اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو با اختیار بنانا تھا لیکن بد قسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوا،بلوچستان کا زیادہ تر علاقہ قدرتی گیس کی سہولت سے محروم ہے:اسرار اللہ زہری

اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو با اختیار بنانا تھا لیکن بد قسمتی سے ایسا کچھ ...
اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو با اختیار بنانا تھا لیکن بد قسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوا،بلوچستان کا زیادہ تر علاقہ قدرتی گیس کی سہولت سے محروم ہے:اسرار اللہ زہری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد(صباح نیوز) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کے چیئرمین سینیٹر میر اسرار اللہ خان  زہری نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوے کہا کہ اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو با اختیار بنانا تھا لیکن بد قسمتی سے ایسا کچھ نہیں ہوا ، قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان کا زیادہ تر علاقہ قدرتی گیس کی سہولت سے محروم ہے ، جن جن علاقوں سے کمپنیاں تیل، گیس اور دوسرے قدرتی وسائل ومعدنیات کی پیداوار حاصل کررہی ہیں ان علاقوں کے شہریوں کو معاہدوں کے باوجود سماجی وفلاحی منصوبہ جات میں طے شدہ منافع میں سے اخراجات بہت کم کررہی ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ خضدار میں بیرائیٹ تلاش اور پیداوار کا معاہدہ کرنے والی بلوچستان مائنگ انٹرپرائززسیکورٹی کے نام پر 150سیکورٹی گارڈز کی تنخواہیں ڈپٹی کمشنرقلات کو ادا کررہی ہے۔ لیکن مقامی لوگوں کو تعلیم ، صحت کی سہولیات کی فراہمی پر گذشتہ 5سال سے منافع کی نہ ہونے کے برابر رقم خرچ کی گئی۔

