سید صلاح الدین پر امریکا کا فیصلہ مانناضروری نہیں،کشمیریوں کی جدوجہد نے تحریک آزادی پر بھارتی بیان بدل دیا: سرتاج عزیز
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ سید صلاح الدین سے متعلق فیصلہ امریکہ کا ہے اقوام متحدہ کا نہیں، سید صلاح الدین سے متعلق امریکی فیصلہ ماننا لازم نہیں۔ تحریک آزادی کشمیر اہم موڑ پر پہنچ چکی کشمیر کے بغیر بھارت سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ کشمیریوں کی لازوال قربانیوں کی وجہ سے بھارت تحریک آزادی کو دہشتگردی قرار دلوانے میں ناکام ہو چکا ہے۔ پاکستان کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کی سیاسی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔
سینیٹر جان مکین کی قیادت میں امریکہ وفد کا دورہ جنوبی وزیر ستان، دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف: آئی ایس پی آر
مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے دفتر خارجہ میں کشمیر جرنلسٹس فورم کے نمائندہ وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری بہنوں اور بھائیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے حوالہ سے اپنے اصولی موقف پر قائم ہے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت جاری رکھے گا کیونکہ کشمیر کاز ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے، پوری پاکستانی قوم کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہے، مسئلہ کشمےر کے بغیر بھارت کے ساتھ بات چےت نہےں ہو گی، کشمےر کو اٹوٹ انگ کا بھارتی دعویٰ اگر سچا ہے تو بھارت اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری پر آمادہ ہو، اسے اپنی حیثیت کا اندازہ ہو جائے گا، کشمیر کے 99 فیصد لوگ پاکستان کے ساتھ جائیں گے، کشمیریوں کی قربانیاں کسی صورت رائیگاں نہیں جانے دی جائیں گی اور وہ جلد آزادی کی صبح دیکھیں گے۔ بین الاقوامی برادری کشمیر کی صورتحال کو سمجھ رہی ہے، بین الاقوامی میڈیا صورتحال کی نشاندہی کر رہا ہے، خود بھارتی میڈیا بھی کشمیر کے مظالم کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے، بھارتی میڈیا کا موقف ہے کہ کشمیر تو ہمارا ہو گا مگر کشمیری ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے۔
عالمی طاقتیں مسئلہ کشمیر اور فلسطین کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں: ملیحہ لودھی
سرتاج عزیز کا مزید کہنا تھاکہ بھارت بڑی جمہوریت کا دعویدار ہے اور کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دے رہا ہے، بھارت اگر اپنے دعوے میں سچا ہے تو جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرا دے، اسے اپنی حیثیت کا پتہ چل جائے گا۔ اس موقع پر مشیر خارجہ کے ہمراہ ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا اور ڈائریکٹر جنرل ساوتھ ایشیا محمد فیصل بھی موجود تھے۔