ورلڈ کالمسٹ کلب کی سینئر کالم نگاروں، شاعروں کے اعزاز میں ادبی بیٹھک

ورلڈ کالمسٹ کلب کی سینئر کالم نگاروں، شاعروں کے اعزاز میں ادبی بیٹھک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور(فلم رپورٹر)ورلڈ کالمسٹ کلب کے زیر اہتمام سینئر کالم نگار و شاعر منصور آفاق،مظہر برلاس،اعتبار ساجد کے اعزاز میں تقریب پذیرائی الحمراء ادبی بیٹھک مال روڈ میں ہو ئی جس میں ورلڈ کالمسٹ کلب سے وابستہ قلمکاروں سمیت بڑی تعداد میں اہل قلم نے شرکت کی۔تقریب کے مہمان خصوصی سینئر صحافی و کالم نگار مجیب الرحمان شامی تھے۔تقریب میں مقررین نے منصور آفاق ،مظہر برلاس،اعتبار ساجدکی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ورلڈ کالمسٹ کلب کے چیئرمین ایثاررانا،صدر محمد ناصر اقبال خان،جنرل سیکرٹری ذبیح اللہ بلگن،دلاور چوہدری،تاثیر مصطفی،ناصر بشیر،رابعہ رحمان،ڈاکٹر عمرانہ مشتاق،جاوید اقبال،ممتاز حیدر اعوان،ناصر چوہان ایڈوکیٹ،عابد کمالوی،ملک غضنفر اعوان،میاں محمد اشرف عاصمی ایڈوکیٹ،رقیہ غزل،ممتاز راشد لاہوری،تاثیر مصطفیٰ،شہزاد راشدی،حسین مجروح،آصف عنایت بٹ،محمد راشد تبسم،محمد شاہد محمود،جان محمد رمضان،عامر اسحاق،روہیل اکبر،کاشف سلیمان،عرفان نواز رانجھاودیگر نے شرکت کی۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے روزنامہ پاکستان کے مدیر اعلیٰ مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ ہمارے ملک میں طاقتور پر قانون کو نافذ کرنا آسان نہیں اہل قلم پر لازم ہے کہ وہ حکمرانوں سے مرعوب نہ ہوں بڑے بڑے طاقتور حکمران ان کو دبا نہیں سکے اہل قلم کو حکمرانوں کو ڈرانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی ان سے ڈرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں مظہر برلاس کے کالم ڈرتے ڈرتے پڑھتا ہوں۔ جمہوریت میں لوگوں کے ووٹوں سے حکومت بنتی ہے۔ میری والدہ کہتی تھی کہ ہنڈیا جب ابلتی ہے تو اپنے ہی کناروں کو جلاتی ہے۔ ملک کے موجودہ حالات آج سے چار پانچ سال پہلے کے حالات سے بہت بہتر ہیں۔ حالات بہتر بھی ہوئے نہیں بھی ہوئے۔ لگتا ہے آج کالم نگاروں کا مشاعرہ ہے۔ کالم نگار کو اپنی بات ایسے کہنی چاہیے کہ جس کے خلاف کہہ رہا ہو اسے بھی غصہ نہ آئے۔ کالم میں نہ تو غصہ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی کی مذمت ہوتی ہے۔پاکستانی سوسائٹی دوسرے بہت سے معاشروں سے بہتر ہے۔ ہم اہل قلم پر لازم ہے کہ ہم کمزور کو اس کا حق دلائیں حکمرانوں کو نہ تو ڈرانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ان سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔ مظہر برلاس نے کہا کہ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیشہ کم لوگوں میں رکھا ہے۔آخری فتح حق کی ہوتی ہے۔ہر انسان کے اندر ایک جج بیٹھا ہوتا ہے ہر انسان اپنے بارے میں خود فیصلہ کر سکتا ہے۔ اس معاشرہ میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ملاوٹ کو حرام سمجھتے ہیں۔ اس معاشرہ میں موٹر وے پولیس بھی ہے جو رشوت نہیں لیتی۔ یہ جمہوری حکومتوں کے ثمرات ہیں کہ 85میں 15روپے کا ڈالرتھا اس دور میں ایک آدمی کماتا تھا اور اآٹھ دس لوگ کھاتے تھے۔اعتبار ساجد نے کہا کہ میں نے 36سال کالجز میں پڑھایا ہے اور گورنمنٹ کی کمائی کھائی ہے۔ سفر حیات کا خوشگوار نہیں میں باپیادہ ہوں اور شہ سوار نہیں ہوں۔ چھوٹے چھوٹے مسائل کو ٹھوکر مارنی چاہیے یہ سنگ ریزے ہیں مانند کوہسار نہیں۔ میں ایک سانس بھی مرضی سے نہیں لے سکتا ۔ منصور آفاق نے کہا کہ اس وقت جو اخبار ہیں ان کی حیثیت پہلے جیسے اخبارات جیسی نہیں رہی۔ اب خبروں کیلئے اگلی صبح تک اخبار کا انتظار نہیں ہوتا۔ اب رپورٹر کا زمانہ نہیں رہا اب کالم نگاروں کا زمانہ آگیا ہے۔ ایثاررانا نے کہا کہ مظہر برلاس سے میرا تعلق بھائیوں جیسا ہے۔ مظہر جملہ ضائع نہیں کرتے بندہ چاہے ضائع ہو جائے۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ مظہر ایک بڑا انسان ہے اور نیک نام ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ اعتبار ساجد ہمارے دور کی شناخت ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ مشکلیں آتی ہیں ہم سچ لکھنا بھول گئے ہیں۔ ہم پاکستان کو پھلتا پھولتا دیکھیں گے۔محمد ناصر اقبال خان نے کہا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم ان کے اعزاز میں تقریب پذیرائی کر رہے ہیں جوہ مزاحمتی کالم نگار اور شاعر ہیں۔ اس دور میں بہت سے لوگ ضمیر فروش ہیں جو قلم کا سودا کر چکے ہیں۔ ذبیح اللہ بلگن نے کہا کہ تقریب پذیرائی کا مقصد یہی تھا کہ اپنے ہیروز کے بارے میں جو باتیں ان کے مرنے کے بعد کی جاتی ہیں ان کی زندگی میں ہی کی جائیں۔دلاور چوہدری نے کہا کہہ مجھے کم علمی کا احساس ہے۔ تینوں حضرات انتہائی قابل احترام ہیں۔ ادوار آتے جاتے رہتے ہیں۔ ادب کے حوالہ سے بڑا مایوس کن دور ہے۔ ہر دور میں اپنی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ڈاکٹر عمرانہ مشتاق،تاثیر مصطفیٰ ،عابد کمالوی،رقیہ غزل،میاں اشرف عاصمی ایڈوکیٹ،پروفیسر ناصر بشیر،حسین مجروح،شہزاد راشدی،ممتاز راشد لاہور ی سمیت دیگر مقررین نے بھی تینوں علمی اور ادبی شخصیات کے حوالے سے اپنے اپنے خطاب میں ان کو خراج تحسین پیش کیا۔