معلوماتی سفرنامہ، ٹورنٹوبراستہ سری لنکا۔۔ ۔تیسری قسط

معلوماتی سفرنامہ، ٹورنٹوبراستہ سری لنکا۔۔ ۔تیسری قسط
معلوماتی سفرنامہ، ٹورنٹوبراستہ سری لنکا۔۔ ۔تیسری قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہماری اگلی منزل انورادھا پورا کا شہر تھا جو بدھ مت کے ماننے والوں کا سب سے مقدس مقام ہے اور شمال کی سمت آخری پر امن علاقہ ہے۔ یہاں، روایات کے مطابق، اس درخت کی شاخ سے لگایا گیا درخت ہے جس کے نیچے گوتم بدھ کو جو اپنی بیگم یشودھرا ا ور کپل وستو ریاست کے تخت و تاج سب کو چھوڑ آئے تھے، نروان ملا تھا۔ یہ درخت ایک بڑے مندر کے احاطے میں تھا اور کافی بڑا تھا۔ زائرین انتہائی عقیدت سے وہاں آتے اور پارکنگ سے مندر تک کا طویل راستہ ننگے پاؤں طے کرتے ۔ ہم کچھ دیر رکنے کے بعد وہاں سے لوٹ آئے۔ راستے میں سری لنکا کی سب سے بڑی جھیل بھی پڑی مگر یہاں ہونے والی انتہائی تیز بارش اور طوفانی ہوانے ماحول کو خاصا دہشتناک بنادیا تھا۔ اس لیے ہم تھوڑی دیر رک کر آگے بڑھ گئے۔

معلوماتی سفرنامہ، ٹورنٹوبراستہ سری لنکا۔۔ ۔دوسری قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

اب ہم نے سری لنکا کے سب سے مشہور تفریحی مقام نواریلیا کا رخ کیا۔ یہ ایک ہل اسٹیشن ہے۔ جہاں پہاڑوں پر بل کھاتی ہوئی سڑک ہمیں غیر محسوس طریقے سے اونچائی پر لے گئی۔ اس سڑک کے ایک طرف پہاڑ تھا ا ور دوسری طرف اتنی گہری کھائی کہ انسان نیچے دیکھے تو چکر آجائے۔ یہ کافی خوبصورت جگہ تھی البتہ یہاں موسم بہت ٹھنڈا تھا۔ تاہم اس وقت تک میں اس طرح کے سبزے اور پہاڑوں کا اتنا عادی ہوچکا تھا کہ یہاں آکر کوئی گہرا تاثر پیدا نہ ہوا۔ یہاں سے مشہور آدم ہائٹ کو راستہ جاتا ہے۔ یہ ایک بلند پہاڑ ہے جہاں مشہور ہے کہ حضرت آدم کے قدموں کے نشان ہیں۔ اسی طرح سر ی لنکا اور ہندوستان کے درمیان حائل سمندر میں خشکی کے قطعات ہیں جنھیں ہندی دیو مالا کے مطابق راما سیتو یعنی رام کا پل اور مسیحی روایت کے مطابق آدم کا پل (Adam Bridge)کا نام دیا جاتا ہے۔روایت یہ ہے کہ حضرت آدم اسی پل کو عبور کرکے یہاں پہنچے اور اللہ کے حضور توبہ کی۔ ظاہر ہے کہ یہ سنی سنائی باتیں ہیں۔ مگر یہ بات بالکل ممکن ہے کہ جس جگہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو رکھا وہ جگہ سری لنکا ہو۔ بلاشبہ یہ جگہ جنت کے نقشے پر پوری اترتی ہے۔

میرا انٹرویو قریب آگیا تھا اس لیے ہم نے کولمبو کا رخ کیا۔ مگر کینڈی کے پہاڑی علاقے کے بجائے اس دفعہ ساحلِ سمندر کے ساتھ ساتھ چلنے والے راستے کا انتخاب کیا۔ راستے میں پہاڑ سے اترتے وقت ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ ہم ایک جگہ گاڑی دھلوانے کے لیے رکے۔ یہاں ایک خوبصورت آبشار بہہ رہی تھی۔ ناصر اور میں نے اس کے نیچے کھڑے ہوکر تصویر بنوائی۔ یہاں سنہالی زبان میں کچھ لکھا تھا جو ناصر نہ پڑھ سکا۔اس کی زبان تامل تھی۔ بعد میں رازق نے آکر بتا یا کہ یہاں لکھا ہے کہ اس جگہ 28افراد وہی کچھ کرتے ہوئے ڈوب کر مرچکے ہیں جو آپ کررہے تھے۔
