وہ وقت جب بابافرید گنج شکر جا کر بیت المقدس میں رہنے لگ گئے، سارا دن وہاں کیا کرتے رہے؟ جان کر آپ بھی عش عش کر اٹھیں گے
غزہ(ڈیلی پاکستان آن لائن)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیلی دارلحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو پوری دنیا کے مسلمانوں کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور فلسطینی عوام بھی سڑکوں پر نکل آئے، عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جاچکا ہے اور مسلمان ممالک نے سرجوڑ لیے ہیں تاہم یہ بات بہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جب صلاح الدین ایوبی کی فوج کو صلیبیوں نے یروشلم سے نکال باہر کیاتھا تو بابافریدالدین گنج شکر وہاں پہنچ گئے ، یہاں پہنچنے کے بعد بابا فرید اپنا زیادہ تر وقت مسجد اقصیٰ کے ارد گرد پتھرکے فرش پر جھاڑو لگاتے یا روزہ رکھ کر اس قدیم شہر کے اندرون میں واقع ایک غار کی خاموشی میں عبادت میں گزارتے تھے، یہ تو کوئی نہیں جانتا کہ بابا فرید کتنا عرصہ بیت المقدس میں رکے، لیکن ان کی پنجاب واپسی اور پھر سلسلہ چشتیہ کے سربراہ بننے کے برسوں بعد تک بھی ہندوستان سے حج کے ارادے سے جانے والے لوگ مکہ کے راستے میں بیت المقدس میں قیام کرتے رہے،ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ اس مقام پر نماز پڑھیں جہاں بابا فرید نے نماز پڑھی تھی اور اس جگہ سوئیں جہاں بابا فرید سوئے تھے۔ دھیرے دھیرے بابا فرید کی یادوں سے منسلک جگہ پر آستانہ بن گیا اور ’ہندوستانی سرائے‘ کے نام سے ایک چھوٹا سا مہمان خانہ بھی جہاں ہندوستانی حاجی قیام کرتے تھے۔
ڈیلی پاکستان کا یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
بی بی سی اردو کے مطابق ’’تاریخی شہر بیت المقدس (یروشلم) میں ایک چھوٹا سا کونہ ایسا ہے جو ہمیشہ سے ہندوستان سے منسوب رہا ہے۔ اگر ہمیشہ نہیں تو گذشتہ آٹھ سو برس کی تاریخ تو ہمیں یہی بتاتی ہے اور اس جگہ کے موجودہ متولی کا دعویٰ ہے کہ ان کا گھرانہ آنے والی نسلوں تک یہاں بھارت کا پرچم لہراتا رہے گا۔1200 کے لگ بھگ جب صلاح الدین ایوبی کی فوجوں نے صلیبیوں کو یروشلم سے نکال باہر کیا تو فریدالدین اور لقب ’گنج شکر‘ تشریف لائے جن کا تعلق بھارت، پاکستان اور افغانستان بھر میں پھیلے ہوئے مشہور چشتیہ سلسلے سے تھا۔ آج بھی ان تینوں ممالک میں ہزارہا لوگ اس صوفی بھائی چارے کا حصہ ہیں اور یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ بابا فرید کی سوانح حیات لکھنے والے کہتے ہیں یہاں پہنچنے کے بعد بابا فرید اپنا زیادہ تر وقت مسجد اقصیٰ کے ارد گرد پتھرکے فرش پر جھاڑو لگاتے یا روزہ رکھ کر اس قدیم شہر کے اندرون میں واقع ایک غار کی خاموشی میں عبادت میں گزارتے تھے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک ایسے شہر میں جہاں زمین کے چپے چپے پر ہر کوئی پوری شدت سے اپنا تاریخی حق جتاتا ہے وہاں یہ جگہ اب بھی ایک ہندوستانی گھرانے کے ہاتھ میں ہے۔اس سرائے کے موجودہ رکھوالے 86 سالہ محمد منیر انصاری جنگ عظیم دوم سے پہلے سے اس مقام پر رہ رہے ہیں اور وہ ان تاریخی دنوں کے گواہ ہیں جب فلسطین کی سرحد اس سرائے کے مرکزی دروازے تک محدود ہو گئی تاہم جنگ عظیم کی وجہ سے یہاں حاجیوں کا سلسلہ رک گیا اور منیر انصاری کا رنگین بچپن بھی ختم ہو گیا۔
