معلوماتی سفرنامہ۔ ۔ ۔ دوسری قسط

معلوماتی سفرنامہ۔ ۔ ۔ دوسری قسط
معلوماتی سفرنامہ۔ ۔ ۔ دوسری قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ قصہ ہے جب کا۔۔۔
مانچسٹر سے روانگی پر پائلٹ نے اعلان کیا کہ جہاز 6 گھنٹے میں نیویارک پہنچے گا۔ رات کا سفر تو جیسے تیسے نیند کی گولی نے کٹوادیا اور میں نیند کے سمندر میں ڈوبتا ابھرتا رہا تھا۔ مگر میں نیند کی گولی دوبارہ نہیں لینا چاہتاتھا۔سوال یہ تھا کہ اب دن میں کیا کروں۔ چنانچہ اس دفعہ میں نے ماضی کا دروازہ کھول کر یادوں کی وادی میں بھٹکنا شروع کردیا۔ میرے سفر کی یہ داستان اس وقت شروع ہوئی جب میں اس اسلامک اسٹڈیزاور کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں ماسٹرز کا امتحان دیکر فارغ ہوا تھا۔ اس دوران میں عمرے کے لیے سعودی عرب گیا تو وہاں جاکر پہلی دفعہ لوگوں میں کینیڈا جانے کا رجحان دیکھا۔ تاہم میں نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔ مجھ پر اس زمانے میں ملک وقوم کی خدمت کا بھوت سوار تھا۔حتیٰ کہ اُسی سفر میں مجھے ایک اچھی جاب کی پیشکش بھی ہوگئی لیکن میں وہ بھی چھوڑ کر آگیا۔ بعد میں یہ بھوت قوم نے خود ہی جوتے مار مار کر اتار دیا۔اب میں اس کی تفصیل کیا بیان کروں۔ اپنے زخم کریدنا کوئی پرلطف کام نہیں اس لیے اس ذکر کو جانے ہی دیں تو بہتر ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ عمرے سے واپسی کے بعد پے در پے ایسے واقعات پیش آتے چلے گئے کہ میں نے ملک، قوم اور ان کی خدمت تینوں پر لعنت بھیجی اور اپنے بڑے بھائی رضوان کے کہنے پر جنہیں اسی وقت امیگریشن ملی تھی، کینیڈا کی امیگریشن کا فارم بھردیا۔ انہوں نے کینیڈا جانا تھا نہ گئے لیکن میرے سفرکا سبب بن گئے۔

ٹورنٹو براستہ سری لنکا, معلوماتی سفرنامے کی پہلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
قوم اور نبی
کینیڈا کی امیگریشن کے لیے کینیڈا سے باہر کسی بھی ملک میں کینیڈین ایمبسی میں درخواست دی جاسکتی ہے۔ میں نے اپنی درخواست سری لنکا بھیجی۔ مگر اس زمانے میں وہاں کافی رش ہوگیا تھا۔ لہٰذا میرا انٹرویو جو نو ماہ میں متوقع تھا غیر معینہ عرصے کے لیے آگے چلا گیا۔ مجھے اس دوران اپنے لوگوں کی پست کرداری، بداخلاقی، مفاد پرستی، تعصب، منافقت اور بے ایمانی کے اتنے پہلوؤں سے واسطہ پڑچکا تھا کہ میرا ایک لمحے کے لیے بھی پاکستان میں رکنا مشکل ہوگیا۔ چنانچہ جیسے ہی پہلا موقع ملا، میں ملازمت کے لیے سعودی عرب چلا گیا۔
آج جب ان واقعات پر کئی برس گزر گئے ہیں اور انسانوں کے ہاتھوں لگائے ہوئے زخم خدا نے اپنے مرہمِ عنایت سے مندمل کردیے ہیں مجھے اپنی قوم پر غصہ نہیں افسوس ہوتا ہے۔ مجھے اللہ کریم نے اپنے پڑوس میں کئی سال رکھا۔وہاں خدا کی عنایتوں کے درمیان، مکے اور مدینے کی گلیوں میں، ایک بہت بڑی بات میں نے سیکھی۔ وہ یہ کہ نبیوں کا طریقہ یہ نہیں ہوتا کہ قوم کی دی ہوئی تکلیفوں پر انہیں بد دعائیں دیں یا انہیں برا بھلا کہیں۔ وہ دن میں ان کی ہدایت کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور رات میں ان کے لیے اپنے رب کے حضور بخشش کی درخواست کرتے ہیں۔ وہ ہر تکلیف کے جواب میں بس اتنا کہتے ہیں ’’ جو اذیت تم ہمیں دے رہے ہو ہم اس پر صبر کریں گے‘‘ ، (ابراہیم 12:14)۔
سری لنکا کا سفر
