسٹنٹس کی قیمت مقرر کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی ۔ممبران کمیٹی نے کہا کہ اسٹنٹس کے معاملے پر کسی بھی مریض کو کوئی شکایت ہوتو کمیٹی کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے درخواست اور شکایت کرے ۔درخواست کوپی ایم ڈی سی بجھوائیں گے ۔ پی ایم ڈی سی متعلقہ ڈاکٹر کے خلاف کاروائی کرے ۔