رپورٹ کے مطابق سرائے میں حاجیوں کی بجائے فوجی قیام کرنے لگے اور یہ جگہ ’انڈین فورتھ انفینٹری ڈویژن‘ کے ان فوجیوں کی لیے مختص ہو گئی جنھوں نے 1948ء میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان پہلی جنگ کے آغاز پر فوج کی نوکری چھوڑ دی تھی۔جب تک منیر انصاری اپنے والد کی جگہ ’شیخ‘ یا سرائے کے نگہبان بنے، اس وقت تک گولہ باری اور فلسطینی مہاجرین کی بہتات کی وجہ سے سرائے کی عمارت خاصی خراب ہو چکی تھی۔ 1967 ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں جب اسرائیلی فوجیں گولے برساتی ہوئی شہر میں داخل ہوئیں تو سرائے کی عمارت بھی گولوں کی زد میں آ گئی۔جب اسرائیلی فوجی سرائے پر بمباری کر رہے تھے تو شیخ منیر اپنے بیوی بچوں کو لے کر ایک کمرے سے دوسرے کمرے کو بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن جب وہ بابا فرید کے آستانے کے قریب پہنچے تو ان کے قریب ہی ایک گولہ پھٹا۔ آستانے کی چھت نیچے آن گری۔ شیخ منیر کا چہرہ اور ہاتھ بری طرح جھلس گئے۔ انھوں نے اسی حالت میں زندہ بچ جانے والے عزیزوں کو ملبے سے نکالنا شروع کر دیا لیکن ان کی والدہ، بہن اور دو سالہ بھانجا مر چکے تھے۔بعد میں جب شیخ منیر ہسپتال سے اپنے گھرانے سمیت واپس آئے تو انھیں سرائے کی جگہ ایک کھنڈر نظر آیاجہاں بیشترکمرے بھی تباہ ہوچکے تھے۔
بابا فرید نے جس بیت المقدس میں قدم رکھا تھا وہ تقریباً نصف صدی تک عیسائیوں کے ہاتھ میں رہنے کے بعد کچھ ہی عرصہ پہلے مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا، اس وقت تک صلیبی طاقتیں بحیرہ روم کے ساحلوں پر ایک عرصے سے رہ چکی تھیں اور وہ اس خطے سے واپس نہیں گئی تھیں۔ صلاح الدین ایوبی جانتے تھے کہ اگر مسلمانوں نے بیت المقدس اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے تو اس کے لیے انہیں نہ صرف صلیبی فوجوں کا مقابلہ کرنا ہوگا بلکہ اس شہر سے انہیں اتنا ہی شدید لگاؤ ہونا چاہیے جتنا صلیبیوں کو ہے۔اسلام کے ابتدائی ایام سے ہی بیت المقدس دنیا بھر کے صوفیوں کو اپنی جانب کھینچتا رہا ہے۔ ان لوگوں میں کچھ عجیب و غریب کردار بھی شامل تھے۔ کچھ روشنی کی تلاش میں ننگے پاؤں قصبہ قصبہ پھر رہے تھے اور کچھ مجنون جو صحرا میں اونی چوغے پہنے پھرتے رہتے تھے اور جہاں رات پڑتی وہاں ریت پر ہی سو جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں میں وہ تارکِ دنیا کردار بھی شامل تھے جو خدا کی یاد میں گریہ کرتے اور محبت کے گیت گاتے قریہ قریہ پھرتے رہتے تھے لیکن ان صوفیوں کے ماننے والوں کی تعداد کبھی کم نہیں ہوئی اور یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ صوفی روایت میں خدا کی رحمت اور نرمی کو اجاگر کیا جاتا ہے نہ کہ ایسے خدا کا خوف جس کے قوانین اٹل ہیں اور اس کے ہاں معافی نہیں، سختی ہے۔شہر کو فتح کرنے کے بعد صلاح الدین ایوبی نے گنبدِ صخرا کے نیچے چٹان کو عرق گلاب سے غسل دلوایا اور یروشلم کو ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کے لیے پاک کیا۔ صلاح الدین نے اس متبرک شہر میں صوفیوں کا کھْلے بازوؤں کے ساتھ استقبال کیا اور شہر کے تمام مزاروں اورمقبروں پر صوفیانہ اظہارِ عقیدت کی حوصلہ افزائی کی۔