ہم ساحل کے ساتھ ساتھ کولمبو کی طرف چلتے گئے۔ کئی جگہ سمندر کے کنارے رک کر سری لنکا کے طویل و حسین ساحل کا منظر دیکھا۔ ایک جگہ بہت غیر معمولی تھی جسے ( Blow Hole ) کہا جاتا ہے۔ اس جگہ سمندر سے متصل ایک پہاڑ ہے جس میں غالباً کسی زلزلے کی بنا پر ایک شگاف بن گیا ہے جو پہاڑ کے کافی اندر تک چلا گیا ہے۔ جب لہریں آتی ہیں تو سمندری پانی یہاں سے اندر چلا جاتا ہے اور اندر جمع ہونا شروع ہوجا تا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ اندر پانی کا دباؤ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ یہ پانی پوری قوت سے واپس لوٹتا ہے۔ جبکہ سامنے سے بھی تیز لہریں آرہی ہوتی ہیں۔یہ دونوں پانی پور ی طاقت سے آپس میں ٹکرا جاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں پانی اس شگاف سے ایک فوارے کی طرح کافی بلندی تک اوپر اٹھتا چلا جاتا ہے۔ یہ قدرتی فوارہ بلاشبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
کولمبو پہنچنے سے قبل گال شہر آیا جہاں کا قلعہ کافی مشہور ہے مگر چونکہ کو لمبو وقت پر پہنچنا تھا اس لیے اسے دیکھنے کا ارادہ ملتوی کردیا۔ساحلی سڑک کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہم رات کے وقت کولمبو پہنچے۔ یہاں پہنچ کر میں نے ایک کمرہ کرایہ پر لیا جبکہ رات کا کھانا ہم نے ایک پاکستانی ریسٹورنٹ میں کھایا۔ میں نے رازق اور ناصر دونوں کا بہت شکریہ ادا کیا۔ ان دونوں کے ساتھ ہونے سے نہ صرف سفر بہت آسان اور پر لطف رہا بلکہ ایک غیر مسلم ملک میں حلال کھانے تلاش کرنے کے مسئلے سے بھی دوچار نہیں ہوا کیونکہ رازق ہر جگہ حلال کھانے والے ریسٹورنٹ سے واقف تھا۔ مزید یہ کہ مقامی لوگ ٹورسٹ کو دیکھ کر جس طرح ہر چیز مہنگی بیچتے ہیں اس سے بھی میں، انکے ساتھ کی وجہ سے ، محفوظ رہا۔ ہمارے پانچ روزہ ساتھ کا سب سے دلچسپ پہلو یہ تھا کہ میں ناصر سے اردو میں، وہ رازق سے تامل زبان میں اوررازق مجھ سے انگریزی میں بات کرتا تھا۔کھانے کے بعد میں ہوٹل آگیا جبکہ ناصر اور رازق واپس کینڈی لوٹ گئے۔
انٹرویو
کینیڈین امیگریشن حاصل کرنے کے لیے اس زمانے میں ستر پوائنٹس کی ضرورت ہوتی تھی۔ جبکہ میرے پوائنٹس90کے قریب تھے۔پہلے اتنے پوائنٹس پر انٹرویو سے استثنا مل جایاکرتا تھا۔ مگر جب ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ پاکستان میں ہر چیز جعلی بنائی جاسکتی ہے تو انہوں نے ہر امیدوار کو انٹرویو کے لیے بلانا شروع کردیا۔ ہوٹل میں سوتے سوتے مجھے دو بج گئے۔ اگلے دن صبح دس بجے انٹرویو تھا۔ میں مقررہ وقت پر وہاں پہنچ گیا۔ مجھے انتظار گاہ میں بٹھادیاگیا جہاں دیگر کئی پاکستانی بھی ٹینشن کی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کچھ دعا اور وظیفے میں مشغول تھے اور کچھ کتابوں کے ذریعے آخری وقت میں بھی تیاری میں لگے ہوئے تھے۔ میرا نمبر آیا تو ایک خاتون مجھے اپنے ساتھ اوپر لے گئیں۔ وہاں میرے کاغذات چیک کیے گئے۔ پھر ایک گورا باہر آیا اور ہاتھ ملاکر مجھے اپنے کمرے میں لے گیا۔ اس نے چند سوا لات میرے کام سے متعلق کیے جن کے جوابات میرے لیے مسئلہ نہ تھے۔ پھر مجھے ویزا ملنے کی نوید سناکر گڈ بائی کہہ دیا۔
مجھے اس کامیابی پر کوئی خوشی یا( Excitement )تو نہ تھی مگر ویزا آفیسر کا رویہ مجھے پسند آیا تھا۔ بالخصوص اپنے کمرے سے باہر آکر جس طرح اس نے گرمجوشی سے میرا استقبال کیا تھا وہ اعلیٰ اخلاق کا بڑا عمدہ مظاہرہ تھا۔ اس سے قبل رضوان بھائی کے انٹرویو میں یہ مسئلہ ہوگیا تھا کہ ان کے انٹرویو کی تاریخ تبدیل کردی گئی مگر جس خط کے ذریعے اس کی اطلاع دی گئی تھی وہ انہیں نہیں مل سکا۔ وہ پرانی تاریخ ہی پر انٹرویو دینے آگئے۔ تاہم ان کی بات سن کر ویزا آفیسر جو اس روز چھٹی پر تھا اپنی رہائش گاہ سے آیا اور ان کا انٹرویو کر لیا۔ جبکہ پاکستانی سفارتخانے والے اپنے ملک کے شہریوں سے جو سلوک کرتے ہیں وہ ملک سے باہر رہنے والے خوب جانتے ہیں۔مگر یہاں بھی اور پھر آنے والے ان تمام لمحوں میں جب کبھی میرا واسطہ ان لوگوں سے پڑامیں نے انہیں اپنے کام سے مخلص، اسے خوش دلی اور خوش اخلاقی سے ادا کرنے والا او ر لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والا پایا۔ یہ صفات کبھی ہماری میراث تھیں مگر اب ہمارے پاس صرف اپنے ماضی پر فخر بچا ہے ، ماضی کی روایا ت نہیں رہیں۔
نیویارک میں
ماضی کی ورق گردانی کرتے ہوئے نیو یارک تک کا سفر کٹ گیا۔ہمارا جہاز مقامی وقت کے حساب سے صبح 10بجے نیویارک کے جان ایف کینیڈی اےئر پورٹ پر اترا۔راستے میں پی آئی اے نے ایک آدھ کارٹون، ڈرامے اور فلم کے سوا کچھ نہ دکھایا۔ جن میں سے کوئی بھی پورا نہ چلااور نہ لوگوں نے انہیں دیکھا کیونکہ کسی کے کان پر بھی ہیڈ فون نہیں لگا ہوا تھا۔میری دلچسپی کی چیزیں تووہ اعداد و شمار ہوتے ہیں جو جہاز کی رفتار، روٹ، بلندی اور وقت کے متعلق دنیا بھر کی اےئر لائنز میں، دورانِ سفر، نشر کیے جاتے ہیں۔ تاہم یہاں ان کا ذکر ہی نہیں تھا۔
مانچسٹر کے برعکس یہاں کے ٹرانزٹ لاؤنج میں ٹورنٹو جانے والے مسافروں کو اترنے کی اجازت نہ تھی۔لہٰذا صرف نیویارک میں اترنے والے مسافر جہاز سے باہر گئے۔ جن کے جانے کے بعد بھی جہاز کی اکثر نشستیں بھری ہوئی تھیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ زیادہ تر لوگ کینیڈا جارہے تھے۔بلکہ کینیڈا جاکر معلوم ہوا کہ پی آئی اے ٹورنٹو کے لیے براہِ راست پروازیں چلارہی ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی کینیڈا دبئی کی جگہ لے لے گا۔