سعودی عرب جاکرمیں بھول ہی گیاکہ میں نے کینیڈین امیگریشن کے لیے اپلائی کر رکھا ہے۔تاہم تقریباََ ڈھائی سال بعدمیرے انٹرویو کی کال آگئی۔ میں نے براستہ کراچی سری لنکا جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ کراچی میں مجھے میڈیکل کرانا تھا۔ میں جنوری کے سرد مہینے میں کراچی پہنچا اور میڈیکل کرواکے دو دن بعد سری لنکا کے لیے روانہ ہوا۔
پی آئی اے سے میرا فلائٹ شیڈول کچھ اس طرح تھا کہ انٹرویو سے قبل میرے پاس پانچ دن بالکل فارغ تھے اور چھٹے دن انٹرویو تھا۔اسی رات بارہ بجے واپسی کی فلائٹ تھی۔ میں نے ان پانچ دنوں کو بھرپور انداز میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ میرے بڑے بھائی رضوان کا انٹرویو بھی یہیں ہوا تھا۔ اتفاق سے اسی وقت ان کی شادی ہوئی تھی اور انہوں نے انٹرویو کے اس سفر کو ہنی مون کا سفر بھی بنادیا تھا۔بندے کو شادی کے ابتدائی دنوں میں ویسے بھی ہر چیز اچھی لگتی ہے حتیٰ کہ بیوی بھی۔ لہٰذا واپسی پر انہوں نے سری لنکا کے فطری حسن کی بے حد تعریف کی تھی۔ جسے سن کر مجھے بھی اسے دیکھنے کا بہت اشتیاق ہوگیا تھا۔ حسنِ اتفاق سے اسی زمانے میں جدہ آفس کا میرا ایک سری لنکن کولیگ ناصر چھٹیوں پر وہاں آیا ہوا تھا۔ اس کی رہائش کینڈی کے پرفضا شہر میں تھی۔اس نے میرے لیے پہلے سے ایک گاڑی اور گائڈبک کررکھے تھے۔ گائڈ کا نام رازق تھا اور ہمیں اس سے کینڈی کے شہر میں ملنا تھا۔ تاہم ناصر مجھے اےئرپورٹ پر لینے کے لیے کینڈی سے کولمبو آیا تھا۔
سری لنکا کا ’’ناک نقشہ‘‘
اگر آپ دنیا کے نقشے پر نگاہ ڈالیں تو بحرِ ہند میں، بھارت کے جنوب میں اس سے بالکل متصل ، سری لنکا ایک ناشپاتی نما چھوٹے سے جزیرے کی شکل میں نظر آئے گا۔ سری لنکا پاکستان سے قریب ہے، جہاز کا کرایہ کم ہے اور پاکستانیوں کے لیے ویزا نہیں ہے (افسوس کہ اب یہاں بھی ویزے کی شرط لگ گئی ہے)، اس لیے ایک زمانے میں کینیڈین امیگریشن کا انٹرویو دینے والوں کے لیے یہ آئیڈیل جگہ تھی۔ مگر بعد میں رش کی بنا لوگوں نے یہاں اپلائی کرنا چھوڑدیا۔ تاہم گھومنے پھرنے اور ہنی مون منانے والوں کے لیے یہ آج بھی ایک بے حد پرکشش جگہ ہے۔ ایک زمانے میں پاکستانی فلمساز بھی اپنی فلموں کی شوٹنگ کے لیے یہاں آیا کرتے تھے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ چھوٹا سا جزیرہ فطرت کے حسن کا شاہکار ہے۔ دنیا میں کم ہی جگہیں ایسی ہوں گی جہاں حسنِ فطرت اتنے چھوٹے علاقے میں اس قدر مختلف رنگوں میں جلوہ گر ہو۔
انتہائی طویل اور خوبصورت بیچز (Beaches ) جہاں ایک طرف تاحد نظر بحرِ ہند کا نیلگوں پانی ہے اور دوسری طرف میلوں پھیلا ہوا ریتلا ساحل جو ناریل اور پام کے بلند وبالا درختوں سے پٹا ہوا ہے۔سطحِ سمندر سے ہزاروں فٹ بلندفلک بوس پہاڑ ہیں جہاں تپتی ہوئی گرمیوں کی دوپہر بھی خنک ہوجاتی ہے۔ بڑی بڑی حسین جھیلیں ہیں جن کا خاموش اور پرسکون پانی اور اردگرد کا سرسبز ماحول انسان کے ذہن کو تراوٹ اورآنکھوں کوٹھنڈک بخشتا ہے۔وسیع اور گھنے جنگلات اور ان میں پائی جانے والی جنگلی حیات جوسیاح کو فطرت سے ہمہ وقت قریب رکھتی ہے۔ بارشوں کی کثرت کی بنا پر نمودار ہونے والی ہریالی جو ہر جگہ آپ کے ساتھ ساتھ جائے گی۔پھر ان سب کے ساتھ بدھ مت کی قدیم ثقافت اور آثار کی شکل میں سفرِسیاحت کی ایک بہت بڑی کشش بھی یہاں موجود ہے۔
آدمؑ کی جنت کی سیر