یہی وہ ماحول تھا جس میں ہندوستانی حاجیوں کا پہلا قافلہ پنجاب کی روائتی دھنوں اور سازوں کے ساتھ بابا فرید کی سرائے پر پہنچا تھا۔ہو سکتا ہے کہ اپنی پنجابی دھنوں میں یہ حاجی بابا فرید کا کلام ہی گا رہے تھے کیونکہ بابا فرید نے ایک دو نہیں ، بلکہ ہزاروں ایسی نظمیں تخلیق کی ہیں جن میں عشق حقیقی کے بیان کے لیے بھی عشق مجازی کے استعارے استعمال کیے جاتے ہیں۔بابا فرید نے اپنے دور کی دونوں بڑی مذہبی زبانوں عربی اور سنسکرت کے بجائے اپنی مادری زبان پنجابی کو اظہار کا ذریعہ بنایا۔ اس سے پہلے کسی نے ادب میں پنجابی زبان استعمال نہیں کی تھی۔
روحانی وظائف اور قصے وغیرہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
بابا فرید کی شاعری نے نہ صرف پنجابی ادب کی بنیاد رکھی بلکہ ان کی نظموں نے پنجاب کی صوفی روایات اور سکھوں کی مذہبی روایات کو ایک لڑی میں پرو دیا۔یہ بابا فرید کے صوفیانہ کلام کا کمال ہی ہے کہ ان کی درجنوں عارفانہ نظموں اور اشعار کا پرتو ہمیں سکھوں کی مقدس ترین کتاب گرو گرنتھ صاحب میں بھی دکھائی دیتا ہے۔بابا فرید کے بیت المقدس میں قیام کرنے کے بعد کے تین چار سو برسوں میں دنیا بھر کے صوفیوں کو یہاں آ کر ہندوستانی صوفیوں کے مریدوں سے ملنے کا موقع ملا۔ اس دوران سرکاری سطح پر یہاں ان گروہوں کی رہائش اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے مدرسے اور دیگر عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ مراکش سے لے کر کرائیمیا، اناتولیہ اور ازبکستان سے آنے والے درویشوں نے اس سرائے اور اس سے ملحقہ سہولیات سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔خلافت عثمانیہ کے دور کے مشہور سیاح ایویا سیلیبی 17ویں صدی میں یہاں پہنچے تو انھوں نے لکھا کہ یروشلم میں صوفیوں کے 70 آستانے تھے اور انھوں نے یروشلم کو ’درویشوں کا مکہ‘ قرار دیا۔
جس دن جنگ عظم دوئم شروع ہوئی اس دن بھی ان میں سے بیشتر آستانے اپنی جگہ موجود تھے۔ یہاں تک کہ صلاح الدین ایوبی کا تعمیر کردہ آستانہ بھی یہاں موجود تھا جس کی اتنی صدیوں تک حفاظت کا سہرا خلافت عثمانیہ کے سر جاتا ہے لیکن جنگ اور دور جدید کے آغاز نے ہندوستانی حاجیوں کی بیت المقدس میں قیام کی روایت کو ختم کر دیا۔ مشرق وسطیٰ میں نئی سرحدوں کے کھینچے جانے کے بعد حاجیوں کے قافلوں کے راستے مسدود ہو گئے۔ نہ صرف یہ بلکہ خود صوفیوں کے بارے میں کچھ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ان کا طرز زندگی باغیانہ ہے اور جدید دور میں قرونِ وسطیٰ کی ان روایات کی کوئی جگہ نہیں ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ایک کر کے ان آستانوں کے دورازے بند ہونا شروع ہوگئے اور یہ قدیم عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکا ہونا شروع ہو گئیں۔ یہاں تک کہ 1922 ء میں خلافت عثمانیہ کا سورج غروب ہوگیا۔