این آر او عملدرآمد کیس میں "ناں" نے "ناں" کو "ناں" کردی ،سپریم کورٹ نے راجہ کو" رستہ "دکھا کرمہلت دے دی

این آر او عملدرآمد کیس میں "ناں" نے "ناں" کو "ناں" کردی ،سپریم کورٹ نے راجہ کو" ...
این آر او عملدرآمد کیس میں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) این آر او عمل درآمد کیس میں حکومت کی طرف سے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی بنچ سے علیحدگی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سوئس حکام کوخط لکھنے کے لیے آٹھ اگست تک کی مہلت دے دی ۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کہاکہ سب کے ساتھ برابری کا سلوک کریں ، نیب عدالت کو جوابدہ ہے اور نہ ہی عدالتی حکم پر عمل ہوسکتاہے ۔این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے میں خامیاں ہیں اور بنچ کے سربراہ خود کو بنچ سے الگ کرلیں ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ عدالت کو کوئی ذاتی مفاد نہیں ، اِس مرتبہ خلیل جبران کی بات نہیں کریں گے ، کچھ اور کہیں گے ۔ایک موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ عدالت کے لیے چوہے اور ہاتھی سب برابر ہیں ۔عدالت نے کہاکہ عرفان قادرنے بتایاکہ آصف زرداری کو جنیوا میں منی لانڈرنگ کے کیس میں سزا ہوئی، عدالت کو وزیراعظم گھر بھیجنے کا شوق نہیں لیکن قانون کے مطابق عدالت کے پاس سیاست کی طرح ایڈجسٹمنٹ ممکن نہیں ، دس بار پوچھا لیکن استثنیٰ کی کسی نے بات نہیں کی ۔عدالت نے آٹھ اگست تک مہلت دیتے ہوئے کہاکہ اِس دوران حکومت نظرثانی کی درخواست دائر کرسکتی ہے اور امید ہے کہ آئندہ سماعت تک کوئی قابل اعتماد حل نکل آئے گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے استفسارکرنے پراسیکیوٹر جنرل نیب نے عدنان خواجہ سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کرتے ہوئے بتایاکہ احمد ریاض تقرر کیس کی تحقیقات مکمل ہوگئی ۔ جسٹس کھوسہ نے استفسار کیاکہ احمد ریاض شیخ کے خلاف ریفرنس ابھی تک دائر کیوں نہیں ہوا جس پر نیب حکام نے بتایاکہ معاملہ پراسیکیوشن کو بھجوادیاگیاہے اورریفرنس کا حتمی فیصلہ ہوچکاہے ۔جسٹس آصف سعید نے کہاکہ ملک قیوم کے معاملے میں نظرثانی کیس میں عدالت نے کچھ نرمی کی تاہم فیصلہ ذہن میں رکھیں ، عمل نہ کرنے سے نیب کے لیے پیچیدگیاں ہوسکتی ہیں جس پر نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ ملک قیوم کے معاملے پر پیچیدگیاں ہیں جس کے لیے قانون رائے درکار ہوگی اور اُس کی انوسٹی گیشن میں مزید چار ہفتے لگ سکتے ہیں۔عدنان خواجہ کے وکیل ڈاکٹر عبدالباسط نے کہا” نیب نے بتادیاتحقیقات مکمل ہوگئیں ، ہمارا کیس اِس سے کیس سے الگ کردیں ، وزیراعظم ہاتھی اور ہم چوہے ہیں “ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کاکہناتھاکہ عدالت کے لیے سب برابر ہیں ۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ این آر او سے متعلق عدالتی فیصلے میں خامیاں ہیں اور جس جج پر تعصب کا الزام لگے تو اُسے خو د کو بنچ سے الگ کرلیناچاہیے لہٰذا جسٹس کھوسہ بنچ سے الگ کریں ۔جسٹس آصف سعید نے بتایاکہ موجودہ اٹارنی جنرل نے ہی کہاتھاکہ آصف زرداری کو جنیوا میں منی لانڈرنگ کیس میں سزا ہوئی تھی اور آپ نے بات کی تھی کہ سماعت نہ کروں ،اِس میں عدالت کاکوئی ذاتی مفاد نہیں ، اِس مرتبہ خلیل جبران کی بات نہیں کریں گے ، کچھ اور ہی کہیں گے اور اٹارنی جنرل کا مطالبہ مسترد کردیا۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ قومی احتساب بیورو(نیب )عدالت کو جوابدہ نہیں ، تین سال ہوگئے ابھی تک عمل درآمد مکمل نہیں ہوا اورصرف وزیراعظم کو عمل درآمد کے لیے کہاجارہاہے ۔عرفان قادر نے کہاکہ ایک وزیراعظم کو غیر آئینی طورپر گھر بھیج دیاگیااوراُس فیصلے پر تشویش ہے جبکہ عدالتی حکم پر عمل نہیں ہوسکتا۔ اٹارنی جنرل کاکہناتھاکہ عدالت نے خود ہاتھی اور چوہے کو ایک طرح دیکھنے کی بات کی لہٰذا دیگر لوگوں کی طرح ہمیں بھی وقت دیں جس پر عدالت کاکہناتھاکہ آپ کو سوئس مقدمات سے متعلق معلومات فراہم ہوچکی ہیں ۔ جسٹس آصف سعید نے کہاکہ کسی وزیراعظم کو گھر بھیجنے کا شوق نہیں ، آپ سوچیں ، راستے نکل سکتے ہیں ، حل موجود ہے ،ہم پہلے پاکستانی ہیں ، عالمی استثنیٰ کی صورت میں مدد کو تیار ہیں ، صدر ہمارے بھی ہیں لیکن قانون کے مطابق عدالت کے لیے ایڈجسٹمنٹ ممکن نہیں ، یہ سیاست نہیں ، سیاست میں ایڈجسٹمنٹ ہوتی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ ایڈجسٹ کرکرکے ٹوٹ گئے ہیں ، آپ رکاوٹیں ڈالنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں ۔بنچ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ دس بار پوچھا کہ استثنیٰ کی بات کررہے ہیں جواب ہمیشہ نفی میں ملا۔اٹارنی جنرل نے عید کے بعد تک کی مہلت مانگی جس پر عدالت نے آٹھ اگست تک مہلت دیتے ہوئے اپنے حکم نامے میں کہاہے کہ اِس دوران حکومت نظرثانی کی درخواست کرسکتی ہے ۔ فیصلے کے مطابق اٹارنی جنرل نے مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ کوشش کی یقین دہانی کرائی اور توقع کرتے ہیں آئندہ سماعت تک قابل اعتماد حل نکل آئے گااور اداروں کے درمیان نام نہاد تناﺅ کم ہوگا۔