اجلاس میں بی ایم ای حکام اراکین کمیٹی کی طرف سے خالص منافع، فلاحی کاموں میں خرچ کی جانے والی رقم ،پچھلے پانچ سالوں کی کارکردگی اور 150 ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے کے سوالات میں سے ایک کا بھی کا جواب نہ دے سکے ۔ سینیٹر نثار محمد مالاکنڈ نے سوال اٹھایا کہ کس قائدے کے تحت بغیر نام و پتہ حاصل کیے بغیر ڈپٹی کمشنر کو لیوی ملازمین کی تنخواہیں دی جارہی ہیں اورکہا کہ کمیٹی کو تنخواہ وصول کرنے والے افراد کی فہرست فراہم کی جائے ۔ جس پر بی ایم ای کے سربراہ نے کہا کہ فہرست موجود نہیں کمشنر قلات سے منگوا کر فراہم کرونگا ۔ سینیٹر نثار محمد مالاکنڈ نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی کو تجویز دی کہ بغیر فہرست سے تنخواہ ادائیگی جرم ہے ۔ بی ایم ای کی نااہل انتظامیہ کو فارغ کیا جائے ۔ سینیٹر اعظم موسیٰ خیل نے حمائت کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی کے حکام نے غلط بیانی سے کام لیا ہے ۔ اور کہا کہ اگر کوئی واقعہ ہو جائے تو کون ذمہ دار ہوگا۔ فہرست ہی موجود نہیں ۔ سینیٹر باز محمد نے کہا کہ عجیب بات ہے تنخواہیں دی جارہی ہیں اور لوگوں کے نام پتے معلوم نہیں ۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر اسرار اللہ زہری نے کہا کہ جس علاقے سے بے رائٹ نکل رہا ہے وہاں کے مالکان زمین اور معززین نے تحریری طور پر حق ملکیت کرایہ ادا نہ کرنے ،مقامی لوگوں کو مستقل نہ کرنے ، غیر قانونی طور پر بے رائٹ کی لوڈنگ ان لوڈنگ کی تحریری شکایات بجھوائی ہیں ۔ علاقے میں کوئی فلاحی کام نہیں کیا گیا ۔ لیکن آفسیر کلب کی عمارت پر رقم خرچ کی گئی ہے ۔ لوگ خوف کی وجہ سے خاموش ہیں ۔ معاملے کو حل کیا جائے ،سینیٹر نثار محمد مالاکنڈ نے کہا کہ کمیٹی سخت کارروائی عمل میں لائے ذمہ داران کو جیل میں ہونا چاہیے ۔ بی ایم ای سربراہ نے کہا کہ معاہدے کے تحت خالص منافع میں سے ایک عشاریہ پانچ فیصد فلاحی کاموں پر خرچ کرنا ہوتا ہے ۔ ضلعی انتظامیہ اور علاقائی کمیٹی نے کوئی بڑا منصوبہ تجویز نہیں کیا ۔ 2006میں پیدوار 44 ہزار ٹن تھی چار گنا اضافے سے اب پیداوار ایک لاکھ64 ہزار ٹن ہے ۔ پچھلے دس سالوں میں 8 لاکھ37 ہزار ٹن فروخت ہوئی ۔ اور بتایا کہ ایک کروڑ کا بجٹ موجود ہے ۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ پچھلے پانچ سالوں میں فلاحی منصوبوں پر اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے پانچ کروڑ کی بچ جانے والی رقم کو خرچ کرنے کیلئے پیدا واری علاقوں میں کوئی حقدار یا غریب نہیں ملا ناقابل یقین ہے ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ 66 ہزارٹن پیدا وار اور فروخت میں فرق کیوں ہے ۔اور کہا کہ بلوچستان کی معدنیات اور قدرتی ذخائر سے حق ملکیت زمین سے کرایہ نہ ملنے اور بلوچستان کے شہریوں کو سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے مالکان زمین نے حیران کن حد تک موجود قدرتی ذخائر اور معدنیات کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔ سینیٹر نثار محمد مالاکنڈ کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اوسطاً قیمت بیرون ملک 7 ہزار فی ٹن اور مقامی قیمت 12 ہزار ہے ۔ بلوچستان منرل رولز 2002 کے تحت بلوچستان حکومت کو رائیلٹی ادا کرتے ہیں ۔ خضدار ضلع میں کل نمبروں میں سے دس فیصد میرٹ میں کمی کر کے طلباء کو وظائف دیئے گئے ۔ منافع میں سے فلاحی تقسیم 2 فیصد کریں گے ۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ منافع ،پیدا وار ، بیلنس شیٹ ایک عشاریہ پانچ فیصد فلاحی کاموں پر اخراجات کی تفصیل درست نہیں ۔ کمیٹی کو غلط اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں ۔ ایوان بالاء کی کمیٹی کو درست تفصیل نہ دینا قابل سزا ہے ۔ جس پر کمیٹی نے بی ایم ای انتظامیہ کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ۔ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت نے کہا کہ کمپنی کی بریفنگ پر کمیٹی کے تحفظات ، خدشات پر آئندہ ون پوائنٹ ایجنڈا جلاس منعقد کیا جائے ۔ ممبر ان کمیٹی نے کہا کہ کمپنی انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی سفارش ہو چکی ہے ۔ تحریری طور پر منٹس میں بھی شامل کی جائے ۔ خضدار سے بے رائٹ پیدا وار علاقے سے نچلی طرف ایک اور ذخیرے کے بارے میں بتایا گیا کہ 21 سو میٹر کی آزمائشی ڈرلنگ کے بعد 10 ہزار میٹر کی ڈرلنگ جاری ہے نیا پلانٹ لگایا جائے گا۔بڑے ذخائر کی اُمید ہے ۔ 4 سو افراد کو ملازمت کے مواقع ملیں گے ۔ سینیٹر اعظم موسیٰ خیل نے کہاکہ موسیٰ خیل میں 1994 میں گیس کے ذخائر ملے کام بند کر دیا گیا ۔ حال ہی میں او جی ڈی ایل کے ماہرین نے دوبارہ سروے کیا ہے ، کمیٹی کو رپورٹ دی جائے ، جس پر وزارت پیٹرولیم حکام نے بتایا کہ زنوا کمپنی نے پی پی ایل کی پیشکش کو مان لیا ہے ، معاملہ وفاقی کابینہ کو بجھوا دیا گیا ہے تاکہ پچھلے معاہدے میں ترمیم کی جا سکے ۔

سینیٹر نثار محمد مالاکنڈ نے کہا کہ کرک ، گھرگری میں غیر قانونی کنکشن ، بے ضابطگیوں ، نقصانات ، انفراسٹرکچر اور سینیٹر باز محمد خان کی بنوں ٹاؤن شپ کی منظور شدہ گیس فراہمی سکیم پر عملدآمد نہ ہونے پر ذیلی کمیٹی تشکیل دے کر موسیٰ خیل کی گیس کا معاملہ بھی شامل کیا جائے ۔ چیئرمین کمیٹی نے سینیٹر نثار محمد مالاکنڈ کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی جس میں ممبران سینیٹرز باز محمد خان، محمد اعظم خان موسیٰ خیل شامل ہونگے بنا دی ۔ کمیٹی اجلاس میں سینیٹر نثار محمد مالاکنڈ ، باز محمد خان، سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل ، ایم حمزہ ، محسن عزیز کے علاوہ وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی ، وزارت پیٹرولیم اور بی ایم ای حکام نے شرکت کی ۔ وفاقی وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی تھوڑی دیر کمیٹی اجلاس میں شریک ہوکرکابینہ اجلاس میں شرکت کرنے کیلئے چیئرمین کمیٹی و اراکین سے اجازت لے کر روانہ ہو گئے ۔

مزید :

اسلام آباد -