قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن بل 2017مسترد کر دیا
اسلام آباد (آئی این پی)قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن بل 2017مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن بل سے 2018کے انتخابات شفاف نہیں ہوں گئے، عام انتخابات 2018کیلئے نیا الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے،الیکشن کمیشن کے ممبران اور نگران حکومت کا تقرر پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے کیا جائے،اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے،ووٹرز کی بائیومیٹرک تصدیق کے بغیر انتخابات صاف اور شفاف نہیں ہوسکتے۔پارلیمانی انتخابی اصلاحات کمیٹی میں الیکشن کمیشن اور نادرا کی جانب سے جو مدد ملنا چاہئے تھی وہ نہیں ملی ، بیوروکریٹ مائنڈ سیٹ تبدیلی نہیں چاہتا،کمیٹی میں الیکشن کمیشن نے بائیو میٹرک مشینوں کے ذریعے سمندر پار پاکستانیز کو ووٹ ڈالنے کا جامع پلان دیا مگر اسکو بل کا حصہ نہیں بنایا گیا،قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں اخراجات کی حد40لاکھ مقرر کر کے غریب سے الیکشن لڑنے کا اختیار لے لیا گیا،آرٹیکل 62،63کی طرح الیکشن بل میں اخراجات کی حد کی شق بھی پارلیمنٹرین کیخلاف استعمال ہو سکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری ،پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر،ایم کیو ایم کے ایس اے اقبال قادری اور جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے الیکشن بل 2017پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا۔
بل پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈرسید نوید قمر نے کہا کہ انتخابی اصلاحات پر کام تین سال قبل شروع ہوا۔ 2013 کے انتخاب کو کسی نے تسلیم نہیں کیا تھا کوئی اسے آر اوز کا الیکشن کہتا تھا کوئی کچھ۔ اس پر دھرنے بھی ہوئے اور سپریم کورٹ کا کمیشن بھی بنا۔ پارلیمنٹ میں فیصلہ ہوا کہ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں گی اور ایک ایسا نظام لیکر آئیں گی کہ الیکشن میں دھاندلی کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو اس مقصد کے لئے کمیٹیاں بنیں جس نے ماضی کے تمام قوانین کا جائزہ لیا۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی میں تمام جماعتوں نے اپنا کردار ادا کیا ۔ مگر جو بل حکومت نے ایوان میں پیش کیا ہے اس میں کچھ خامیاں ہیں جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ پارلیمانی انتخابی اصلاحات کمیٹی میں پہلے نادرا کی جانب سے ڈیٹا شیئرکرنے میں ہچکچاہٹ ظاہرکی گئی، بعد میں باقی اداروں نے بھی ہچکچاہٹ ظاہر کر دی،بائیومیٹرک نظام میں یقیناًزیادہ پیسے لگیں گے، بائیومیٹرک کی تنصیب سے جمہوری نظام کو استحکام ملے گا، مگر 2018تک الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی تنصیب بھی نہیں دیکھ رہے۔انہوں نے کہا کہ انتخابات میں جعلی بیلٹ پیپرز کی روک تھا کیلئے حکومت اچھی کوالٹی کے بیلٹ پیپرکے کاغذ کیلئے رضامندی ظاہرکریگی۔سید نوید قمر نے کہا کہ حکومت کی جانب سے پیش کردہ الیکشن بل کے تحت 2018کے ہونے والے انتخابات میں شفافیت نہیں آئے گی۔ اگر 2018 کے انتخابات پر پھر انگلیاں اٹھیں تو یہ ہم سب کی ناکامی ہوگی۔