آنے والے دنوں میں نیویارک میں بڑا اچھا وقت گزرا جس کا تفصیلی تذکرہ آگے آئے گا مگر اس وقت جہاز سے صرف اتنا ہی دکھائی دیا کہ ہم بحرِاوقیانوس کو عبور کرکے ساحل کے ساتھ واقع اےئر پورٹ پر اتر گئے۔درجہ حرارت 8 ڈگری سنٹی گریڈ تھا۔ باہر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ کچھ ایسا ہی سماں ٹورنٹو میں بھی متوقع تھا کیونکہ آتے وقت انٹرنیٹ پر یہی پیش گوئی پڑھ کر چلا تھا۔ اس دوران میں کھانا سپلائی کرنے والی گاڑی جہاز سے آکر لگی اور اس کے لیے دروازہ کھولا گیا تو اندازہ ہوا کہ باہر خاصی ٹھنڈ ہے۔ یہ خدا کی عجیب قدرت ہے کہ زمین کے دوسرے حصے میں تیز گرمی پڑرہی ہے اور یہاں ٹھنڈ، وہاں رات ہے اور یہاں دن۔ مجھے بے اختیار اقبال کا شعر یاد آگیا جو حسنِ تشبیہ اورصنعتِ تضاد کا شاہکار ہے۔
جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھرڈوبے اِدھر نکلے
جادو والے واش رومز
ابتدائی طور پر جہاز کے عملے کی طرف سے یہی اعلان کیا گیا تھا کہ ٹرانزٹ مسافر جہاز میں بیٹھے رہیں گے۔ تاہم تھوڑی دیر میں اعلان کیا گیا کہ ٹورنٹو جانے والے مسافر ٹرانزٹ لاؤنج میں جاسکتے ہیں۔
نیویارک میں مانچسٹر کے برعکس تلاشی کے عمل سے نہیں گزرنا پڑا۔ہم جس جگہ اترے وہاں مانچسٹرجیسی دکانیں تھیں نہ اور لوگ تھے۔صرف ہمارے جہاز کے مسافر تھے۔ وہاں موجود ایک ٹیلیفون بوتھ کے ذریعے سے ، ایک صاحب سے سکہ مستعارلیکر، میں نے نیو یارک میں مقیم اپنی بہن کو اطلاع دی کہ میں نیو یارک خیر و عافیت کے ساتھ پہنچ گیا ہوں۔ پھرمیں جادو والے واش روم گیا۔ جادو سے مراد یہ ہے کہ وہاں نلوں میں ٹونٹی نہیں تھی۔ بلکہ نل کے نیچے ہاتھ کرتے ہی خود بخود انتہائی مناسب گرم پانی آنے لگا۔ ٹوائلٹ بالکل صاف ستھرے تھے۔ جن سے فراغت کے بعد خودبخود پانی فلش ہوکر اسے صاف کردیتا تھا۔ آنے والے دنوں میں یہ جادو والے واش رومز اکثر پبلک مقامات پر دیکھے۔ تاہم یہ جادو ٹونے کی باتیں ہیں جو کافروں کو ہی زیب دیتی ہیں۔ ہم مسلمانوں کوان سے’’ پرہیز‘‘ کرنا چاہیے۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ ہم اس قسم کے ’’جادو ٹونے‘‘ سے پرہیز کرتے ہی ہیں۔

(جاری ہے، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)

( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔ کئی ملکی اور غیر ملکی زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہوچکے ہیں۔ابو یحییٰ نے علوم اسلامیہ اور کمپیوٹر سائنس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن کے ساتھ آنرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کی ہیں جبکہ ان کا ایم فل سوشل سائنسز میں ہے۔ ابویحییٰ نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ پچھلے پندرہ برسوں سے وہ قرآن مجید پر ایک تحقیقی کام کررہے ہیں جس کا مقصد قرآن مجید کے آفاقی پیغام، استدلال، مطالبات کو منظم و مرتب انداز میں پیش کرنا ہے۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