اسلامی عسکری اتحاد، پاک فوج کے مزید پانچ ہزار حاضر سروس افسر اور جوان سعودی عرب بھیجے جانے کا امکان

اسلامی عسکری اتحاد، پاک فوج کے مزید پانچ ہزار حاضر سروس افسر اور جوان سعودی ...
اسلامی عسکری اتحاد، پاک فوج کے مزید پانچ ہزار حاضر سروس افسر اور جوان سعودی عرب بھیجے جانے کا امکان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (ویب ڈیسک) سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کے سعودی عرب پہنچتے ہی اسلامی عسکری اتحادکی تشکیل، ڈھانچے اور کس ملک سے سامان حرب اور کتنی تعداد میں فوجی لئے جائیں گے، اس پر غورو خوض شروع ہوگیا ہے ، اس سلسلے میں اگلے ماہ ہونے والی اسلامی ممالک کی کونسل آف ڈیفنس منسٹرز کے اجلاس میں ان تفصیلات کا اعلان کر دیا جائے گا۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اب تک جو امور طے ہوئے پائے ہیں ان کے مطابق پاکستان سے ایک بریگیڈ حاضر سروس فوج سعودی عرب بھیجی جائے گی اور اس ضمن میں موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کچھ دن پہلے سعودی عرب کے دورے میں حتمی فیصلہ بھی کر چکے ہیں۔اس ضمن میں رسمی طور پر مسلم ممالک کی دفاعی وزراء کی کونسل میں دیگر ممالک کے ساتھ مل کر پاکستان سے فوجی اہلکاروں اور افسروں کی تعداد اور سامان حرب کی درخواست کی جائے گی جن کے جواب میں توقع ہے کہ وزیراعظم پاکستان اس کی منظوری دیں گے اور حتمی دستخط صدر پاکستان جناب ممنون حسین جو آئینی اعتبار سے پاک فوج سپریم کمانڈر ہیں کریں گے۔ یہ بھی ممکن کہ حکومت یہ فیصلہ منتخب پارلیمنٹ سے کروائے۔

روزنامہ خبریں کے مطابق  آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور یہ اظہار بھی کر چکے ہیں کہ پاکستانی فوج سعودی عرب کی سرحدوں کے باہر استعمال نہیں ہو گی۔ چند روز پہلے معروف امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے سعودی عرب کے جنرل عصیری کا انٹرویو شائع کیا ہے جس میں جنرل عصیری نے اسلامی امہ فوج کے حوالہ سے بعض تفصیلات بیان کی ہیں۔ جنرل عصیری نے امریکی اخبار کے مطابق یہ کہا ہے کہ اسلامی امہ فوج تمام رکن مسلم ممالک میں جہاں کہیں دہشتگردی ہو گی اس کے انسداد کے لئے استعمال کی جائے گی تاہم عسکری تنظیموں اور باغی عناصر کا قلع قمع کرنا ہی اس کا فرص ہو گا۔ جنرل عصیری کے مطابق باغیوں میں یمن کے حوثی باغی بھی شامل ہیں اگر یہ پالیسی طے شدہ ہے تو شاید کچھ مشکلات کھڑی ہوں کیونکہ نہ صرف پاکستان بلکہ سابقہ اور موجودہ آرمی چیف بھی اس طرف اشارہ کر چکے ہیں اورپاک فوج کا محکمہ تعلقات عامہ بھی اعلان کر چکا ہے کہ پاکستانی فوجی سعودی عرب سے باہر استعمال نہیں ہوں گے۔ حتمی فیصلہ کونسل آف ڈیفنس منسٹر یعنی اسلامی ممالک کے وزراء دفاع کی کونسل کرے گی۔

واضح رہے کہ اسلامی امہ فوج جس کے رکن ممالک کی تعداد پہلے مرحلے میں 34 بتائی گئی تھی اب 41 ممالک تک پہنچ چکی ہے اور اب اسے 41 رکنی اسلامی امہ فوج کہا جا رہا ہے۔ہمارے ذرائع کے مطابق پاکستانی فوج کے حاضر سروس بریگیڈ یعنی پانچ ہزار فوجی، سپاہیوں چھوٹے افسروں اور بڑے افسروں کے علاوہ ہر قسم کے سامان حرب سے لیس یہ بریگیڈ اسلامی امہ فوج کا مضبوط حصہ شمار ہو گا۔ تاہم یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ امہ فوج کی مرکزی کمان اور ہیڈ کوارٹر کے لئے جنرل (ر) راحیل شریف نے اپنے باعتماد اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل اعلیٰ ریٹائرڈ فوجی افسروں کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے کہ جن میں بریگیڈ (ر) جنرل کے عہدے کے سابق افسر شامل ہوں گے۔ پاک فوج کے ریٹائرڈ اعلیٰ افسروں سے اس سلسلے میں بعض نام لئے جا رہے ہیں جنہیں ہم اپنے قارئین کے لئے وقت آنے سے کچھ پہلے آگاہ کریں گے۔

دریں اثناءیہ بھی پتہ چلا ہے کہ اس وقت بھی سعودی عرب میں 1180 پاکستانی فوج کے تربیت یافتہ افسران اور ارکان موجود ہیں جو تربیتی مراکز کے علاوہ مشاورتی فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ یہ فوجی اور اہلکار 1982ءمیں پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کے تحت سعودی عرب بھیجے گئے تھے اور وقتاً فوقتاً انہیں تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔ اگر اسلامی امہ فوج کے لئے جیسا کہ بتایا جا رہا ہے ایک بریگیڈ حاضر سروس فوجی بھیجنے کا فیصلہ ممکن ہو گیا تو پہلے سے موجود 1180 پاکستانی فوجی افسروں اور اہلکاروں کو ملا کر کل تعداد 6180 ہو جائے گی۔

 ریٹائرڈ جرنیل اور خصوصی شعبوں کے ریٹائرڈ تعداد کے علاوہ ہوں گے جنہیں جنرل (ر) راحیل شریف ہیڈ کوارٹر میں کمان کی سطح پرفرائض کی ادائیگی کے لئے خود منتخب کریں گے۔

مزید :

لاہور -