سید نوید قمر نے کہا کہ انتخابات کے قوانین کو یکجا کرکے ایک بل بنایا گیا ۔نئے بل میں دس فیصد جس پولنگ اسٹیشن پر خواتین کی شرکت کم ہوگی اس کو کالعدم قرار دیا جائے گا اسی طرح تمام سیاسی جماعتیں پانچ فیصد ٹکٹیں خواتین کو دیں گی۔ انہوں نے کہا کہ نئے قانون میں قومی اسمبلی کے الیکشن کیلئے اخراجات کی حد چالیس لاکھ مقرر کی گئی ہے ہماری خواہش ہے کہ دیہات سے الیکشن لڑنے والے مقرر حد کے اندر رہ کر الیکشن میں حصہ لے سکیں۔ دیہات میں الیکشن کے روز لوگوں کو پولنگ بوتھ تک پہنچانے کے لئے بہت زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ آرٹیکل 62,63 کو کوئی نہیں دیکھتا تھا مگر آج حالات بدل گئے ہیں بل میں الیکشن لڑنے کے لئے اخراجات کی حد چالیس لاکھ مقرر کی گئی جو بہت کم ہے کل آرٹیکل 62,63 کی طرح یہ شق بھی کسی کے خلاف استعمال ہوسکتی ہے ۔
تحریک انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ہم نے انتخابی اصلاحات کمیٹی میں بہت اہم کردار ادا کیا اسی طرح تمام پارلینٹرین نے کمیٹی میں اہم کردار ادا کیا مگر اس بل پر تحریک انصاف کو بہت سے خدشات ہیں۔ ہماری خواہش تھی کہ آئین میں ترمیم اور بل ایک ساتھ پیش کئے جاتے مگر ایسا نہیں ہوا اور صرف بل ایوان میں پیش کردیا گیا۔ کمیٹی اجلاسوں میں الیکشن کمیشن اور نادرا کی جانب سے جو ہمیں مدد ملنا چاہئے تھی وہ نہیں ملی یہ بیوروکریٹ مائنڈ سیٹ ہے جو تبدیلی نہیں چاہتا۔ تحریک انصاف کے چار ایشوز پر تحفظات ہیں جس میں سمندر پار پاکستانیز جن کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا جائے‘ ایک ملین پاکستانیز ہیں جن کے پاسپورٹ اور نائی کوپ موجود ہے ،انتخابی اصلاحات کی سب کمیٹی میں الیکشن کمیشن نے بائیو میٹرک مشینوں کے ذریعے سمندر پار پاکستانیز کو ووٹ ڈالنے کا حق دینے کیلئے ایک جامع پلان دیا اس کے باوجود بل میں سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق نہیں دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کو خود مختار ادارہ ہونا چاہئے الیکشن کمیشن کے ممبران کا تقرر پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہونا چاہئے۔ پارلیمانی کمیٹی میں پچاس فیصد ممبران حکومت اور اتحادی جماعتوں کے جبکہ پچاس فیصد اپوزیشن کے شامل ہونے چاہئیں۔ 2018 کے انتخابات کیلئے نیا الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے۔ اس طرح نگران حکومت کا انتخاب بل الیکشن کمیشن کے ممبران کے انتخابا کی طرح کی جائے۔ بائیو میٹرک مشینوں کے بغیر الیکشن میں دھانالی کو نہیں روکا جاسکتا۔ کمیٹی میں حکومت کی جانب سے انوشہ رحمن نے بائیو میٹرک تصدیق کے عمل کی حمایت کی تھی مگر بل میں اس کو شامل نہیں کیا گیا۔ آئینی ترمیم نہ کی گئی تو صرف بل پاس کرنے سے الیکشن میں دھاندلی کو نہیں روکا جاسکتا۔
ایم کیو ایم کے ایس اے اقبال قاری نے کہا کہ ہماری تجاویز کو حکومت نے بل میں شامل کرلیا ہے بل میں قومی اسمبلی کیلئے تیس اور صوبائی اسمبلی کے لئے بیس ہزار سکیورٹی فیس مقرر کی گئی ہے جو غلط ہے جبکہ الیکشن اخراجات کو بڑھا کر چالیس لاکھ کردیا گیا ہے جس پر ہمیں اختلاف ہے بل میں سیاسی جماعتوں کو الیکشن پر اخراجات کی حدختم کردی گئی ہے اس سے غریب آدمی الیکشن نہیں لڑسکے گا۔جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ خواتین کومعاہدے کے تحت ووٹ کے حق سے محروم رکھناجرم ہے، اگرکوئی معاہدہ نہ ہو توالیکشن کالعدم قرار نہیں دیاجاناچاہیے، انتخابات میں کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، سیاسی جماعت کیلئے انتخابی مہم پر20کروڑروپے کی حدزیادہ ہے، 70 لاکھ اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کی سہولت ملنی چاہیے۔