میرے ذہن پر انٹرویو کا خوف تھا ا ور نہ اس کی تیاری کی فکر۔ لہٰذا میں نے یہ پورا عرصہ گھومتے گھماتے گزارا۔ پانچ دنوں میں تقریباً تمام اہم اور قابلِ دید مقامات دیکھ لیے۔ اپنی گاڑی اور گائڈ ساتھ تھے اس لیے کسی چیز کی فکر نہ تھی۔ ہم نے سفر کا آغاز کولمبوسے کیا۔ پھر کینڈی کو مرکز بناکر اردگرد کے تمام اہم مقامات کو دیکھا۔ جن میں یہاں واقع دنیا کا سب سے بڑا نباتاتی گارڈن Botanical Garden) )، وکٹوریہ ڈیم ، اور ہنا فالز قابلِ ذکر ہیں۔ ان جگہوں پر گھومتے ہوئے بار بار’’ وہ باغ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہونگی‘‘ کے قرآنی الفاظ ذہن میں گونجتے رہے۔ دراصل یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے جہاں بارشوں کی کثرت نے نہ صرف پورے علاقے کو وسیع وعریض باغ میں تبدیل کردیاہے بلکہ پہاڑوں کے دامن میں جگہ جگہ جھیلیں، دریا اور نہریں بھی رواں کردی ہیں۔
ہماری اگلی منزل سِگریاکا حسین مقام تھا جسے میں اپنے سفر کا حاصل سمجھتا ہوں۔ یہ کئی سو میٹر بلند ایک پہاڑ ہے جس کے چاروں طرف گھنا جنگل ہے۔ پہاڑ کے دامن میں ایک قدیم شہر کے کچھ آثار ہیں۔ہم جس وقت وہاں پہنچے بارش ہورہی تھی۔ پہاڑ کے دامن تک پہنچنے کے لیے جنگل سے ایک راستہ نکلتا ہے جو کئی کلومیٹر لمبا ہے۔ ہم نے گاڑی پارک کی اور اس راستے پردو تین گھنٹے پیدل چل کر پہاڑ کے دامن تک پہنچے۔اوپر چڑھنے کے لیے پہاڑ کاٹ کر سیڑھیاں بنائی گئی تھیں۔ یہ بہت بلند چڑھائی تھی مگرہم جوش میں ان پر چڑھتے چلے گئے اور آخر کار چوٹی پر پہنچ گئے۔ یہاں ایک قدیم قلعے کے کھنڈرات تھے جو پانچویں صدی عیسوی میں کسی بدھ حکمران نے تعمیر کروایا تھا۔ ارد گرد کا منظر اس قدر خوبصورت تھا کہ حد نہیں۔چاروں طرف میلوں تک پھیلا ہوا جنگل ، ابرآلود موسم اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا نے ایسا تاثر پیدا کیا کہ گھنٹوں پیدل چلنے اور اس بلند پہاڑ پر چڑھنے کی مشقت لمحوں میں کافور ہوگئی۔ اونچائی سے نیچے جنگل میں چلتے ہوئے ہاتھی بالکل بچوں کے کھلونے لگ رہے تھے۔ اتنی بلندی کی وجہ سے دور دور تک کا منظر بالکل صاف نظر آرہا تھا۔ وہاں کچھ یورپین سیاح بھی آئے ہوئے تھے اور’’ اپنے طریقے ‘‘ سے اس دلکش ماحول کو انجوئے کررہے تھے۔ہم کافی دیر تک وہاں رہنے کے بعد واپس ہوئے۔
سِگریاکے راستے میں ایک بدھ مندر جانا ہوا جس میں بدھا کی مورتیوں کے علاوہ جنت اور جہنم بھی بنائی گئی تھیں۔ ان میں داخلے کی فیس تھی جس پر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جنت کی فیس کی بات تو ٹھیک ہے یہ جہنم کی داخلہ فیس کس بات کی مانگ رہے ہیں۔ بہرحال فیس دیکر ہم اندر داخل ہوئے۔ جہنم میں مختلف گناہوں مثلاً زنا وغیرہ کی سزا، مجسمہ سازی کے ذریعے دکھائی گئی تھی اور کافی متاثر کن تھی۔ البتہ جنت بالکل بے رونق تھی۔ وہاں حو رتھی نہ قصور، شراب تھی نہ ان کو پیش کرنے والے غلمان۔ بس دو چار بیل بوٹے لگے ہوئے تھے۔ اس روز ہمیں پتا چلا کہ بدھ مت کے پیروکاروں کے کم ہونے کا ایک سبب ان کی جنت کا اتنا بے رونق ہونا ہے۔ ویسے قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ بدھ مت کے پیروکار خدا کو نہیں مانتے۔ یہ لوگ گوتم بدھ ہی سے کام چلاتے ہیں۔ اور گوتم بدھ ، اپنی وفات کے بعد ، ایسی جنت بھی بنالیں تو بڑی بات ہے۔ بہرحال ہمارا دل اس جنت میں نہ لگا اس لیے وہاں سے فوراً باہر آگئے۔

(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